تقویمِ مہ و سال میں کسی نئے سال کی آمد ہمیشہ اس امر کی گنجائش پیدا کردیتی ہے کہ انسان گزرنے والے ایک سال پر نظر ڈال کر اپنے اب تک کے مجموعی سفر کو بیک نظر دیکھ لے اور اُس کو اندازہ ہوسکے کہ وہ کن مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوا، کون سے نئے مسائل پیدا ہوئے اور مستقبل میں اس کو کن چیلنجوں کاسامنا ہوسکتا ہے؟ گزرنے والے سال یعنی 2021ء میں دنیا کے مختلف خطوں میں بہت سے ایسے اہم واقعات رونما ہوئے جو تاریخی اہمیت کے حامل تھے۔
حکومتیں تبدیل ہوئیں، ملکوں میں اندرونی خلفشار اور نسلی و لسانی جھگڑے ہوئے، کامیابیاں بھی حاصل کی گئیں، ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے انسان کو مزید غوروفکر کا موقع ملا، امن کی باتیں ہوئیں، جنگوں کی تیاریاں بھی کی جاتی رہیں۔ دنیا نے بہت کچھ وہ دیکھا جو وہ دیکھتی آئی ہے۔ بہت کچھ اس کو نیا بھی نظر آیا۔ البتہ اس سال کا سب سے اہم واقعہ کس کو قرار دیا جائے ،شاید اس بارے میں زیادہ اختلاف کی گنجائش نہ ہو کہ یہ افغانستان سے امریکہ کے انخلاء اور وہاں طالبان کے قبضے کا واقعہ تھا جس کو برسہا برس بعد بھی پیچھے مڑ کر دیکھنے والے 2021ء کا اہم ترین واقعہ قرار دے رہے ہوں گے۔
افغانستان گذشتہ چالیس پینتالیس برس سے مستقلاً ایک بحران در بحران کی صورت حال سے دوچار چلا آرہا ہے۔ 2021ء میں وقوع پذیر ہونے والے واقعے کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ واقعہ اس بحران کے خاتمے کا مظہر ثابت ہوگا یا اس واقعے کے باوجود افغانستان کا بحران جاری رہے گا۔امکانِ غالب یہی ہے کہ افغانستان کو مکمل امن کے قیام ،سیاسی استحکام او ر معاشی ترقی کی راہ پر لگنے میں ابھی وقت لگے گا۔
افغانستان کے طویل بحران کا اب تک کا آخری مرحلہ بیس سال قبل اس وقت شروع ہوا تھا جب امریکہ نے یہاں براہ راست طور پر فوجی مداخلت کا فیصلہ کیا تھا۔نائن الیون 2001ء کو امریکہ میں نیویارک کے ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر دہشت گرد کاروائیوں کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ امریکہ اب افغان بحران میں دھنستا چلائے گا اور اس کو یہاں سے نکلنے میں بیس سال لگ جائیں گے۔
2020ء میں اُس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے طالبان کے ساتھ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بارے میں ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے امریکہ کے سارے فوجی یکم مئی 2021ء کوافغانستان سے واپس بلائے جانے تھے ۔صدر جوبائیڈن نے منتخب ہونے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ امریکہ 11ستمبر2021ء تک افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے گا۔امریکہ اور طالبان کا یہ معاہدہ اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا کہ اس کے اند رامریکی ناکامی کا اعتراف پوشیدہ تھا۔
امریکہ، افغانستان کو انتہا پسندوں اور دہشت گرد تنظیموں سے نجات دلانے، وہاں ایک جدید معاشرہ قائم کرنے اور ایک جمہوری مملکت کی بنا رکھنے کے دعووں کے ساتھ داخل ہوا تھا لیکن اب وہ کچھ اس طور وہاں سے رخصت ہورہا تھا کہ اس نے وہاں قائم اپنی حمایت یافتہ حکومت کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ چنانچہ جہاں ایک طرف طالبان بیس سالہ جنگ کے فاتح قرار پائے وہیں دوسری طرف افغانستان میں موجود حکومت جو امریکی پشت پناہی ہی سے قائم تھی ، بے بنیاد اور بے اختیار قرار پائی ۔
