• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
19اگست کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق امریکہ میں جاری کی گئی سی آئی اے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیاہے کہ امریکہ نے روس اور چین کی جاسوسی کیلئے 1957ء میں لاہور سے اپنے طیارے اڑائے۔ سوویت یونین کے میزائل اور ایٹمی پروگرام کی معلومات کیلئے انقرہ سے لائے گئے یو ٹو طیاروں کا مشن 4 اگست 1957 ء کو شروع ہواجو23 روز جاری رہا۔ ان 23روز میں9 پروازوں میں سے7سوویت یونین اور دو چین پر تھیں، ان میں سے کئی نئی میزائل لانچ سائٹس کا پتہ چلا۔ اگرچہ خبر میں ایوبی دور میں پشاور کے بڈبیر کے مقام سے اُڑنے والے اُس طیارے کا ذکر نہیں جس کو روس نے مار گرانے کے بعد نقشے میں پشاور کے گرد سرخ دائرہ کھینچ دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جسے آج انکشاف کہا جا رہا ہے پاکستان کی لبرل قوتیں اُس وقت بھی اس سے باخبر تھیں اور وہ برملا آزاد خارجہ پالیسی پر زور دیتی رہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کیپٹلزم اور کمیونزم ایک دوسرے کیخلاف کھل کر سامنے آگئے تھے اور1949ء میں چین میں کمیونزم کے آنے اور ستمبر1949ء میں روس کی جانب سے پہلے ایٹمی دھماکے نے امریکہ کے اوسان خطا کر دیئے تھے عالمی سامراج کو خلیج کے گرم پانیوں تک روس کی رسائی کی فکر بھی لاحق ہو گئی تھی لہٰذا وہ ایشیاء کی جانب فوری متوجہ ہوا اور بھارتی وزیراعظم کو امریکہ آنے کی دعوت دے دی، اکتوبر 1949ء میں جواہر لال نہرو امریکہ گئے اور امریکی صدر کو اپنی غیر جانبدار پالیسی سے آگاہ کیا جس پر امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ایچی سن نے یوں مایوسی کا اظہار کیا ”نہرو سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس امریکی منصوبے میں معاون ثابت ہو جو امریکہ، روس اور چین کیخلاف بروئے کار لانا چاہتا ہے“The American Role in Pakistan
اس موقع پر ایشیاء کے رگ و پے سے آشنا، امریکی حلیف برطانیہ کے سر ولیم بارٹن نے وزارت خارجہ کے فارن افیئرز کے جنوری کے شمارے میں امریکہ کو یہ مشورہ دیا ”مغرب پاکستان پر توجہ دے جو تیل پیدا کرنے والے مسلم ممالک کے قریب ہے، پاکستان کو یہ کام سونپا جا سکتا ہے کہ وہ کمیونزم سے حفاظت کیلئے مسلم ممالک کے اطراف ایک دیوار بنا ڈالے“ اس سلسلے میں برطانوی وزیر خارجہ ارنسٹ بی ون امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ایچی سن سے ملے اور انہیں گریٹ گیم کی کامیابی کے واحد پُرامید آپشن کے بارے میں بتایا ”برطانیہ و امریکہ کو تیل کے دفاع کیلئے اشتراک کرنا چاہئے اور ہم یہ کام پاکستان کے ذریعے کر سکتے ہیں (American Role Page 70-71) ابن الوقت عناصر کی پاکستان میں زرخیزی کے باعث امریکہ کو اپنے منصوبے پر عملدرآمد کیلئے زیادہ تگ ودو نہیں کرنی پڑی، ذرا سے اشارے پر خارجہ سیکرٹری اکرام اللہ خان، وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان، سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا اور وزیر خزانہ غلام محمد امریکہ کی یاترا سے امریکیوں نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ لوگ کس ارزاں نرخ پر دستیاب ہیں۔ اس حوالے سے غلام محمد کے متعلق امریکی سفارتخانے کو لکھاکہ غلام محمد پاکستان کی سربراہی کے خواب دیکھ رہا ہے“ الغرض ان تمام پاکستانی نمائندوں سے راہ و رسم کے بعد جو نتیجہ امریکہ کے ہاتھ لگا، اس کا اظہار امریکہ کے ڈائریکٹر آف میوچل سیکورٹی اسٹیٹ میکیگی نے اپنے ادارے کو ارسال کردہ رپورٹ میں یوں کیا ”جب روس سے سرد جنگ کی نوبت آئے گی تو پاکستان، برطانیہ و امریکہ کی ہر قسم کی امداد کیلئے تیار ہو جائے گا یہاں تک، جس میں ہوائی اڈے کا استعمال بھی شامل ہے“ (American Role P-88) اس منظرنامے میں وزیراعظم لیاقت علی خان روس کا دورہ منسوخ کرتے ہوئے امریکہ جا پہنچے اور تعلقات کے نئے دور کی شروعات کے ساتھ ہی گریٹ گیم کیلئے بساط سجانے کے عمل کا بھی آغاز ہو گیا، لیاقت علی خان شہید کر دیئے گئے اور گورنر جنرل غلام محمد ”ٹاپ“ پر آگئے بعد ازاں غلام محمد اور اسکندر مرزا کو نشان عبرت بنا دیا گیا اور ایوب خان جو کہ کار آمد مہرہ تھے، کلی اختیار کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے۔ ایوب خان قیام پاکستان کے وقت برطانوی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل تھے اور اس وقت سے برطانیہ کا نظر انتخاب تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت سے قبل جب سامراج مخالف محب وطن جنرل شیر محمد خان اور جنرل افتخار فضائی حادثے کا شکار ہو گئے تھے تو فوج میں سرعت کے ساتھ ترقیاں شروع ہو گئی تھیں اور ایوب خان صرف تین سال میں لیفٹیننٹ کرنل سے میجر جنرل بن گئے تھے۔ برطانیہ نے ہندوستان سے جاتے جاتے جنرل گریسی کے ساتھ انہیں نائب کمانڈر انچیف بنا دیا تھا، بہرکیف ایوب خان کو برطانیہ و امریکہ لے جایا گیا اور وفاداری کے کامل یقین کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ سیاسی قیادت کو رفتہ رفتہ منظر عام سے ہٹا کر ایوب خان کو اقتدار سونپ دیا جائے گااور اس فکر کو روبہ عمل لانے کیلئے سیاست کی بیخ کنی اور جمہوریت کو متروک بنانے کا ڈرامہ شروع ہوا۔ راولپنڈی سازش کیس، لیاقت علی خان کا قتل، حکومتوں کی تیزی سے توڑ پھوڑ وغیرہ وغیرہ۔ اس ڈرامے کے مختلف حصے تھے، فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں آمریت کے ذریعے کمیونزم کا راستہ روکا جا سکتا ہے اور وقت نے اس کو درست بھی ثابت کیا لیکن اس کی قیمت پاکستان کو اپنی بربادی کی صورت میں چکانی پڑی۔
ایوبی آمریت کیخلاف لاوا پھٹ جانے کے بعد اگرچہ اقتدار ایک اور جرنیل کے سپرد کردیا گیا تھا لیکن عوامی جذبات ٹھنڈا کرنے اور اس یقین کے ساتھ کہ کنٹرولڈ ڈیموکریسی میں سامراج نواز جاگیردار و بنیاد پرست عوامی اعتماد حاصل کر لیں گے، 1970ء میں عام انتخابات کرائے گئے لیکن انتخابی نتائج نے امریکہ اور اس کے پاکستانی حلیفوں کو نیم پاگل کردیا۔ 300 میں سے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے160نشستیں حاصل کر لیں یہ متوسط و غریب طبقے کے باشعور و پڑھے لکھے نمائندے تھے، ایوب خان مرحوم نے اپنی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹرز میں ون یونٹ کے تناظر میں بنگالیوں کی سیاسی سوچ اور غلبے کا ذکر کیا ہے، جو دبائے نہ دب سکا۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد امریکہ کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگر بنگالیوں نے مغربی پاکستان کی جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر آزاد خارجہ پالیسی اپنالی تو پھر وہ تو ہاتھ ملتے رہ جائیں گے لہٰذا ملک کے دولخت ہونے پر یہ خدشہ قصہ پارینہ بن گیا۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بادل ناخواستہ قبول کئے گئے۔
جنرل ضیاء الحق کا دور سرد جنگ کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا لہٰذا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حلیف نقاب اتار کر اور سیاسی حدود پھلانگ کر امریکی مقاصد کیلئے میدان میں کود پڑے۔روس امریکی قیادت میں پوری دنیا کا مقابلہ نہ کرسکا اور اس طرح ویتنام میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ امریکہ واحد سپرطاقت بن گیا۔ کمیونزم کے خاتمے، گرم پانیوں تک رسائی کی روسی طاقت ختم ہونے اور بعدازاں خود امریکہ کے خلیج میں بیٹھ جانے کے باعث پاکستان کی افادیت ختم ہو گئی توامریکہ مارے خوشی کے یہاں سے اس طرح بھاگا کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا!!!! یار لوگ مگر اس کی جدائی زیادہ دیر برداشت نہ کر پائے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس خطے میں اسے واپس لانے کا کارنامہ بھی ایک ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ہی اپنے حواریوں کے ذریعے سرانجام دیا۔ کیا اب وہ وقت نہیں آیاکہ ہم اپنی اداؤں پر غور کرلیں!!اور یہ جان لیں کہ امریکہ سے دشمنی بھی اچھی نہیں اور دوستی بھی مناسب نہیں !! امریکہ کی دوستی تو ہم بھگت چکے ہیں، اب جو لوگ دشمنی کی بات کر رہے ہیں تو کیا وہ اس دشمنی کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہیں؟! اور کیا وہ یہی چاہتے ہیں کہ امریکہ 2014ء کے بعد بھی اس خطے میں موجود رہے
تازہ ترین