• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے یقین ہو گیا کہ فیصل صاحب انتہائی جھوٹے انسان ہیں۔ ثبوت میرے سامنے تھا۔ پھر بھی مزید چیک کرنے کے لیے اُن کے بیٹے سے پوچھا کہ چنے والی دال پکی ہے، کھا لو گے؟ برخوردار نے نہایت سعادت مندی سے سرہلایا ’’جی انکل‘‘۔ اور میری روح میں سرشاری سی اترتی چلی گئی۔ ریحان نامی اِس لڑکے کی عمر تقریباً 17سال تھی اور یہ گزشتہ ایک ماہ سے میرے پاس ٹھہرا ہوا تھا۔ اس کے والد فیصل صاحب میرے پرانے دوست تھے اور ڈیرہ غازی خان میں الیکٹرانکس کا بزنس کرتے تھے۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی وہ انتہائی پریشانی کے عالم میں ریحان کا ذکر لے بیٹھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریحان بہت بدتمیز ہو گیا ہے۔ آوارہ دوستوں کے ساتھ دیر تک گھر سے باہر رہتا ہے اور تعلیم پر بالکل بھی توجہ نہیں دیتا۔ کسی نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ بیٹے کو دور دراز شہر کے تعلیمی ادارے میں داخل کروا دیں۔ وہیں رہے گا تو عقل ٹھکانے آجائے گی۔ فیصل صاحب کو ہر باپ کی طرح اپنے بیٹے سے بہت پیار تھا لہٰذا وہ چاہنے کے باوجود اس مشورے پر عمل نہ کر سکے لیکن اب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تھا لہٰذا انہوں نے مجھ سے کہا کہ لاہور میں کوئی ایسا تعلیمی ادارہ دیکھوں جہاں ان کا بیٹا بورڈنگ میں رہے اور سدھر جائے۔ میں نے اُنہیں پیشکش کی کہ ایک ماہ کیلئے ریحان کو میری طرف رہنے کے لیے بھیج دیں تاکہ اس کا مزاج دیکھ کر مجھے اس کے لیے مناسب ادارہ تلاش کرنے میں آسانی رہے۔ سو، اب گزشتہ ایک ماہ سے ریحان میرے ہاں رہائش پذیر تھا۔ اِس ایک ماہ کے دوران میں نے جان بوجھ کر ہر کام ریحان کی طبیعت کے الٹ کیا۔ یعنی جو چیز اسے پسند تھی اس کے برخلاف بنوائی لیکن ریحان نے کبھی بھی کوئی شکوہ ٰ نہیں کیا۔ وہ ٹائم پہ سوتا اور صبح بروقت ناشتے کے لیے ڈائننگ ٹیبل پر آن موجود ہوتا۔ وہ کبھی اونچی آواز میں بھی نہیں بولا۔ ایک دو دفعہ میں نے اس کا مزاج چیک کرنے کے لیے جان بوجھ کر اسے گاڑی دھونے کے لیے بھی کہا، حیران کن طور پر اس نے پائپ پکڑا اور گاڑی چمکا دی۔میں نے فیصل صاحب کو فون کیا اور بتایا کہ حضور آپ کیوں اپنے بیٹے کے بارے میں جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ وہ تو انتہائی تابع فرمان اور ڈیسنٹ بچہ ہے۔ ایسے بچے تو قسمت والوں کو ملتے ہیں۔ فیصل صاحب بوکھلا گئے۔ مجھے وہ جھوٹے لگ رہے تھے اور اُنہیں میری باتیں جھوٹ لگ رہی تھیں۔ انہوں نے کافی دیر مجھ سے تفصیل پوچھی اور اگلے ہی دن لاہور آن موجود ہوئے۔ بیٹے سے ملے، اسے پیار کیا اور گلے لگایا۔ میں باپ بیٹے کو کمرے میں چھوڑ کر کھانے کا کہنے کے لیے باہر آگیا۔ تھوڑی دیر بعد کمرے سے تیز تیز آوازیں آنے لگیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے گھٹی گھٹی آواز میں لڑائی ہورہی ہے۔ میں نے اخلاقیات پس پشت ڈال کر کمرے کی پچھلی طرف سے کھڑکی کے پاس آکر کان لگا دیے اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ریحان اپنے باپ پر برس رہا تھا ’’ابو مجھے نہیں یہاں رہنا، مجھے الگ کمرہ لے کر دیں اور موٹر سائیکل بھی۔ آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے۔ میرا موبائل اتنا پرانا ہو گیا ہے لیکن آپ کو کوئی احساس ہی نہیں…‘‘ اس روز میں نے ریحان کو بالکل مختلف روپ میں دیکھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ باپ کو کچا چبا جائے گا۔ فیصل صاحب بےچارگی سے اسے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ تھوڑی دیر بعد میں کمرے میں داخل ہوا تو ماحول پہلے جیسا پرسکون تھا۔ میں نے ریحان کو پیسے دیے اور پیار سے کہا ’’بیٹا ذرا تنور سے روٹیاں لے آئو گے؟‘‘ ریحان نے سرجھکا کر اثبات میں سرہلایا اور پیسے پکڑتے ہوئے باہر نکل گیا۔ فیصل صاحب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ میں ان کے قریب ہوا اور معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ میں اُن کی ساری باتیں سن چکا ہوں لیکن سمجھ نہیں آرہی کہ ریحان میرے گھر میں اتنا شریف اور اُن کے گھر میں ولن کیوں بن جاتا ہے؟ فیصل صاحب نے گہری سانس لی ’’بھائی آج کل کے بچے دوسروں کے گھروں میں بڑے تمیز دار بن کے رہتے ہیں۔ انہیں اپنوں کی بےعزتی اور غیروں کی خدمت کرکے بڑا سکون ملتا ہے۔ انہیں اپنے گھر میں ہزار سہولتیں میسر ہوں، یہ اسے جوتے کی نوک پر لکھتے ہیں لیکن غیروں کے گھر چنے کی دال بھی کھانے کو مل جائے تو نہایت محبت اور اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ اپنے گھر میں یہ بچہ عذاب بنا ہوا ہوتا ہے لیکن دیکھ لو یہاں آکر تمہارے ساتھ یہ کیسا سعادت مند بنا ہوا ہے۔ عموماً اس عمر کے بچوں کو اپنے گھر والے دشمن ہی لگتے ہیں۔ دنیا جہان کی نعمتیں میسر ہونے کے باوجود انہیں لگتا ہے کہ ان کے والدین، ان کے بہن بھائی ان کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ ان کو کسی بھی رشتہ دار کے گھر بھیج کے دیکھ لو، یہی جواب ملے گا کہ آپ کا بچہ تو بہت تمیز دار ہے لیکن پتا نہیں کیوں اپنے گھر آتے ہی ان کے اندر کی تمام تمیز ہوا ہو جاتی ہے‘‘۔ ابھی اتنی ہی بات ہوئی تھی کہ ریحان روٹیاں لے کر آگیا۔ میں اٹھنے لگا تھا کہ فیصل صاحب جلدی سے بولے ’’پلیز تھوڑی دیر یہیں بیٹھ جائو‘‘۔ میں نے ایک لمحہ توقف کیا پھر دوبارہ صوفے پر دراز ہو گیا۔ فیصل صاحب نے ریحان کی طرف دیکھا ’’بیٹا ذرا میری ٹانگیں تو دبا دو، کافی تھک گیا ہوں‘‘۔ ریحان پورے احترام سے اٹھا اور باپ کے قدموں میں بیٹھ کر ان کی ٹانگیں دبانے لگا…‘‘

تازہ ترین