عالمی جونیئر ورلڈ کپ ہاکی ٹور نامنٹ میں پاکستانی ٹیم کی کار کردگی مایوس کن رہی، جس کی وجہ ، حقیقت میں قومی کھلاڑیوں کا عدم تجربہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان ہاکی اس وقت جس زوال سے گذر رہی ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے حکام نے جونیئر ورلڈ کپ کی تیاری کے سلسلے میں چار سال کے دوران کسی قسم کی تیاری نہیں کی۔
دو سال کے دوران کورونا کی وجہ سے صورت حال خراب تھی، ہاکی سر گرمیاں دنیا بھر میں معطل تھیں، مگر اس سے قبل پاکستان کی ٹیم کی تیاری کے لئے کیا قدامات کئے گئے، ٹیم انتظامیہ کا اعلان نہیں کیا گیا، ورلڈ کپ سے قبل ایشیا کپ کے حوالے سے بھی کوئی تیاری نہیں کی گئی، ہیڈ کوچ دانش کلیم کا شکوہ ہے کہ ناتجربہ کاری شکست کی اہم وجہ ہے، اس حوالے سے قومی ہاکی ٹیم کے سابق کوچ اولمپئین قمر ضیاء کا کہنا ہے کہ در حقیقت ہم نے اس اہم ایونٹ کے لئے کوئی پلاننگ ہی نہیں کی، یہ تو ہماری خوش قسمتی تھے کہ ایشیا کپ ہاکی ٹورنامنٹ کے کورونا کی وجہ سے نہ ہونے کی وجہ سے ہم کو ورلڈ کپ میں رسائی مل گئی۔
کھلاڑیوں کو تجربہ نہیں تھا اس کے ذمے دار کھلاڑی تو نہیں ہیں، ان کو غیر ملکی ٹیموں سے مقابلے کا موقع فراہم کرنا پی ایچ ایف کی ذمے داری تھی،مگر انہوں نے اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی، ایشیا کپ کے لئے چار سال کا وقت ملا تھا، کورونا تو 2020میں آیا، اس سے پہلے تو ہمارے پاس کچھ کرنے کا وقت تھا جس کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا، اگر ہم کسی غیر ملکی ٹیم کے ساتھ کھلاڑیوں کے لئےمقابلے کا اہتمام کرتے تو اس سے کھلاڑیوں کو سیکھنے کا موقع مل جاتا۔
یہ بات درست ہے کہ مالی مشکلات ہے، مگر فیڈریشن کے بعض عہدے داروں کی وجہ سے کوئی اسپانسر اعتماد نہیں کرتا ہے، فیڈریشن کے صدر بریگیڈئیر خالد کھوکھر کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں ہاکی میں بہتری کے لئے ایسوسی ایشنوں کو فعال کرنا ہوگا، اپنے ساتھیوں کو متحرک کرنا پڑے گا، ورنہ ناکامیوں کا سارا ملبہ ان کے کاندھوں پر ڈال دیا جائے گا۔ جونیئر ورلڈ کپ میں پاکستان نے16ٹیموں میں 11ویں پوزیشن حاصل کی جبکہ ٹائٹل ارجنٹائن کے نام رہا۔ جس نے فائنل میں جر منی میں شکست دی۔
ٹیم کے ہیڈ کوچ دانش کلیم نے وطن واپسی پر جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فیڈریشن نے ہماری تقرری ورلڈ کپ تک کی تھی، اب ان پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں، میں ٹیم کی شکست کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے قوم سے معذرت خواہاں ہوں، انہوں نے کہا ہماری ناکامی نا تجربہ کاری کا نتیجہ ہے، جبکہ گول کے مواقع بھی ضائع کرنے سے اچھے نتائج نہ مل سکے۔
ایونٹ سے کچھ اچھے کھلاڑی سامنے آئے ہیں، ہم نے کچھی اچھی کامیابی حاصل کی، جبکہ جن میچوں میں شکست ہوئی وہ بہت زیادہ بڑے مارجن سے نہیں ہوئی یہ اچھی علامت ہے، دنیا کی ہر ٹیم دس سے بارہ انٹر نیشنل میچز کھیل کر آئی تھی ہماری ٹیم نے اپنا پہلا میچ ہی اس ایونٹ میں کھیلا، فیڈریشن کے تعاون اور اعتماد پر ان کا مشکور ہوں، قومی ٹیم کے آفیشلز کی تقرری ورلڈ کپ تک کی گئی تھی۔