• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈلز : الائکہ، حجاب

ملبوسات : فائزہ مینا کار

آرایش: میجیکل ٹچ بائے سحر

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آئوٹ: نوید رشید

اِمسال ورلڈ کلر اتھارٹی ’’PANTONE‘‘ نے سال 2022ء کے لیے جس منفرد و خُوب صُورت رنگ کا انتخاب کیا ہے، وہ واقعتاً خاصا مختلف و منفرد ہے۔ نام ہے ’’ویری پیری‘‘ اور دِکھنے میں کاسنی مائل نیلا ہے۔ بظاہر تعلق نیلے رنگ کی فیملی ہی سے ہے، لیکن خواص و خصوصیات کے اعتبار سے گویا جامنی، کاسنی، لیونڈر، آرکڈ، اُودے، نیلگوں، بنفشی، سُرخی مائل نیلے، نیلگوں سُرخ، اناری، لائلک، میجنٹا، فالسئی، ارغوانی، ائرفورس بلیو، رائل بلیو، کیڈٹ بلیو، سلیٹ بلیو، شہتوت، سدابہار اور نیلم کے رنگوں کا ملغوبہ ہے۔ اور اس ضمن میں پینٹون کا کہنا ہے کہ ’’یہ رنگ دراصل ’’ہیپی پیری وِنکل بلیو‘‘ ہے۔ 

یہ نیا رنگ، ’’ویری پیری‘‘ حقیقتاً نیلے رنگ کی فیملی کا بہت گرم جوش اور خُوب صورت و خُوش گوار ترین رنگ ہے، جو خاص اس مقصد کے لیے منتخب کیا گیا ہے کہ پچھلے دو تین برس سے دنیا جس خوف و دہشت، آزمائش و ابتلا کی لپیٹ میں ہے، تو اُسے کم از کم سالِ نو میں تو ایک پُرجوش و پُرمسّرت رنگ کی ہم راہی میسّر آسکے۔‘‘ اور یہ شاید پہلی بار ہے کہ ورلڈ کلر اتھارٹی نے ایک برانڈ نیو رنگ متعارف کروایا ہے، جو نہ صرف عمومی آرایش و زیبایش، ایکسیسریز، گھروں کے انٹیریئر، آفسز کے ڈیکور، مختلف گیجٹس اور ہوم اپلائنسز کے انتخاب کو آسان کرے گا، بلکہ اِس رنگ کی وسیع رینج سے مستفید ہونے والوں کو ایک بہت خوش گوار و دل کش، پُرسکون و پُرلُطف احساس سے بھی مالا مال رکھے گا۔ 

پھر پینٹون کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ہمارے خیال میں اس رنگ کا انتخاب بڑی جرات کی بات ہے کہ ماضی میں ہم زیادہ تر بہت دھیمے، ٹھنڈے، ہلکے رنگوں ہی کو پسند کرتے رہے، جیسا کہ لونگ کورل، روز کوارٹز، ریڈئینٹ آرکڈ، کلاسک بلیو، الَٹی میٹ گرے، گرینری، ٹرکوائز، ہنی سکل اور سیرینیٹی وغیرہ۔ دوم، اِس رنگ کی سب سے بڑی خُوبی، اِس ایک رنگ میں بے شمار رنگوں کی یک جائی و ہم آمیزی ہے۔ جس سے نہ صرف حُسنِ انتخاب کے لیے ایک وسیع ترین میدان میسّر آگیا ہے، بلکہ محض ایک رنگ کےمختلف شیڈز اپنا کر متعدّد اہداف کا بیک وقت حصول بھی آسان ہوگیا ہے۔‘‘

