اسلام آباد (طارق بٹ) گلگت بلتستان؛ وزیر اعلیٰ کا بعض وفاقی عہدیداروں کی تقرری کا مطالبہ، اصول کیخلاف وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے دو افسران کی ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر جی بی میں تبادلے کیلئے ریکوزیشن بھیج دی۔ تفصیلات کے مطابق دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ گلگت بلتستان (جی بی) کے وزیر اعلیٰ خالد خورشید نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جی بی میں بعض وفاقی عہدیداروں کی تقرری کا مطالبہ کیا ہے۔ جی بی رولز آف بزنس 2009 کے مطابق چیف سیکرٹری (سی ایس)، انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی)، ایڈیشنل سی ایس اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، فنانس اور ہوم ڈیپارٹمنٹس کے سیکرٹریز کے عہدے آل پاکستان یونیفائیڈ گریڈ (اے پی یو جی) کے افسران کے لیے مختص ہوں گے۔دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اس اصول کے خلاف وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کے دو افسران کی ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر جی بی میں تبادلے کے لیے ریکوزیشن بھیج دی ہے۔ جی بی کی درخواست پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے چیئرمین ایف بی آر کو ایک خط لکھا ہے جس میں آغا احسن محمود، گریڈ 18، جو اس وقت اسسٹنٹ ڈائریکٹر (آڈٹ) ہیڈ کوارٹر، ڈائریکٹوریٹ آف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ (سنٹرل) لاہور کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، کی طلبی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسرے کیس میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اے جی پی کو ایک خط بھیجا ہے جس میں گریڈ 20 کے محمد طیب کی درخواست کی گئی ہے، جو اس وقت ڈائریکٹر، ایڈمنسٹریشن، آفس آف اے جی پی، اسلام آباد کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ خطوط میں کہا گیا کہ جی بی حکومت ان افسران کی خدمات کو ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر معیاری شرائط و ضوابط پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جی بی رولز کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن وزارت امور کشمیر اور جی بی کی مشاورت سے ایسے تبادلوں کیلئے طے شدہ پالیسی کے مطابق وفاقی حکومت کے افسران کے جی بی میں تمام تبادلوں کا ذمہ دار ہو گا۔ سیکرٹری خزانہ، ایڈیشنل سی ایس اور سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کا تقرر بالترتیب وزارت خزانہ اور پاکستان کی پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن کی مشاورت سے کیا جائے گا۔ قواعد میں مزید کہا گیا ہے کہ محکموں اور خود مختار اداروں میں کام کرنے والے افسران کی تعیناتی اور تبادلے جن کے مضامین جی بی کونسل کے قانون سازی کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں وہ کونسل کی مشاورت سے کیے جائیں گے۔بیوروکریسی کی ایک تجربہ کار شخصیت نے دی نیوز کو وضاحت کی کہ فیڈرل سروس کے تمام پروفیشنل گروپس کے افسران کو روٹیشن پالیسی کے تحت فیڈرل یونٹس یا جی بی اور آزاد کشمیر میں نہیں بھیجا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر انکم ٹیکس یا کسٹم کے افسران کو صوبوں میں بھی تعینات نہیں کیا جا سکتا۔