جیسے جیسے امریکی انخلاء کی تاریخ قریب آتی گئی، افغانستان کے مختلف صوبوں پر طالبان کے جتھوں کا قبضہ ہوتا چلا گیا، مقامی گورنر اور دوسرے عہدیدار یہاں تک کہ وہاں موجود پولیس اور فوج کے دستے بھی جب کابل میں اپنی حکومت کو چند روز میں منہدم ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے ، تو ان کے لیے طالبان کی چڑھائی کے آگے بند نہ باندھنے بلکہ ان کے سامنے سرنگوں ہوجانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔
ویت نام میں جس طرح امریکی فوجی جنوبی ویت نام کی شکست کے بعد سائیگون میں اپنے ملک کے سفارتخانے کی چھت سے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فرار ہوئے تھے، ایسے ہی منظر کی کابل میں بھی توقع تھی۔ سو کسی صوبے میں بھی طالبان کی مزاحمت نہیں ہوئی ، یہاں تک کہ طالبان کے کابل پہنچنے سے قبل صدر اشرف غنی بھی ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ امریکہ ماضی میں بھی بارہا دوسرے ملکوں میں رسوا ہوا ہے ،اُس کی حلیف مقامی حکومتیں بھی دنیا کے لیے سامانِ عبرت بنی رہی رہیں۔
15۱گست کو کابل طالبان کے ہاتھوں فتح ہوا۔امریکی حکومت بمشکل اپنے شہریوں کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوئی ۔ایک عالمی طاقت کی یہ ایک عبرت ناک شکست تھی مگر صدر جوبائیڈن نے امریکی انخلاء کو ’غیر معمولی کامیابی‘قرار دیا۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا کہ امریکہ نے دو عشروں میں افغانستان میں 2.3ٹریلین ڈالر خرچ کیے تھے جو تقریباً تین سو ملین ڈالر یومیہ بنتے ہیں۔ امریکہ کو افغانستان میں جانی نقصان بھی بہت ہوا۔تقریباً ڈھائی ہزار امریکی فوجی اور چار ہزار امریکی سویلین بشمول امریکی ٹھیکہ دار جان سے گئے۔اس عرصے میں ایک لاکھ ستر ہزار کے قریب افغانیوں کی جان گئی ۔
افغانستان میں امریکہ کا یہ انجام ایک طویل بحران کا پس منظر رکھتا ہے۔یہ بحران 1970ء کے وسط میں افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کے وقت سے شروع ہوا اور اس نے بعد ازاں تقریباً پینتالیس سال خون آشامی کے دیکھے ۔ اس بحران کوسمجھنے کے لیے افغانستان کے تین بنیادی حقائق کا ادراک ضروری ہے۔ان میں ایک تو افغانستان کا قبائلی معاشرہ ہے جس کی عصبیتیں ویسے تو تاریخی طور پر چلی آرہی ہیں لیکن گذشتہ چار پانچ عشروں میں ان میں غیر معمولی اضافہ ان وجوہ سے بھی ہوا ہے کہ قبائل کو اس دوران مختلف درجوں میں سیاسی طاقت کا تجربہ بھی ہوا ہے، غیر قانونی اسلحے کی بھی ریل پیل ہوئی ہے جس کے نتیجے میں بے شمارقبائلی سردار اور دوسرے موثر قبائلی افراد جنگجو اور وار لارڈ بھی بنتے رہے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ غیر قانونی سرمائے کی ریل پیل نے بھی ان کی طاقت میں اضافہ کیا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کی ریاست ہے جوبڑی حد تک جدید ریاستوں کے بنیادی اوصاف سے محروم ہے ۔گذشتہ چالیس پچاس برسوں میں ریاست کا ڈھانچہ جو پہلے ہی کمزور تھا،مستقل شکست و ریخت کا شکار ہوتا رہا ہے۔اس کی کمزوری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ طالبان کے طوفان کے سامنے اس کی فوج کہیں بھی ٹھہر نہیں سکی۔ فوجیوں نے ہتھیار ڈالے یا طالبان سے مل گئے ۔جب فوج کا یہ عالم تھا تو سول اداروں کے عہدیداروں اور بیوروکریسی نے کون سے مختلف کردار کا مظاہرہ کرنا تھا؟
