• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”شکل مومناں کرتوت کافراں“ بلکہ سچ پوچھیں تو ”کفار مغرب“ تو ایسے غلیظ، وطن دشمن، عوام دشمن، سماج دشمن اور انتہائی قابل نفرت کاموں کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتے۔ مہذب دنیا کا کوئی جرائم پیشہ اور پرلے درجہ کا گنہگار بھی اپنے وطن اور اہل وطن کی اس طرح بوٹیاں نوچنے کا تصور تک نہیں کرسکتا جو ہمارے ہاں نام نہاد شرفاء اور معززین کا معمول بن چکا۔
بدکاری اور بدکرداری کی اس حرام دیگ کا صرف ایک دانہ چکھاتا ہوں، مزہ نہ آئے تو پیسے واپس۔ یہ ایک قومی اخبار کا فرنٹ پیج ہے جس پر دو کالمی رنگین تصویر چھپی ہے جس میں ایک نورانی چہرے والے باریش آدمی کی تصویر ہے جس میں اس کے سر پر سفید گول ٹوپی اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں بھی صاف نظر آرہی ہیں۔ پولیس والے اسے ضمانت منسوخ ہونے پر گرفتار کر کے لیجا رہے ہیں۔ مالی دہشت گردی کے اس ملزم کے گرد پولیس والوں کے علاوہ کچھ سفید پوش معززین بھی ہیں جو اس قومی مجرم کے عزیز و اقارب بھی ہوسکتے ہیں۔ تصویر کا کیپشن ملاحظہ فرمایئے۔
”گیس چوری میں ملوث فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اورئینٹ مل کر مالک ملک انور کو ضمانت منسوخ ہونے کے بعد پولیس گرفتار کر کے لے جارہی ہے“۔
میں نے کچھ فیصل آبادی دوستوں کے ذمہ لگایا ہے کہ معلوم کریں یہ کتنے حج اور عمرے کر چکا ہے، کس مسجد کو چندے دیتا رہا اور وہاں با جماعت نمازیں پڑھتا ہے اور عید قرباں پر کتنے بکرے ذبح کرتا ہے کہ عوام کو ذبح کرنے کی تفصیل میں تو جانے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ خبر کی سرخی بتاتی ہے کہ اس پارسا کی انڈسٹری میں ماہانہ کروڑوں روپے کی گیس چوری ہوتی تھی۔
حلیئے کیسے اور حرکتیں کیسی؟ اپنی اولادوں کو حرام پر پالنے والا یہ شخص گوشت تو حلال ہی کھاتا ہوگا اور شاید اسے یہ شعور بھی نہ ہو کہ وہ اپنے معصوم و محروم ہم وطنوں کا ماس کھا رہا ہے، اس لرزاں و ترساں ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وطن اور اہل وطن کی زندگیاں جہنم بنا دینے والوں میں سے ایک اس ”پرہیزگار“ کو جنت میں جانے کا بہت شوق ہوگا کہ یہ ”کلاس“ ہی ایسی ہے جنہوں نے ”ثواب“ کی ایک اپنی ہی DEFINATION ایجاد کر رکھی ہے۔ ان کے نزدیک گیس، بجلی، ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی چوری تو حلال ہے … خنزیر حرام ہے۔ قصور شاید ان کا بھی نہیں کہ بتانے والے انہیں صرف وہ کچھ بتاتے ہیں جو ان کیلئے منافع بخش اور سومند ہو۔ دین کامل کی حقیقی روح سے آشنا کریں تو ان کے اپنے فربہ جسم نہ سوکھ جائیں اور اوپر سے یہ منافق، کرپٹ حکمران طبقات جنہیں خود رول ماڈل بننا اور ان کی تربیت کرنا چاہئے تھی لیکن یہ مختلف قسموں قبیلوں کے نیچ بدی کے رول ماڈل بن گئے۔ پاکستان کی سیاسی و مذہبی اشرافیہ پر بہت بڑی اور بھاری ذمہ داری تھی کہ بدقسمتی سے ملک کی بنیاد کرپشن پر ہی اٹھائی گئی تھی۔ آپ کو یاد ہوگا جب یہاں جعلی ڈگریوں کا شور مچا تو میں نے مسلسل کہا تھا کہ جس معاشرہ کا آغاز ہی جعلی کلیموں اور جعلی ذاتوں سے ہوا اس کا انجام، منطقی انجام جعلی ڈگریوں پر ہی ہونا تھا۔
