کراچی (اسٹاف رپورٹر، ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے کراچی کی دو مساجد کی تعمیرکے اجازت نامے منسوخ کرتے ہوئے کڈنی ہل پارک کی الفتح مسجد اور طارق روڈ کی مدینہ مسجد کی تعمیرات ختم کر کے پارک کی زمین بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے شہری انتظامیہ کو ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ قبضے کی جگہ پر مذہبی عمارات نہیں بن سکتیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو اختیار نہیں کہ پارک کی جگہ کسی کو لیز پر دے یا مسجد بنانے کا لائسنس جاری کرے، یہ عبادت گاہیں نہیں اقامت گاہیں ہیں، نہ بجلی کا بل دیتے ہیں نہ کوئی اور بل، زمین پر قبضہ کرنا ہو تو قبر بنا لیتے ہیں،جھنڈے لگا دیتے ہیں،آپ نے اس شہر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، اسے ٹھیک کرنے کیلئے دھماکا کرنا ہوگا،یہ شہر جرمنی، جاپان، پولینڈ کی طرح دوبارہ بنے گا، گلی گلی ، اونچی عمارتیں کھڑی کردیں، اگر زلزلہ آ گیا تو کروڑوں لوگ مرینگے، چار آدمی کے گھر میں چالیس گھرانوں کو بسا دیا گیا، آپ کیا کر رہے ہیں؟ صرف پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں؟ پی ای سی ایچ ایس سے لے کر نارتھ ناظم آباد تک ایک ہی معاملہ ہے،کیسے کراچی کی زمینیں بچائیں؟ انتظامیہ تو کچھ نہیں کر رہی، سرکاری افسران ہیں کس لیے؟ کام ان کا ہے اور ہمارے حکم کا انتظار کرتے ہیں، دورانِ سماعت عدالت نے طارق روڈ کی درست حدود معلوم نہ ہونے پر ایڈمنسٹریٹر اور ڈی ایم سی ایسٹ کی سرزنش بھی کی۔منگل کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بینچ کے روبرو کڈنی ہل پارک کی بحالی سے متعلق سماعت ہوئی۔ منگل کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں طارق روڈ کے قریب مدینہ مسجد کی تعمیر کے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ کمشنر کراچی اور ایڈمنسٹریٹر سمیت دیگر حکام عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مرتضی وہاب سے استفسار کیا کہ آپ غیر قانونی مسجد کی تعمیر کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ عدالت کے حکم پر ضرور کارروائی کی جائے گی۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو دیکھ کرحیرت ہوتی ہے، کام آپ کا ہے اور ہمارے حکم کا انتظار ہورہا ہے۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ یہ عبادت گاہیں نہیں بلکہ اقامت گاہیں ہیں، یہ تو ہمارے سامنے آگیا ہے۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ عبادت گاہوں کیلئے نہ بجلی کا بل، نہ کوئی اور بل۔ کراچی میں کئی جگہ غیر قانونی تعمیرات کی گئی ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ عدالت نے طارق رود کی حدود سے لاعلمی کا اظہار کرنے پر ایڈمنسٹریٹر اور ڈی ایم سی کی سرزنش کی۔سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ آپ دفتروں میں بیٹھنے آتے ہیں؟ چائے پئیں، گپ شپ کریں اور گھر چلے جائیں؟ کوئی کام نہیں آپ کے پاس؟ سب کچھ کون کروا رہا ہے؟ آپ نے اس شہر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ مدینہ مسجد کی طرف سے کوئی آیا ہے؟ مدینہ مسجد سے اوقاف کا کوئی تعلق ہے؟ سیکریٹری اوقاف نے نفی میں جواب دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارک کی جگہ پر مسجد بنادی گئی ہے۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ آپ جاکر معلوم کریں کہ کیسے مسجد بنادی گئی ہے۔عدالت نے ڈی ایم سیز کے ایڈمنسٹریٹر اور مسجد انتظامیہ کو طلب کرلیا۔ ڈی سی ایسٹ عدالت میں پیش ہوئے انہوں نے عدالت کو بتایا کہ آج مسجد والوں کو بلایا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں نے کچھ کرنا ہے یہ ہم نے سب کچھ کرنا ہے۔ آپ ڈی سی کچھ تو کریں، کیا صرف تنخواہ لینے کے لئے ڈی سی بنے ہوئے ہیں۔ڈی سی ایسٹ نے کہا کہ میں انتظامی کام دیکھتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کام کرتے ہیں کاغذ ادھر کیا ادھر کیا کام کیا کرتے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے پارک کی بحالی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ 200گز پر8منزلہ عمارتیں بنائی گئیں۔ زلزلہ آنے پر سب ختم ہوجائے گا۔ کروڑوں لوگ مر جائیں گے، اگر آپ بچ گئے تو آپ پر لوگوں کا خون ہوگا۔ آپ کی سوچ ہے کہ میں ریٹائر ہو کر چلا جاؤں گا۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے کڈنی ہل کی بحالی کیلئے پارک کی مکمل زمین واگزار کرانے حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارک میں مزار اور قبرستان سمیت بسم اللہ مسجد کو ختم کر کے ہر قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں سے پارک کو محفوظ بنایا جائے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو کڈنی ہل پارک بحالی کیس کی سماعت ہوئی۔ امبر علی بھائی نے کہا کہ مجموعی طور پر 4.9 ایکڑ اراضی پارک کیلئے مختص ہے۔ بالائی حصہ پر پھر مسجد کی تعمیر شروع ہوگئی ہے۔ الفتح مسجد کے وکیل خواجہ شمس نے کہا کہ عدالت نے ڈیمارکیشن کا حکم دیا تھا۔