افغانستان کے حالات کی تفہیم کے لیے جس تیسرے عنصر کو سمجھنا ضروری ہے وہ عالمی طاقتوں اور پڑوسی ممالک کے افغانستان کے حوالے سے پیوستہ مفادات (vested interest) ہیں جو افغانستان کے غیر معمولی طور پر اہم محل وقوع کا نتیجہ ہیں ۔ہم ان تینوں بنیادوں کو پیشِ نظر رکھ کر افغانستان کے ماضی کا ایک مختصر جائزہ لیں گے۔
افغانستان کا تلخ ماضی
پہلی جنگ ِعظیم کے بعد جب برطانیہ تیسری اینگلو افغان جنگ میں ناکامی سے دوچار ہوا تو افغانستان کو خود مختاری حاصل ہوئی ،برطانیہ نے افغانستان کی آزادی کو تسلیم کو کیا، اور معاہدہ راولپنڈی میں طے پایاکہ برطانیہ درہ خیبر سے آگے نہیں جائے گا، ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی سرحد کے طور پر قائم کردی گئی اور میر امان اللہ خان نے اپنی بادشاہت قائم کر لی۔لیکن کوئی دس سال بعد مخالفین کی مزاحمت او ر بغاوت کے نتیجے میں وہ ملک سے فرار ہو گئے جس کے بعد ظاہر شاہ چالیس سال تک بادشاہ رہے۔ یہ دور نسبتاً امن کا دور تھا۔
برطانیہ نے ہندوستان کی ا پنی نو آبادی اور سوویت یونین کے درمیان افغانستان کو ایک بفر کے طور پر قبول کیا۔ اس دور میں افغانستان کونہ تو برطانوی ہندوستان اور نہ ہی سوویت یونین کی طرف سے کسی بڑی مداخلت کا خطرہ درپیش ہوا۔ داخلی طور پر بھی ظاہر شاہ نے مختلف نسلی گروہوں اور قبائلی سرداروں اور دیگر عمائدین کو مقامی طور پر سیاسی اور اقتصادی خودمختاری دیتے ہوئے انہیں مرکز کے تابع رکھنے کا ایسا نظام وضع کیا جس نے افغانستان کو یک گونہ امن سے ہمکنار رکھا۔ 1973ء میں ظاہر شاہ کے کزن دائود خان نے ان کا تختہ الٹ کر بادشاہت کا خاتمہ کر دیا اور خود صدر بن گئے۔
انہوں نے افغانستان کو جمہوریہ قرار دیا۔ سوویت سے تعلقات میں قربت پیدا کی، ملک کو نیا آئین دیا،اور خواتین کے حقوق تسلیم کرنے کی شروعات کیں۔سردار دائود کے یہ اقدامات ابھی ابتدائی مرحلے ہی میں تھے کہ افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب آگیا اور نور محمد ترہ کی صدر اور ببرک کارمل وزیرِ اعظم بن گئے۔ انہوں نے اصلاحات کے عمل کو منضبط کرنے کی کوشش کی مگر ایک جانب افغانستان کا روایتی معاشرہ جو برسہا برس سے ایک خاص ڈگر پر چل رہا تھا اور جس میں مقامی سطح پر اختیارات قبائلی سرداروں کے پاس ہوتے تھے، خواہ وہ زمینوں سے متعلق ہوں یا پانی سے، یا پھر عدالت اور انصاف سے متعلق، اس روایتی معاشرے کے لیے مرکز کی طرف سے متعارف کردہ اصلاحات سے ہم آہنگ ہونا آسان نہیں تھا۔
دوسری طرف بر سرِ اقتدار گروپ کے اندر شدید اختلافات بھی پائے جاتے تھے، چنانچہ ترہ کی اور حفیظ اللہ امین کے شدید اختلافات ترہ کی کے قتل پر منتج ہوئے۔ کچھ عرصہ اختیارات حفیظ اللہ امین کے پاس رہے، لیکن دسمبر 1979ء کے اواخر میں سوویت یونین براہِ راست افغانستان میں داخل ہو گیا اور ببرک کارمل کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
