• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویسے تو پوری زندگی ہی ضائع سی ہوگئی ہے لیکن وزیر اعظم کی پہلوٹھی کی تقریر کے تقریباً پچپن منٹ تو بالکل ہی کھوہ کھاتے میں سمجھو۔ مسلسل پانی میں مدھانی پھرتی رہی اور پیاز کے چھلکے اترتے رہے۔ نتیجہ صفر بلکہ سچ پوچھیں تو صفر بھی نہیں کیونکہ حساب کتاب کی دنیا میں صفر کا بڑا مقام ہے۔ بچپن میں پڑھی ایک کہانی یاد آگئی کہ بچوں کو بھوک سے بلکتے دیکھ کر ماں نے ہنڈیا چولہے پر چڑھا دی۔ آگ جلتی رہی، ہنڈیا ابلتی رہی، بچے بیتابی سے انتظار کرتے رہے، پھر ماں کسی کام سے ادھر ادھر ہوئی تو ایک بچے نے بیقراری سے ہنڈیا کا ڈھکن اٹھادیا تو دیکھا کہ پانی میں پتھر ابل رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی تقریری دیگچی میں تو پانی اور پتھر بھی نہیں تھے۔
”تھا، تھے، تھی“ سے شروع ہونے والی تقریر”گا، گے، گی“ پر ختم ہوگئی۔ رونے پیٹنے سے شروع ہونے والا طویل سین سینہ کوبی پر ختم ہوا تو میں سوچ رہا تھا کہ حضرت کہنا کیا چاہتے تھے البتہ تین چیزیں قابل تعریف تھیں اول وزیر اعظم کی شیروانی، دوم ان کی میچنگ گھڑی، سوم ان کے میچنگ کف لنکس۔ باقی کچھ بھی نیا نہ تھا۔ کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں تھی جو دنیا پہلے سے نہ جانتی ہو۔
چھ ماہ میں ا ندھیرے ختم کرنے کے دعویدار اور ”روشن پاکستان“ کے نقیب وزیر اعظم نے پانچ سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا”وعدہ“ کیا ہے۔ یعنی ادھر ان کی میعاد پوری،ادھر لوڈشیڈنگ پوری۔ ایک ”وعدہ“ اقتدار میں آنے کے لئے تھا، دوسرا اقتدار میں ٹکے رہنے اور ٹرم پوری کرنے کے لئے ہے۔ باقی سب کہانیاں!
لفظ کیا لوگ تو تحریر سے پھر جاتے ہیں
تونے کیوں میری ہر اک بات کو سچ جانا تھا
مضحکہ خیزترین تضاد یہ تھا کہ وزیر اعظم نے جن”عناصر“ کی بے رحمانہ کرپشن اور نااہلیوں کے حوالے دئیے، انہی کو ساتھ لے کر چلنے کے عزم کا اظہار بھی کیا اور اپنے اس99ء والے دور کو بھی سراہا۔ جس میں ریاض بسرے بھی ہوتے تھے،چن زیب خود سوزیاں بھی کرتے تھے، فارن کرنسی اکاؤنٹ بھی سیز ہوئے تھے اور ”شیر آٹا کھا گیا“ جیسی شہ سرخیاں بھی چھپتی تھیں سو اگر اسی”سنہری دور“ کا ایکشن ری پلے ہی قوم کا منتظر ہے تو میں قوم کو پیشگی میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔
ہمارے ہاں محاورہ چلتا ہے کہ فلاں نے فلاں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا۔ وزیر اعظم نے اس تقریر میں اس ”کار خیر“ کے لئے ایک سے زیادہ ٹرک استعمال کئے اور ہر کوئی کنفیوژن کا شکار ہے کہ کس ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگے۔آج کل بھارت کے ایک لیجنڈ اتھلیٹ پر بنائی گئی فلم ”بھاگ ملکھا بھاگ“ کا بہت چرچا ہے تو یہاں تو ماشاء اللہ ملکھاؤں کی فوج ہے جو مختلف ن لیگی ٹرکوں کے پیچھے بھاگ بھاگ باؤلی ہوگی اور بیک گراؤنڈ میں یہ گیت چل رہا ہوگا۔
