سیدہ سحرش بخاری
میرے گھر کے سامنے پیپل کا ایک اور درخت آج کٹ گیا، ساتھ ہی گھروں اور خاندانوں کے جھگڑے چوپالوں سے نکل کر کورٹ کچہری میں جا کھڑے ہوئے۔ یہ پیپل ایک درخت ہی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کا آپس کا پیار، ان کے مسائل اور لوگوں کا ایک دوسرے کے لیے احساس اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔ بہت سی چوپالوں کے فیصلے اسی درخت نے سنے تھے۔
آج ترقی کے اس دور میں پیپل کے درخت کو کاٹ کر رشتوں کا تقدس، پیار، احساس، مروت اور دلوں کی مٹھاس کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے۔ کنبےکے افراد زندگی کے ہر مرحلے میں اہم طریقوں سے جڑے ہوتے ہیں ، اور یہ تعلقات زندگی بھر افراد کے لئے معاشرتی روابط اور اثر و رسوخ کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ خاندانی تعلقات کا معیار ، معاشرتی تعاون، محبت ، مشورے اورنگہداشت وغیرہ۔ ایک خوش حال زندگی گزارنے کے لیے اس بات کا ادراک لازمی ہے کہ زندگی کاہر رشتہ اپنی قدر اور اہمیت برقرار رکھے ،کیوں کہ اب ہم گلوبلائزیشن کے دور میں جی رہے ہیں، جہاں ہم نے ٹیکنالوجی کے ذریعے پوری دنیا کو ایک کلک کا مرہون منت کردیا ہے۔
آج بھری محفل میں بھی تنہا ہیں ،لیکن فیس بک ،ٹوئیٹر ،انسٹا گرام اور دیگر سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر موجود لوکھوں لوگوں کو اپنے حلقہ احباب میں شامل کر لیا ہے جب کہ اصل زندگی اس کے بر عکس ہے ۔حقیقی زندگی میں ہمیں زندگی کی خو ب صورتی کا اندازہ نہیں ہے۔ اس دور میں اپنے آپ کو پرکھنے اور یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ ایک دوسرے سے محبت سے پیش آئیں۔ لیکن ہم نے تو پیار ،محبت ،مروت ،لحاظ اور تقدس کو پیچھے کہاں چھوڑ دیا ہے۔ سوچیں نفا نفسی کے دور میں کہیں بہت دور تو نہیں نکل گئے۔بے مول رشتوں کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور تو نہیں کردیا ؟
اگر ایسا ہے تو یاد رکھیں انسان کی زندگی ایک در خت کی مانند ہے ،جس سے منسلک ہر رشتہ ہرے بھرے پتوں اور شاخوں کی طر ح پروان چڑھایا جاتا ہے ۔اس شجر میں خوبصورت پتو ں کا رنگ انسیت ،چاہت ،قربت والفت کا ہوتا ہے، جس کو ارمانوں اور امنگوں سے سینچا جاتا ہے ، جس پر محبتوں کے پھول کھلتے ہیں، پھر یہی درخت بہت سی کونپلوں کو اس دنیا میں پیار، محبت، امن اور بے غرض زندگی گزارنے کے گر سیکھاتا ہے۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کہیں ہم نے پیپل کے درخت کے ساتھ رشتوں کے شجر کو بھی ہلا تو نہیں دیا؟
اگر اس کی جڑیں اُجڑگئیں اور شاخیں ٹوٹ گئیں ،تو کیا ہم پتوں کو مرجھانے اور درخت کو سوکھنے سے بچا پائیں گے؟ لہٰذا ان رشتوں کے درخت کو اللہ تعالیٰ کی نعمت گردانتے ہوئے پروان چڑھائیں، تاکہ اُن کی مٹھاس، تقدس اور مروت کو ختم ہونے سے بچا یا جاسکے۔ انسانی رشتے زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، جس پر زندگی کی واضح حقیقت دوسروں کی خوشیوں اور غموں میں شامل ہونے کا گر سکھاتی ہے، جس میں رشتوں کو زندگی کا مرکز حاصل ہوتا ہے، مگر آج ہر رشتہ نازک ڈور سے بندھا ہوا ہے۔ اعتماد ،خلوص اورمحبت میں خلا آنےکی وجہ سے رشتے کمزور ہو گئے ہیں۔جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے دوریوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
حسد ،انا اور خود غرضی کے سبب آج بہت سے رشتوں میں دراڑیں پیدا ہو گئی ہیں۔ اسی وجہ سے سگے رشتوں میں مٹھاس اور چاشنی کی جگہ ،خود غر ضی اور رویوں کی کڑواہٹ نے لے لی ہے ۔اگر ہم ارد گرد نظریں دوڑائیں تو ہر طرف بے سکونی ،بے چینی اور ٹوٹ پھوٹ دکھائی دیتی ہے۔ کشیدہ ماحول کو ختم کرنے کے لیے باہمی تعلقات کی مضبوطی انتہائی ضروری ہے، ان کا تقدس پامال ہونے سے بچانا ضروری ہے۔ عزت و احترام میں جو کمی آچکی ہے اس کو پر کریں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ رشتوں میں پڑی دراڑوں کو وقت اور توجہ کے پانی سے سیراب کریں۔
میاں، بیوی، اولاد، ماں باپ، بہن بھائی، سب کو اپنے رشتوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے لئے، انا ختم،چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر اور برداشت کا عنصر پیدا کر کے رویوں کو مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے رشتوں کی غذا میں محبت، وقار، انسیت، لحاظ، اور وقت کی فراہمی شامل کریں۔ وہ محبت جو اس کائنات کے وجود میں آنے کی وجہ ہے، وہ محبت جس نے اس کائنات میں رنگ بھرے۔ وہ محبت جس نے ہر رشتے کا کھو کھلا پن ختم کر کے اس کی نگہداشت کی۔ لیکن آج ہم بہتر سے بہترحاصل کرنے کی دوڑ میں اس محبت کا گلا گھونٹ چکے ہیں۔
اگر رشتوں کا خالی پن دور کرنا چاہتے ہیں تو محبت اور احساس کے جذبے کو دوبارہ جگا نا ہوگا ۔ پیار ومحبت سے ہر قیمتی رشتے کو اپنا گرویدہ بنا نا ہوگا۔ سخت مزاج ، بے پروا لہجے، غرور و تکبر، دلوں میں حسد، بغض اور کینہ ختم کر کے رشتوں کو پھر سے محبت اور احساس سے سر شا ر کرنا ہوگا۔ لازم ہے کہ اس سبق کو پھر سے دہرایا جائے کہ صبر، شکر، ایثار، قربانی، تحمل، درگزر، پیار، محبت، خدمت، صداقت، حیا اور قناعت معاشرے کو تازگی اور رشتوں میں مٹھاس گھولنے کا کامیاب حربہ ہے ،جس کو آزمانا ہوگا۔ ہر آنے والی نسل کو پروان چڑھانے والی گود کو محبت کی چاشنی کے ذریعے رشتوں کے تقاضے اور ان کی ادائیگی کا درس دینے کا عہد کرنا ہوگا۔