سوویت یونین کے افغانستان میں داخل ہونے پر جہاں بہت سے قبائل کی مزاحمت تیز ہوئی اور افغان مہاجرین کی پاکستان اور ایران آمد کا سلسلہ شروع ہوا، وہیں دوسری طرف امریکہ، برطانیہ، دوسرے یورپی ممالک اور سعودی عرب کی پشت پناہی سے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین میں سے مجاہدین کے گروپ تشکیل دیے گئے، جنہیں جدید ترین امریکی اسلحے سے لیس کیا گیا اور ان کی تربیت کے لیے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کیا گیا۔
پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا دیا گیا، جنرل ضیا ء الحق کی فوجی حکومت پاکستان کے لیے اس کردارپر آمادہ تھی کیونکہ اس طرح خود ان کی حکومت کو امریکہ ، برطانیہ اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہو رہی تھی، یہ الگ بات ہے کہ اس مغرب نواز کردار کی پاکستانی قوم اور معاشرے نے بہت بھاری قیمت اداکی۔1979ء میں افغانستان سے سوویت یونین نے اپنی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعدا مریکہ کے ساتھ مستقبل کے لائحہ عمل پر غور کے لیے سلسۂ جنبانی شروع کیا اور جنیوا میں امریکہ، سوویت یونین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاہدہ طے پایا۔
جس کے نتیجے میں سوویت افواج کا افغانستان سے انخلا شروع ہوا اور سوویت یونین ہی کے حمایت یافتہ ڈکٹر نجیب اللہ افغانستان کے صدر بن گئے۔ جس وقت جنیوا معاہدہ طے ہوا اس وقت محمد خان جونیجو پاکستان کے وزیرِ اعظم تھے۔ انہوں نے اور ان کے وزیرِ خارجہ زین نورانی نے ضیاء الحق کی مرضی کے برخلاف معاہدے کو قبول کیا تھا، سو مئی 1988ء میں جونیجو کو وزارتِ عظمی سے الگ کر دیا گیا۔
ضیاء الحق کی حکومت مجاہدین کی سرپرستی کرتی رہی، پاکستان کی یہ پالیسی اگست1988 میں جنرل ضیاء الحق کی ایک ہوائی حادثے میں ہلاکت کے بعد بھی جاری رہی ۔چنانچہ 1992ء میں مجاہدین کے گروپ کابل کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور ڈاکٹر نجیب اللہ کو اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لینا پڑی ۔ اس پورے عرصے میں مجاہدین کے گروپ آپس میں لڑتے بھی رہے اور کابل مسلسل کشت و خون کا مرکز بنا رہا۔
طالبان کا طوفان اور نائن الیون
1995ء میں طالبان کا ظہور ہوا اور وہ افغانستان کے دور دراز علاقوں میں مقامی وار لارڈز پر قابو پاتے اور امن کے داعی بن کر بالآخر کابل تک پہنچ گئے۔ انہوں نے مجاہدین کے گروپوں کے کردار کو بڑی حد تک کمزور کیا، سرکاری اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے کر آئے، اپنے فہم اسلام کے مطابق سخت گیر قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کی، سرِ عام پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا، خواتین کی تعلیم اور ملازمت کو بڑی حد تک ختم کر دیا۔1997 ء میں نجیب اللہ کو اقوام متحدہ کی عمارت سے نکا ل کر پھانسی دے دی گئی ۔
اس پورا عرصے میں طالبان کو ان گروہوں کی تائید بھی حاصل رہی، جو اب القاعدہ نامی تنظیم کے تحت جمع تھے جس کی قیادت اسامہ بن لادن کر رہے تھے اور جو دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنا نیٹ واک پھیلا چکی تھی۔ 11 ستمبر 2001ء کو چار ہوائی جہازوں کے ذریعے امریکہ کے تجارتی و عسکری اعصابی مراکز پر حملے کیے گئے، نیویارک کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر، اور واشنگٹن میں پینٹاگون کا مرکز ان حملوں کے ہدف بنے۔
