• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے نئے معاہدے کی بازگشت اب تک سنائی دے رہی ہے۔اس معاہدے کے بعد مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف کی ہدایت پر آنے والے متوقع منی بجٹ میں بھی بجلی کے نرخوں میں 4.85 روپے فی یونٹ اضافے کی نوید سناکر اربابِ اقتدار نے قوم کا خون پہلے ہی خشک کردیا ہے۔ اس سے بجلی کے صارفین پر ماہانہ 61ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے حکمرانوں میں فہم و فراست نام کی کو ئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان مشکل ترین دور سے گزر رہاہے، لوگ دن بدن مہنگائی سے تنگ آچکے ہیں، ان حالات میں بیرون ملک مقیم پاکستانی امید کی آخری کرن دکھائی دیتے ہیں۔آج پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت کو بیرون ملک پاکستانیوں نے ہی سہارا دیا ہوا ہے۔پاکستان میں تعلیم، صحت اورکئی شعبوں میں بھی یہی درد دل رکھنے والے پاکستانی پیش پیش ہیں۔چند روزقبل اسی تناظر میں مجھے لاہور میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی سماجی اور فلا حی تنظیم ہیلپنگ ہینڈ کی چار روزہ ٹریننگ ورکشاپ کی اختتامی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ اس تقریب میں کچھ معذور خواتین وہیل چیئر پر شریک تھیں۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ ہزاروں معذور مردوخواتین اور بچوں کا علاج معالجہ اور کفالت بیرون ملک مقیم پاکستانی اس پلیٹ فارم کے ذریعے اپنی جیب سے کر رہے ہیں۔اس موقع پر ہیلپنگ ہینڈ کے پاکستان میں روح رواں محمد سلیم منصوری سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھےبتایا کہ والدین کی شفقت سے محروم بچے صاف دل،حساس طبیعت اورگہرے احساسات کے ساتھ زمین پر پائی جانے والی سب سے معصوم ترین روحیں ہیں۔ اسلام میں ایسے یتیم بچے کی کفالت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے جو اپنے گھر،معاشرے اورخاندانی ماحول میں ایک با وقار زندگی گزارنے کے لئے سخت محنت کر رہا ہو۔اس وقت پاکستان میں 42لاکھ کے قریب ایسے یتیم بچے موجود ہیں جن کے سر سے والد یا دونوں والدین کا سایہ اٹھ چکا ہے۔ پاکستان میں دردِ دل رکھنے والے ہزاروں افرادبھی اس وقت یتیم بچوں کی کفالت کر رہے ہیں۔ان میں زیادہ تعداد ان افرا د کی ہے جو ان یتیم بچوں کی انفرادی حیثیت میں مدد کرتے ہیں۔ان میں صاحب ِخیر افراد کی کثیر تعدادشامل ہے لیکن سب سے بڑا طبقہ یتیم بچوں کے والدین کے خاندان کے افراد پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ کئی سماجی ادارے بھی یتیم بچوں کی کفالت کر رہے ہیں۔ یتیم بچوں کی زندگی میں قابل ذکر تبدیلی کےلئے بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی اور اعلیٰ تعلیم تک معاونت اس پروگرام میں شامل ہے۔ اس پروگرام کے تحت قدرتی آفات سے متاثر سندھ کے دس اضلاع، پنجاب کے بارہ، بلوچستان کے چھے،خیبر پختونخوا کے آٹھ،آزاد کشمیرکے پانچ اورگلگت بلتستان کے ایک ضلع کا انتخاب کیاگیا ہے۔منتخب علاقوں میں یتیم بچوں کی زندگی میں بہتری لانا اور انہیں عام بچوں کے برابر مواقع فراہم کرنااس پروگرام کا بنیادی مقصد ہے۔والدین کے سائے سے محروم بچوں کی معاونت کا ماڈل پاکستان بھر میں اپنی انفرادیت کے حوالے سے مقبول ہے۔یہ ماڈل بچوں کے نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی نشوونما کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر ڈالی گئی ہے۔جس کے تحت بچوں کو تعلیم صحت، خوراک کی سہولتیں، شخصیت کی تعمیر اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا تصور ان کے گھر، ماحول اور خاندان میں رہتے ہوئے دیا جائے۔ اس پروگرام کے زیر انتظام پاکستان بھر میں 43اضلاع کے 9,000 بچوں کی کفالت کی ذمہ داری ہیلپنگ ہینڈ سرانجام دے رہی ہے۔ آرفن سپورٹ پروگرام کے زیر انتظام تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے، جس کے ذریعے وہ صاف ستھرا یونیفارم خریدنے،فیس کی ادائیگی اور دیگر بنیادی تعلیمی ضروریات کو بروقت پورا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ نئے سال کے تحفے کے طو رپر ’’اسکول بیگ“ فراہم کیا جاتا ہے۔مزیدیہ کہ سال کے بہترین طالب علم کو ایوارڈ دئیے جاتے ہیں۔ خوراک کی مد میں رجسٹرڈ بچوں کے خاندانوں کی مالی معاونت کی جاتی ہے۔شائننگ اسٹارز سمر کیمپس، بچوں کے رسائل، بین الاقوامی ایام، لیڈر شپ کیمپس، شجر کاری، صحت و صفائی اور دیگر مہمات، تقریری و تحریری مقابلے اور سپورٹس فیسٹول جیسی تعمیری اور مثبت سرگرمیوں کے ذریعے ان بچوں کی شخصیت کی تعمیر کی جاتی ہے۔بچوں کےاحساس سے آگاہی کی خاطر اساتذہ کی ٹریننگ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کے ذریعے ان بچوں کے اساتذہ کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ والدین کی شفقت سے محروم بچوں کی سرپرستی، ان کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کس انداز میں بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔ آرفن سپورٹ پروگرام ان بچوں کو میڑک تک سپورٹ فراہم کرتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں معاونت کے لیے ہیلپنگ ہینڈ کا ایجوکیشن سپورٹ پروگرام ان طلبا وطالبات کو اسکالر شپ فراہم کرتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ضرورت مند اورحق دار طلبا و طالبات کو میٹرک کے بعد اعلیٰ تعلیم تک تعلیمی وظائف دئیے جاتے ہیں،ہمارے معاشرے میں اگر درد ِدل رکھنے والے مخیر افراداورفلاحی ادارے نہ ہوں تو یقیناً ان باہمت، محنتی اور باصلاحیت طلبہ و طالبات کے خواب ادھورے رہ جائیں۔

تازہ ترین