ملوٹ، پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال کا ایک گاؤں ہے۔ یہ چکوال شہر سے 40کلومیٹر اور کلرکہار سے 12کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب میں واقع ہے۔ یہاں جاتے ہوئے جپسم پتھر کی پہاڑیاں نظر آتی ہیں جبکہ کٹاس راج اور کھیوڑہ کی کانوں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ راجپوتوں کی تاریخ کے مطابق ملوٹ نام ’ملک-کوٹ‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
ان کا ماننا تھا کہ ملک کا لقب اس کو دیا جاتا تھا جس نے دہلی کے مسلمان بادشاہ سے الحاق قبول کیا، جس کے بدلے میں ملک کو تفویض کردہ علاقے میں مکمل خودمختاری حاصل تھی۔ مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر بابر کا سفرنامہ ’تزک بابری‘بھی ملک-کوٹ، مل-کوٹ اور پھر ملوٹ کی تصدیق کرتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق جنجوعہ راجپوتوں کے ایک مورث اعلیٰ کے نام ’ملو‘ پر یہ نام پڑا۔
ملوٹ گاؤں میں پہاڑی کی چوٹی (230میٹر یعنی 757فٹ اونچائی) پر 12ویں صدی میں تعمیر کیا گیاقلعہ واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس قلعے کی بلندی 3ہزار200فٹ ہے۔ اس تک رسائی مشکل اور تنگ ہے کیونکہ کوئلے کی کانوں کے ڈھیر، چٹانوں اور سیمنٹ کے کارخانوں کے درمیان گھومنے کے بعد ملوٹ پہاڑی کے ریمپ کے دامن میں پہنچا جاتا ہے۔
سالٹ رینج میں جنجوعہ حکمران غیر ملکی حملہ آوروں کا نشانہ ہوتے تھے کیونکہ دہلی پر حملہ آور ہونے کے لیے پہلے یہاں حملہ کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قلعہ کی تعمیر کے سال کے حوالے سے متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ 980ء میں تعمیر کیا گیا تھا، جس پر 1005ء میں محمود غزنوی نے حملہ کرکے اپنے زیرِ انتظام کرلیا۔ مگر بعد میں جنجوعہ شہنشاہ راجہ مال خان نے طاقت حاصل کرنے کے بعد دوبارہ قبضہ کرلیا۔
دوسری رائے کے مطابق یہ قلعہ راجہ مال خان نے تعمیر کروایا تھا۔ راجہ مال خان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک ہندو راجپوت تھا، تاہم شہاب الدین غوری کے 1178ء میں ہندوستان پر حملہ اور فتوحات حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنے کچھ بیٹوں سمیت اسلام قبول کرلیا تھا۔ مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر نے 1526ء تا 1530ء تک جاری رہنے والی لڑائی میں دولت خان لودھی سے یہیں پر ہتھیار ڈلوائے تھے۔
ملوٹ قلعہ کا طول مشرق سے مغرب تک 2ہزار فٹ اور عرض شمال سے جنوب تک 1ہزار 500فٹ ہے۔ اس میں قدیم یونانی اور کشمیری فنِ تعمیر کے دو خوبصورت مندر بھی موجود ہیں۔ قلعہ کے داخلی دروازے کی طرف کھڑی چڑھائی آتی ہے۔ یہاں دو انگلی نما چٹانیں ہیں جو ہزاروں فٹ نیچے سے آرہی ہیں، غالباً یہ کبھی سرچ ٹاور ہوا کرتی تھیں۔ ایک زمانے میں یہاں کنگر دار دیوار بھی تھی، جو دروازے کے ساتھ بنے حجروں سے جڑی ہوئی تھی اور شمالی سمت سے قلعے تک پہنچنے میں رکاوٹ تھی۔
آج اس دیوار کا ایک حصہ اور ٹوٹ پھوٹ کے شکار دو دروازے ہیں۔ جنجوعہ خاندان کے اس انتہائی اہم قلعے کے اردگرد کی تقریباً تمام دیواریں یا تو خود منہدم ہوچکی ہیں یا کردی گئی ہیں۔ غالباً اس کی وجہ خزانہ، نوادرات، مورتیوں اور سکّوں کی تلاش تھی۔ تاہم، مضبوط دیواروں اور عمارتی چٹانوں کے ثبوت ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ عمارتوں کے آثار جنوبی سمت کی ٹیکری پر 2ہزار فٹ کے فاصلے تک موجود ہیں۔
یہاں تعمیر کیے گئے دونوں مندر کچھ حد تک بچے ہوئے ہیں۔ یہ مندر تقریباً 6سے 7فٹ اونچے چبوترے پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ چاروں کونوں پر پتھروں کو تراش کر مینار تعمیر کیے گئے ہیں۔ مندروں کی دیواروں پر سرخ ریتلے پتھروں میں یونانی طرز کی مورتیاں کھدی ہوئی ہیں۔ ان کے نیچے شیر اور دوسرے جانوروں کی شکلیں بنائی گئی ہیں، جو فن سنگ تراشی کا بہترین نمونہ اور کشمیری اسلوب کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کام میں ریتلا پتھر استعمال ہوا ہے، جو موسمی اثرات سے متاثر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سنگ تراشی کے یہ نمونے وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو رہے ہیں۔
مندر، اندر کی طرف 81مربع فٹ ہے۔ ملوٹ قلعہ کو 1860ء کی دہائی میں جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے دوران دریافت کیا گیا تھا۔ سر الیگزینڈر کننگہم نے سالٹ رینج میں آثار قدیمہ کے مقامات کے سروے کے دوران ملوٹ قلعے کے سامنے والے حصے کو ’’حیرت انگیز طور پر جرأت مندانہ اور دلکش‘‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’محراب کی اونچائی اور کونوں پر چوکور ستونوں کی وسعت عمارت کا وقار ظاہر کرتی ہے، جسے اس کے نیم دائرہ نما ستونوں نے بہت زیادہ بڑھایا ہے‘‘۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان قدیم عمارتوں اورمندروں کے نیچے قیمتی خزانے دفن ہیں۔
پاکستان کا یہ خوبصورت قلعہ نظر انداز ہونے کی وجہ سے خستہ حالی کا شکار ہے۔ اس کے احاطے میں دو مندر گر چکے ہیں جبکہ قلعہ کے کھنڈرات جنگلی پودوں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ رواں سال حکومت پنجاب نے 12ملین روپے سے چکوال سالٹ رینج میں واقع صدیوں پرانے اس قلعے اور مندر کی بحالی کا فیصلہ کیا تاکہ تاریخی و ثقافتی اہمیت کی حامل اس جگہ سے سیاحت کو فروغ ملے۔