امریکہ نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا اور پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ عالمی دہشت گردی کے خلاف امریکی مہم میں اس کا ساتھ دے ورنہ خود اس کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے فوراً آمادگی ظاہر کر دی اور آ ئندہ دنوں میں افغانستان میں امریکی فوجی کارروائی کی نہ صرف زبانی حمایت کی بلکہ اس کا عملاً ساتھ دیا۔ پاکستان نے امریکہ کو اپنی سرزمین سے کارروائیاں کرنے کی اجازت دی، اپنے چندہوائی مستقر امریکہ کے حوالے کر دیے اور اپنی فضائی حدود کو افغانستان پر حملے کرنے کے لیے فراہم کردیا۔
نائن الیون ، بین الاقوامی تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ جب دہشت گردی کے یہ واقعات رونما ہوئے اُسی وقت یہ کہہ دیا گیا تھا کہ اب دنیا وہ نہیں رہے گی جو اب تک تھی۔ امریکہ کی سرزمین پر کبھی ایسی دہشت گردی کا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا ۔یہ ایک غیر معمولی رعونت کا مظاہرہ کرنے والی عالمی طاقت کے ساتھ رونما ہونے والا واقعہ تھا جس پر ظاہر ہے کہ اس کا رد عمل بھی بہت شدید ہونا تھا لیکن اس تمام صورت حال کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ امریکہ کی اپنی پوری تاریخ دنیا کے دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے، دوسرے ملکوں کی جائز حکومتوں کو گرانے اور وہاں مسلّح اور تشدد پسند گروہوں کی پشت پناہی کرنے کی تاریخ رہی تھی۔
خود افغانستان میں وہ دس گیارہ سال تک کم از کم نوجنگجو تنظیموں کو اسلحہ فراہم کرتا رہا تھا اور امریکی سی آئی اے کھلے عام اس مہم کی نگرانی کررہی تھی۔امریکہ کے سابق نیشنل سیکیورٹی کے ایڈوائزرزِبگنیو بریزنسکی نے تورخم کی ایک اونچی چوٹی پر کھڑے ہوکر اپنے سامنے بیٹھے چند سو افغان مہاجرین سے مخاطب ہوتے ہوئے اور جلال آباد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اُس طرف سے آتی اذان کی آوازیں سن رہا ہوں۔
امریکہ ، ویت نام میں ، مشرقِ بعید کے مختلف ملکوں میں اور لاطینی امریکہ میں مسلّح سرگرمیوں کی پشت پناہی کرتا رہا تھا اس نے اب دہشت گردی کو ایک عالمی خطرہ قرار دیا اور ماضی میں جس طرح اشتراکی بلاک کے خلاف ایک بلاک بنانے کا کام کیا تھا، اسی طرح اب اس نے دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی بلاک بنانے کا اعلان کیا۔
پاکستان نے اس بلاک میں شرکت میں دیر نہیں لگائی۔اگلے دس پندرہ برسوں میں دہشت گرد کاروائیاں پاکستان میں بھی پھیلتی چلی گئیں۔تحریکِ طالبان پاکستان ایک بڑی دہشت گرد قوت بن کر پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں پھیل گئی اوراس نے عام شہریوں کے لیے عرصہ ٔ حیات تنگ کردیا۔پاکستان کی حکومتیں اور عسکری ادارے ایک طرف امریکی مہم میں شریک تھے تو دوسری طرف اپنے ملک میں امن و امان کی صورت حال کو قابو میں لانے کی کوشش کررہے تھے۔ یہی نہیں بلکہ اپنے شہریوں ،لوگوں کی جائیدادوں اوراہم تنصیبات کو خطرے میں ڈال کر بھی وہ امریکہ کا اعتماد حاصل نہیں کرسکے جس کی طرف سے ’مزید کرو‘(Do more)کا مسلسل مطالبہ کیا جاتا رہا۔
