• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودی کے اپنے آرمی چیف سے تعلقات اچھے نہیں، رحمان ملک


کراچی ( ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے عبدالرحمن ملک نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اپنے موجودہ آرمی چیف سے تعلقات اچھے نہیں ، بی بی کے قاتل ٹی ٹی پی پاکستان تھی اس کے سینئر لوگ تھے پاکستان سے کچھ لوگ ملوث ہوسکتے ہیں،جتنے کردار اس میں ملوث ہوئے سب کی شناخت بھی کی پکڑا بھی اور عدالت نے سزا بھی دی اور پھر چھوڑا بھی گیا،اس کا سوال تو آپ کسی اور سے پوچھیں ، ٹی ٹی پی اور افغان طالبان میں گہری دوستی ہے، بھارت نے افغان طالبان او ر ٹی ٹی پی کی مدد کی۔

تفصیلات کے مطابق جیو نیوز کے پروگرام جرگہ کے آغاز میں میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عبدالرحمن ملک کو زیادہ تر لوگ سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے وزیر کی حیثیت سے جانتے ہیں

۔اس وقت بھی وہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے سینئر ترین رکن ہیں۔لیکن کچھ عرصے سے رحمن ملک کا ایک دوسرا روپ بطور مصنف ہمارے سامنے آیا ہے میرے سامنے اس وقت ان کی کتابیں رکھی ہیں۔ ان کی تحریر کردہ کتب میں داعش آئی ایس ایس، ٹاپ100انویسٹی گیشن،بلیڈنگ کشمیراور مودیز وار ڈاکٹورائن شامل ہیں۔

سابق وزیر داخلہ ، عبدالرحمن ملک نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈس انفو لیب نے جو پوری ایک رپورٹ بنائی اس میں بپن راوت کا بھی کردار تھا کیونکہ پاکستان کے خلاف جو حکمت عملی بنتی رہی ہیں اس میں صرف اجیت ڈوول کا کردار نہیں ہے بلکہ ان کا بھی حصہ تھا،بہت سے ملکوں کے ساتھ بیک ڈور چینلز میں بپن راوت کام کرتے تھے۔

تامل ناڈوز کے ساتھ جوآپریشنل صورتحال بنائی گئی پلان بنایا گیا وہ بھی بپن راوت نے بنایا وہ کافی نظروں میں آچکے تھے ۔اس وقت کیونکہ انڈر رفٹ ہے اور مودی کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ بپن راوت کو زیادہ پسند کرتا تھاو ہ اس کو ریٹائر نہیں دیکھنا چاہتا تھاتو ا ن کو اٹھا کر چیف آف ڈیفنس بنا دیا تھا۔لیکن اس وقت انڈیا کے آرمی چیف کے ساتھ مودی کے تعلقات اچھے نہیں ہیں لیکن مودی کے امیت شاہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔

اگر یہ کہہ دیتے ہیں کہ ان کے چیف آف ڈیفنس کو تامل ناڈو نے مارا ہے تو اس کا مطلب یہ تو ہار گئے۔لوگ تھوڑے دب جاتے ہیں لیکن پھر سامنے آجاتے ہیںآ پ نے دیکھا کہ ٹی ٹی پی پاکستان دب گئی آپ سب کہتے ہیں کہ معاملہ ختم ہوگیا فقیر محمد بھی گیا،خراسانی بھی گیا،مولوی نور محمد بھی گیا۔ لیکن وہ ابھر کر آئے ہیں آج وہ آپ کے ساتھ سامنے ٹیبل پر بات کرنے کی بات کرتے ہیں، بندوں کو رہا کروانے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ہمیں جلال آباد میں پولیٹیکل آفس دے دو۔

ٹی ٹی پی اورٹی ٹی اے کی آپس میں گہری دوستی ہے اور گہرا تعلق بھی قائم ہے۔ٹی ٹی پی کے 25 ہزار لوگ اس وقت افغانستان میں ہیں ۔ٹی ٹی پی کے جن لوگوں نے پاکستانیوں کو شہید کیا ہے کم از کم وہ قابل احتساب تو ہوں آج وہ کہتے ہیں کہ ہماری جنگ بندی نہیں ہے ہمارے 112بندے رہا نہیں کرتے تو ہم جنگ بندی نہیں کرتے۔

ٹی ٹی پی پاکستان اور افغان طالبان کو انڈیا نے مدد دی، اسپن بولدک میں جو صحافی مارا گیا اس کے پاس اس بات کے حقائق تھے۔ اس وقت اہم چیز پاکستانی معیشت کو بچانا ہے پاکستان کی سرحدیں اس وقت مضبوط نہیں ہیں۔میں نے عمران خان کو بھی کہا تھا کہ اپنی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک ساتھ لے کر بیٹھیں اور موجود معاشی بحران کا حل تلاش کریں۔پی ڈی ایم کی کچھ انڈر اسٹینڈنگ ہوچکی ہے جس کی بنیاد پر انہوں نے لانگ مارچ کے لئے چار ماہ کا وقت دیا ہے۔