تاریخ چیخ چیخ اور رو رو کر گواہی دیتی ہے کہ پاکستان بنانے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ تقسیم ایسی تباہی لائے گی، اتنی اتھل پتھل اور قتل و غارت ہوگی کہ بابائے قوم جیسے آہنی آدمی کی آنکھیں بھی چھلک اٹھیں گی۔ ہر تباہی وقتی اور ہر زخم مندومل ہو جانیوالا تھا لیکن دو زخم ایسے تھے کہ جو کوڑھ اور کینسر میں تبدیل ہوگئے اور یہ آسیب بتدریج بڑھتا چلا گیا۔ یہ دو آسیب کیا تھے؟
اول: جعلی کلیموں کے نتیجہ میں جنم لینے والے نو دولتئے اور معزز ۔
دوم: ذاتیں تک بدلنے والے گرگٹ نما گر گے کہ میں نے خود میراثیوں کو ”شیخ“ … ”ملک“ اور”راجپوت“ بنتے دیکھا ہے۔ اسی عظیم تقسیم نے تو اسے محاورہ کو جنم دیا کہ فلاں فلاں جینوئین سید ہے کیونکہ میں اس کے سید ہونے کا عینی شاہد ہوں۔ خود میں نے جالندھر کے ایک جید میراثی کو ”شاہ صاحب“ کہلاتے دیکھا تو دھمکی دی کہ تجھے ننگا کردوں گا ورنہ سید کے بجائے کچھ اور بن جا۔ ڈیل ہوگئی اور وہ معاہدہ کے مطابق کچھ عرصہ بعد ابراہیم لودھی کے قبیلہ میں ”شامل“ ہو کر ”لودھی“ ہوگیا۔ صرف اتنا اشارہ ہی کافی ہوگا یہ ”لودھی صاحب“ نصرت فتح علی خان کے قریبی لیکن غریب رشتہ داروں میں سے ایک ہیں اور آج بھی میرے رابطہ میں ہیں۔عظیم صوفی شاعر نے یونہی نہیں کہہ دیا، بڑی حکمت ہے…
”نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے ناں پایا“
بجا کہ نیچ کوئی ذات نہیں لیکن اگر کسی گروہ کو صدیوں مصنوعی ہی سہی مخصوص حالت میں رکھا جائے تو و ہ مخصوص حالت اس کے جینز تک میں سرائیت کر جاتی ہے اور پھر ”ری کور“ کرنے میں بھی صدیاں ہی لگتی ہیں تازہ ترین مثال امریکن کالا ہے کہ ”آزادی“ ملنے کے بہت بعد تک آج بھی ہر طرح کی غلاظت ہی اس کی عمومی پہچان ہے۔پاکستان میں جعلی کلیموں اور جعلی ذاتوں کے نتیجہ میں جو محیر العقول مخلوق پیدا ہوئی، اس کی تعلیم، تربیت اور گرومنگ کیلئے سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو آؤٹ آف دی وے جا کر رول ماڈل بننے اور انہیں رول آف لاء کا عادی اور مہذب انسان بنانے کی اشد ضرورت تھی لیکن یہ خود پٹڑی سے اتر گئے اور اگر ماں باپ ہی پٹڑی سے اتر جائیں تو اولاد ویسی ہی ہوگی جیسی ہوگئی۔ اصل بجلی، گیس، ٹیکس چور تو ہیں ہی معزز … عام آدمی کے پاس تو بھوک کے علاوہ بھانڈا ہی کوئی نہیں۔
یہ جو میں جعلی کلیموں کے نتیجہ میں جنم لینے والی جعلی اشرافیہ کا ماتم کرتا رہا ہوں اس کی چند جھلکیاں آپ کو اس تازہ ترین رپورٹ میں دکھائی دینگی۔ کوئی ہے جو اصل مرض کو سمجھے اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کا سوچے؟ (جاری ہے)
تازہ ترین