طالبان کے وہ جتھے جو افغانستان کے اندر مصروفِ کار تھے وہ پہلے تو کابل سے نکلے اور انہوں نے جنوب میں واقع قندھار میں پناہ لی لیکن 2001ء کے اواخر تک انہیں قندھار کو بھی چھوڑنا پڑا اور بالکل آخر میں انہیں زابل کے صوبے کو بھی سرینڈر کرنا پڑا۔ بظاہر طالبان افغانستان میں شکست کھا چکے تھے۔امریکہ کی حمایت سے پختون لیڈرحامد کرزئی افغانستان کی عبوری حکومت کے صدر بنا دیے گئے ۔
وہ امریکہ کے حمایت یافتہ تھے اور کئی سال پاکستان میں رہ چکے تھے ۔جون 2002ء میں حامد کرزئی نے ایک لویا جرگہ کے ذریعے خود کو منتخب کروایا اور اپنی ایک کابینہ مقرر کی لیکن وہ باوجود مکمل امریکی سیاسی و عسکری پشت پناہی کے افغانستان میں امن قائم نہیں کرسکے ۔2003ء تک نیٹو بھی افغانستان میں دہشت گرد کاروائیوں کے خلاف جاری مہم کا حصہ بن چکا تھا۔لویا جرگہ ہی کے زریعے جنوری 2004میں ایک نیا آئین اختیار کیا گیا جس کی رو سے صدر اوردو نائب صدورکے عہدے تشکیل دیے گئے۔
اکتوبر2004ء میں صدارتی انتخاب منعقد ہوا۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ڈیڑھ کروڑ افغان ،ووٹرز کی حیثیت سے رجسٹرڈ تھے جنہیں اٹھارہ امیدواروں میں سے صدر کا انتخاب کرنا تھا۔ان متنازعہ انتخابات میں عبوری صدر کرزئی سرکاری اعلان کے مطابق پچپن فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے۔ باوجود ان تمام کوششوں کے افغانستان میں امن بحال نہ ہوسکا۔ طالبان کی مسلّح کاروائیاں مسلسل جاری رہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں شدت بھی آتی چلی گئی۔ شہروں میں بموں کے دھماکے اور سرکاری فوجی تنصیبات پر حملے روز کا معمول بنتے چلے گئے اور امریکہ کی طرف سے مزید فوجی دستے بھیجنے ، نیز مزید جدید اسلحہ سپلائی کرنے کے باوجود طالبان کی کمر نہیں توڑی جاسکی۔
کم و بیش یہی زمانہ تھا جب 2011میں امریکہ نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو تلاش کرلیا اور ایک انتہائی ڈرامائی کاروائی کرتے ہوئے امریکی میرینز اس کو قتل کرکے اس کی لاش ہیلی کاپٹروں کے زریعے اپنے ساتھ لے گئے۔ اس بڑی کامیابی کے باوجود جہاں امریکہ افغانستان میں مشکلات سے نکل نہیں پارہا تھا وہیں امریکی رائے عامہ رفتہ رفتہ اس مہم جوئی سے تنگ آتی جارہی تھی۔بالآخر امریکی حکومت نے مئی 2014ء میں افغانستان میں اپنی فوج کی تعدادکم کرنے کا اعلان کیا۔
نیٹو نے اپنے دستے واپس بلالیے ۔امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد نئے صدر نے ’پہلے امریکہ ‘(America first)کا نعرہ لگایا ۔اس کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے ملک کے حالات کو اولیت دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان سے اپنی افواج مکمل طور پر نکال کر وہاں دہشت گردوں کے لیے کوئی خلاء تو پیدا نہیں کریں گے لیکن تدریج کے ساتھ اپنی فوج کو واپس بلانے کا عمل شروع کریں گے۔اسی دوران امریکہ کے طالبان کے ساتھ براہ راست مزاکرات شروع ہوئے۔ دوہا میں ہونے والے یہ مزاکرات غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے۔