شاہ نواز بھٹو کی وجہ موت بہت دردناک تھی ان کو وار پوائزن دے کر مارا گیا۔اس شام کو محترمہ بینظیر بھٹو اور پوری فیملی نے ساحل پر کھانا کھایا بڑی بیگم صاحبہ بھی ساتھ تھیں۔ بڑی خوشی خوشی وہ جوڑا گھر گیااور جاتے وقت شاہ نواز بھٹو نے محترمہ کو کہا کہ میں صبح ناشتہ آپ کے پاس کروں گا۔

صبح صبح رپورٹ آگئی کہ ان کا انتقال ہوگیا جب تحقیقات تو پتہ چلا کہ وار پوائزن کا کیپسول ان کے مشروب میں ڈالا گیا تھااور جب وہ مدد کے لئے پکار رہا تھا تو کوئی ان کی مدد کے لئے نہیں پہنچا۔فرنچ اتھارٹیز کی رپورٹ کے مطابق شاہ نواز بھٹو کے قتل میں ان کی اہلیہ کا ہاتھ تھاان کی اہلیہ کچھ امریکیوں سے رابطے میں تھیں۔ جب ٹرائل شروع ہوئی تو امریکیوں کی درخواست پر ان کی بیگم کو فی الفور امریکا لے جایا گیااور آج تک ٹرائل زیر التوا ہے۔

دبئی میں رائل فیملی کے ہمارے ایک دوست محترمہ کے پاس آئے اور ان کو آگاہ کیا کہ آپ کے خلاف قتل کا منصوبہ بن چکا ہے آپ نہیں جائیں محترمہ نے کہا کہ نہیں میں تو جاؤں گی۔چلتے چلتے وقت آجاتا ہے پہلے لندن میں میرے گھر میں ایک میٹنگ ہوتی ہے اور ایک تاریخ کا فیصلہ ہوجاتا ہے جنرل کیانی ان کی طرف سے تھے اور میں محترمہ کی طرف سے مذاکرات کررہا تھا۔

محترمہ نے صرف کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہئے مجھے صرف الیکشن چاہئیں اور الیکشن بھی مجھے شفاف چاہئیں۔وہاں پر میری بات چیت شروع ہوئی جنرل کیانی دو افسر اور ہیں میں نام نہیں لیتاوہ تشریف لے آئے لندن ہماری بات چیت ہوئی۔ جب چلے گئے تو ہمارا طے یہ ہواکہ محترمہ پاکستان آئیں گی اور الیکشن کا اعلان کریں گے ہمیں این آر او نہیں الیکشن چاہئے۔

ابو ظہبی میں بڑی ایک خفیہ ملاقات ہوئی جس میں میں بھی تھابی بی تھیں جنرل کیانی اور ایک جنرل ان کے ساتھ ہوتے تھے جو کور کمانڈر بہاولپور رہے ہیں۔

ابو ظہبی میں جو ہماری آخری ملاقات ہوئی جنرل مشرف سے پوچھئے گا وہ بتائیں گے وہ آئے، آتے ہی کہتے ہیں ہاں ملک بڑا سنا ہے آپ کے متعلق۔ہم ایک کمرے میں بیٹھے بات چیت کررہے تھے تو پھر جنرل مشرف اور بی بی کی پندرہ منٹ کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی لیکن دونوں ہی بات چیت سے مطمئن نہیں تھے۔بی بی واش روم گئیں تو مجھے جنرل مشرف کہتے ہیں یہ آپ کی بہن ہیں تو کافی سخت ہیں ان کو آپ کہیں کہ ابھی پاکستان نہ آؤ۔بی بی جب باہر آتی ہیں تو جنرل مشرف نے کہا کہ دسمبر کے اختتام پر تشریف لائیں ہم سال نو ایک ساتھ منائیں گے۔

بی بی نے کہا کہ جنرل تم کون ہوتے ہوئے مجھے پاکستان آنے سے روکنے والے یہ میرا فیصلہ ہے اور میں اپنی مرضی سے پاکستان آؤں گی کیونکہ میرا پاکستانیوں سے وعدہ ہے تومیں جاؤں گی۔ تو انہوں نے کہا کہ پھر میں آپ کی زندگی کی گارنٹی نہیں دیتاہوں وہاں آپ کی سیکورٹی کا خطرہ ہے وہاں پر یہ مسئلہ ہوگا آپ کے لئے۔یہ سب کچھ ہوا اور فیصلہ یہی ہوا کہ پاکستان جانا ہے ہمارے پاس پاکستان سے الرٹس آرہے تھے اس میں مجھ پر اور محترمہ پر ٹی ٹی پی کی طرف سے الرٹ تھے ۔