”تمام عمر چلے اور گھر نہیں آیا“
اجڑے باغوں سے شروع ہو کر محاورے والے سبز باغوں پر ختم ہونے والی اس سنی سنائی تقریر میں وزیر اعظم نے بڑی مہارت و پرکاری کے ساتھ خود کو خود ہی”بابائے قوم ثانی“ بھی ڈیکلیئر کردیا ہے۔ فرمایا”بطور وزیر اعظم ہر شہری میری اولاد کی طرح ہے“ تو”بابائے قوم جونئیر“ کو چاہئے آئندہ چین اور سعوی عرب کے دورے پر ساری اولاد کو ساتھ لے کر جائیں کیونکہ اچھا باپ اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔ کھربوں ڈالر کی ملکی و غیر ملکی جائیداد
میں حصہ نہیں”حفاظت“کے لئے اپنی اولاد کو اس سے آدھی سیکورٹی ہی عنایت فرمادیں جتنی آپ کی اولادوں کو میسر ہے۔وزیر اعظم کے اس شاعرانہ جملے کا بھی جواب نہیں کہ……”ہم سب ایک خاندان کا حصہ ہیں“ یہ کیسا خاندان ہے جس کے چند افراد کے جوتوں جتنی چمک باقی خاندان کے چہروں اور آنکھوں تک میں نہیں۔ ساحر نے سچ کہا تھا کہ
اس طرف بھی آدمی ہے اس طرف بھی آدمی
اس کے جوتوں پر چمک ہے اس کے چہرے پر نہیں
پاکستان ایک خاندان کی طرح ہوتا تو نہ کبھی ٹوٹتا، نہ کوئی اسے لوٹتا اور نہ آج اس کا یہ حال ہوتا کہ کیری پاکستان میں بیٹھ کر کہہ گیا کہ……”ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے“۔وہ دھڑلے سے مرمت کررہے ہیں، آپ مسلسل مذمت کررہے ہیں۔رہ گئے سرمایہ کار جو اندرونی و بیرونی سے سرمایہ کاری کریں تو حضور!سرمایہ کار جذباتی ا ور بیوقوف ”عوام“ نہیں ہوتا کہ اس ملک میں انویسٹمنٹ کرے جس کے کرتوں دھرتوں کی اپنی ا نویسٹمنٹ ملک سے باہر ہوتی ہے۔ یہاں سرمایہ کاری صرف وہ کرے گا جسے”پڑچھے“ اتارنے کا سوفیصد یقین ہوگا۔ غیر سیاسی سرمایہ کار تو اس ملک کی سرحد دیکھ کر ہی توبہ توبہ کر اٹھے گا۔وزیر اعظم نے مشہور زمانہ”ایم اویوز“ کا باجہ بھی بجایا جبکہ ”میمورنڈم آف انڈرسٹینڈنگ“ کی اوقات سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔ مجھے یہ”راگ میمورنڈم“ سن کر وہ گھسا پٹا انگریزی محاورہ"If the wishes were horses"خوب یاد آیا اور یوں بھی ”ایم اویوز“تو زرداری صاحب نے بھی اتنے سائن کئے ہیں کہ اگر ان کی ردی بیچی جائے تو شاید قرضہ کی ایک آدھ قسط ہی اتر جائے۔”معاشی مضبوطی“ پر بھی مختصر سا لیکچر دیا گیا سو وہ تو سیانے صدیوں پہلے کہہ گئے کہ”جن کے گھر دانے ان کے کملے بھی سیانے“ تو یہ کون سی نئی بات؟ قصہ کوتاہ کہ ”تھا، تھے، تھی“سے شروع ہو کر ”گا ،گے ،گی“ پر ختم ہوگئے۔ یہ تقریر نہ بھی ہوتی تو کیا فرق پڑجانا تھا… تھے… تھی؟ خوامخواہ قوم کے55منٹ ضائع کئے لیکن جہاں66سال اور آدھا ملک ضائع ہوگیا وہاں55منٹ کس کھاتے میں؟
تازہ ترین