ان مزاکرات کے زریعے جہاں ایک طرف یہ پیغام گیا کہ امریکہ نے طالبان کو ایک فریق کی حیثیت سے تسلیم کرلیا ہے دوسری طرف یہ بھی پیغام گیا کہ افغانستان کی حکومت امریکہ کی نظروں میں افغانستان کی واحد سیاسی قوت نہیں تھی۔ یہ افغان حکومت پر امریکہ کے عدم اعتماد کی بھی مظہر صورت حال تھی۔ یہی نہیں بلکہ امریکہ کی طرف سے طالبان کے ساتھ مزاکرات کی دعوت طالبان کے لیے غیر معمولی تقویت کا باعث تھی۔ کئی ماہ چلنے والے یہ مزاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے اور امریکہ نے افغانستان سے اپنے فوجی واپس بلانے کا سلسلہ شروع کردیا۔جوبائیڈن نے صدر منتخب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ و ہ نائن الیون 2021ء تک افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلا ء مکمل کرلیں گے۔
افغانستان پر طالبان کا دوسرا قبضہ
یہ انخلاء ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ طالبان نے مختلف صوبوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا اور 15اگست کو افغان حکومت اس وقت منہدم ہوگئی جب صدر اشرف غنی خاموشی سے ملک سے فرار ہوگئے ۔افغان فوج کے دستوں نے مختلف علاقوں میں ہتھیار ڈالنے شروع کردیے۔بعض جگہ وہ طالبان کے ساتھ مل گئے۔ طالبان ایک مرتبہ پھر افغانستان پر قابض ہوچکے تھے۔ اگلے چند دنوں میں افغانستان شدید افراتفری کا شکار رہا۔
طالبان کے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ملک میں سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی۔ خواتین خاص طور سے غیر یقینی کا شکار تھیں اور نظر آرہا تھا کہ ماضی کی وہی سخت گیر غیر انسانی پالیسیاں ایک مرتبہ پھر ان پر ناروا پابندیاں لگانے کا سبب بن جائیں گی۔ سینکڑوں افغانیوں نے ملک سے فرار کا راستہ اختیار کی یہاں تک کہ لوگ ایئر پورٹ سے اڑنے والے جہازوں کے پروں اور پہیوں سے لپٹ کر فرار ہونے کی کوشش میں گِر گِر کر ہلاک ہوتے رہے اور دنیا نے یہ اذیت ناک مناظر ٹیلی وژن کی اسکرینوں پر دیکھے۔
افغانستان کی ابتر صورت حال اور مستقبل کے چیلنجز
افغانستان ایک مرتبہ پھر طالبان کے کنٹرو ل میں آچکا ہے۔کابل پر قابض ہونے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ افغانستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ عہدِ وسطیٰ سے آج تک چند ایک وقفوں کے سواافغانستان کی سرزمین فوجی سپہ سالاروں اور فاتحین کی مہمات کا مرکز بنی رہی ہے۔ اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے اب یہ سپہ سالار ،وار لارڈزکی شکل میں افغانستان کے مختلف علاقوں کو کنٹرول کررہے ہیں۔
ان کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے ۔یہ نسلی اور لسانی عصبیتوں کے سہارے اپنے گروہ تشکیل دیتے ہیں ، یہ سب اپنے تئیں جہاد کررہے ہوتے ہیں ، اور ہر گروہ کا مخالف اس کی نظر میں کافر ہے ۔بعض ماہرینِ علم بشریات نے ان کے تصورات اور کلچر کو ’قبائلی اسلام ‘کا نام دیا ہے ۔حقیقت میں یہ ایک متشدد اور انسان دشمن کلچر ہے جو معروف انسانی اقدار اور انسانی حقوق کی نفی کرتا ہے ۔