اس میں ماسٹر مائنڈ بیت اللہ محسود تھااور افغانستان سے کوئی وزیر آیا جو بیت اللہ محسود کے ساتھ بہت ملتا تھا اور اس کو پیسے بھی دے کر جاتا تھا۔کرزئی نے ناہید خان کو کہا تھا کہ بی بی پاکستان میں لینڈ نہ کریں یہ افغانستان آجائیں میں ان کو اپنے تحفظ میں پاکستان لے کر جاتا ہوں جس کو کرنے سے بی بی نے منع کردیا ۔

ہم نے پرویز مشرف سے یہ کہا تھاکہ آپ نے کس بنیاد پربریگیڈیئر کو بلایااور ان کو کہا کہ آپ جاکر یہ پریس کانفرنس کریں۔ آپ کے پاس یہ کرنی کی اتھارٹی نہیں تھی اس کی بنیاد پر اس کی انویسٹی گیشن ہوئی ۔ہوا یہ تھا کہ بیت اللہ محسود کے ساتھ جو ایک حاجی صاحب تھے اور کے ساتھ انہوں نے دو بندے تیار کئے ایک سعید بلال اور دوسرااکرم اللہ جو اس وقت ٹی ٹی پی پاکستان کے ساتھ نمبر دو کی پوزیشن پر ہے اور ولی نو رکے ساتھ اس وقت وہ موجود ہے۔ولی نور نے جو ایک ہزار صفحات کی بک لکھی ہے اس میں انہوں نے ہماری تفتیش کو انہوں نے کنفرم کیا ہے۔

اخوڑہ خٹک جو ہے اس میں یہ ہوا کہ ایک تھا بندہ چٹان اور عبید الرحمن چٹان اس کا نام تھااور ہم نے بڑے طریقے سے اس تک پہنچے۔ عبید الرحمن کو ہم نے ٹریس کرلیا اس کو ہم پشاور سے پکڑنا چاہتے تھے جب ہم گئے تھے ہمیں ملا نہیں دوسرے دن عبید الرحمن کو ڈرون کے ذریعے مار دیا گیا تھا۔

اگر جنرل مشرف چاہتے تو ان سیکورٹی دے دیتے محترمہ بچ جاتیں ۔جس رات کو محترمہ نے جانا تھا جنرل ندیم محترمہ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے اور کہا کہ کل آپ لیاقت باغ نہ جائیں آپ پر حملہ ہونے والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ بھی ہوجائے جاؤ اور پرویز مشرف کو کہو کہ دھاندلی اتنی کرنی جتنی میں ہضم کرلوں جب انہیں پتہ تھا کہ حملہ ہونا ہے تو انہوں نے بینظیر کو گھر سے باہر آنے کی اجازت کیسے دی۔

دس دن پہلے جب انہیں اطلاعات تھیں تو انہوں نے بی بی کو باہر نہیں جانے دیا تھا۔ اگراتنی سخت انفارمیشن تھی باہر سیکورٹی کیوں نہیں دی ان کی سیکورٹی ود ڈرا کرکے نواز شریف کی طرف کیوں بھیجی گئی۔محترمہ کی گاڑی میں میں نہیں تھا ان کی گاڑی میں ناہید خان،امین فہیم،صفدر، شہنشاہ اور ایک نوکر تھا۔محترمہ کی موت بم سے نہیں ہوئی تھی ان کی موت گاڑی کا ایج لگنے سے ہوئی تھی۔ان کی موت کے بعد ہم نے8لوگوں کو ٹریس کیا کہ وہ اس میں ملوث تھے جس کے پیچھے ہم بھاگتے تھے وہ مار دیا جاتا تھا۔کیا وجہ تھی کہ پولیس کے رجسٹر میں ٹمپرنگ کی گئی ۔

جاتے ہوئے میں کہہ دوں کہ بی بی کے قاتل ٹی ٹی پی پاکستان تھی اس کے سینئر لوگ تھے پاکستان سے کچھ لوگ ملوث ہوسکتے ہیں۔ لیکن جتنے کردار اس میں ملوث ہوئے سب کی شناخت بھی کی پکڑا بھی اور عدالت نے سزا بھی دی اور پھر چھوڑا بھی گیااس کا سوال تو آپ کسی اور سے پوچھیں۔ 

تازہ ترین