اس میں اظہار اور اختلاف کی آزادی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ خواتین خاص طور سے اس کا ہدف ہیں جن کو تعلیم ، ملازمت اور تفریحِ کے حقوق سے یا تو یکسر محروم رکھا جاتا ہے یا ان میں سے چند چیزوں کی اجازت سخت شرائط کے ساتھ دی جاتی ہے۔ گذشتہ بیس بائیس برسوں میں افغانستان میں جو تھوڑی بہت آزادیوں کی فضا بہم ہوئی تھی اور خواتین نے معمول کی زندگی گزارنا شروع کی تھی یا اظہار کی جو تھوڑ ی بہت آزادیاں میسر آئی تھیں وہ سب اب ختم ہورہی ہیں۔ ابتدا میں طالبان نے تاثر دیا تھا کہ وہ ماضی کے مقابلے میں مختلف رویوں کا مظاہرہ کریں گے لیکن افغانستان سے آنے والی خبریں اس تاثر کی نفی کررہی ہیں۔
طالبان نے ملک پر قبضہ تو کرلیا ہے اور بڑی حد تک ملک کے زیادہ تر صوبے ان کے مکمل کنٹرول میں ہیں لیکن نسلی اور علاقائی تضادات اتنے گہرے ہیں کہ ان کو نہ تو کسی نظریے اور نہ ہی اسلحے کے زور پر قابو میں کیا جاسکتا ہے ۔طالبان سے امریکہ نے یہ شرط منوائی تھی کہ وہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت قائم کریں گے لیکن ایسی کسی حکومت کے قیام کا امکان نظر نہیں آتا ۔طالبان نے وسیع البنیاد کا اپنا یہ تصور پیش کیا ہے کہ ان کی حکومت میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ شامل ہوں گے مگر ہوں گے یہ سب کے سب طالبان ہی۔
طالبان کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ ملک کی اقتصادی صورت حال ہے۔ افغانستان کا جو بھی انفراسٹرکچر تھا وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگ ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں ۔باہر سے کوئی آنے کو تیار نہیں۔ معاشی نظام کو چلانے کے لیے بیرونی امدادکی طرف نظریں گڑھی ہوئی ہیں۔ امریکہ اور دوسرے یورپی ملکوں کا رویہ عدم تعاون کا ہے ۔مسلم ممالک بھی کسی غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کررہے کہ سب اپنے اپنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔
ایسے میں چین کی طرف سے افغانستان میں اقتصادی منصوبے شروع کرنے کا اعلان طالبان کی حکومت کے لیے تقویت کا باعث بنا ہے ۔روس ، ترکی اور پاکستان بھی افغانستان کے اقتصادی استحکام کے نہ صرف خواہشمند ہیں بلکہ اس کے لیے عملی تعاون کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی مسلم وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں بھی افغانستان کی امداد کے بہت سے وعدے ہوئے ہیں۔ ان سب وعدوں پر عملدرآمد اس لیے ناگزیر ہے کہ افغانستان اس وقت تقریباً دیوالیہ پن کی سرحدوں تک پہنچ چکا ہے ۔
افغانستان اس ساری صورت حال سے ایسے وقت دوچار ہوا ہے جبکہ اس کا ریاستی ڈھانچہ تقریباً غیر موثر ہوچکا ہے ۔فوج اور پولیس جن کی تعمیر کے بڑے دعوے امریکہ کی طرف سے کیے گئے تھے ، طالبان کے ہاتھوں کابل کے سقوط سے پہلے ہی اپنی وفاداریاں بدل چکے تھے۔بہت سے ماہرین بیرونِ ملک جاچکے ہیں۔ تجربے کاربینکر، استاد ،انجینئر اور ڈاکٹر باہر کے ملکوں میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔ایک عام افغان شہری زندگی کی بنیادی سہولتوں مثلاً بجلی اور پانی کی سپلائی سے محرومی کا شکار ہیں ۔
افغانستان جو ابتلا کی ایک طویل تاریخ کا سفر طے کرتے ہوئے یہاں تک پہنچا ہے ، اب بھی کسی روشن مستقبل کا صرف خواب ہی دیکھنے کی پوزیشن میں ہے ۔نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا یہ خواب کب تک محض خواب رہے گا۔