ویری پیری محض ایک رنگ نہیں، ایک پوری تھیم ہے، جس سے صرف تخلیق کاروں، ڈیزائنرز ہی کو نت نئے آئیڈیاز پر کام کا موقع نہیں ملے گا، بلکہ اِس رنگ کے دنیاپرچھاجانےسے، دنیا بھی پہلے سے کہیں زیادہ حسین و جمیل، روشن و رخشاں، نیّر و تاباں اور خُوب نکھری سنوری، کِھلی کِھلی دکھائی دے گی۔ جب کہ خواتین کی تو گویا دلی مراد بَر آئی ہے کہ یہ رنگ خالصتاً نسائی رنگ جو ہے۔ وہ ایمان قیصرانی کی ’’کاسنی‘‘ کے عنوان سے ایک نظم بھی ہے ناں ؎ کاسنی دوپٹے کے.....ان سنہرے پھولوں پر.....تم نے ہاتھ کیا رکھا.....اُس کے بعد دنیا نے.....جب بھی مُڑ کے دیکھا تو.....اس نگر کی وہ لڑکی.....روشنی لپیٹے بس.....چاندنی نظر آئی..... کاسنی نظر آئی۔ 

محمّد احمد کے رشک بھرے دو سوال ہیں ؎ کاسنی رنگ کا.....وہ جو چھوٹا سا پھول.....اُس کے بالوں میں ہے.....کن خیالوں میں ہے.....اور آویزے، جو جھلملاتے ہوئے.....اُس کے کانوں میں ہیں.....کن اُڑانوں میں ہیں۔ اسی طرح انجیل صحیفہ کے اشعار ہیں ؎ مَیں تیرے لمس کے جادو سے خُوب واقف ہوں.....وہ شاخ ہوں، جو تِرے ہاتھ پر ہری ہوئی ہے.....مَیں لال رنگ لگاتی تھی نیلے خوابوں کو.....اِسی لیے تو یہ تعبیر کاسنی ہوئی ہے۔ پھر صابر ظفر کا بھی اس ضمن میں بڑا منفرد سا تخیّل ہے ؎ مجھے ناز اپنے خیال پر، مجھے ناز اُس کے جمال پر.....مَیں سمجھ رہا ہوں جسے نیا، وہ نیا نہ ہو ، کہیں یوں نہ ہو.....کبھی سُرمئی، کبھی آتشی، کبھی نقرئی، کبھی کاسنی.....کسی ایک رنگ میں رہ کے ہی جی لگانا ہو، کہیں یوں نہ ہو۔ 

اِسی طرح انور سدید کا شعر ہے ؎ اب طمانیت بہت محسوس ہوتی ہے مجھے.....ہوگیا ہے ہم سخن نیلا سمندر اور مَیں۔ جب کہ سارہ خان کی تو پوری غزل ہی گویا رنگ و رنگ ہے ؎ دل نشیں سی اک سحر اور اغوانی رنگ.....وصل کے لمحات پر تھے کامرانی رنگ.....اِک ادائے دلبریں سے پاس سے گزرا.....تھے لب و رخسار پر آتش فشانی رنگ.....قرمزی سا آفتاب اور دُھندلا جوبن..... آسماں پر دُور تک تھے آسمانی رنگ.....تھا کنارا جھیل کا اور کوہ کا دامن.....سیج تھی پھولوں کی اور زعفرانی رنگ.....تھا نگہ میں کس کا پَرتو اے بنفشی صبح.....یار کا چہرہ تھا یا پھر سات دھانی رنگ۔ 

اور غالباً ناصرہ زبیری پر تو اس رنگ کے جوہر بہت پہلے ہی کُھل گئے تھے، جو لکھا ؎ سنہری دھوپ اوڑھے ناچتی ہیں.....مِرے آنگن میں چمکیلی ہوائیں.....مِری چُنری سجاتی ہیں دھنک سے.....گلابی، کاسنی، نیلی ہوائیں.....شمالی کھڑکیوں سے جھانکتی ہیں.....دسمبر کی یہ برفیلی ہوائیں.....گئے ساون کی یادوں سے لپٹ کر.....چلی آئی ہیں کچھ سیلی ہوائیں۔

نیلا رنگ زیادہ تر مَردوں کا پسندیدہ رنگ، جب کہ جامنی یا کاسنی خالصتاً نسائی رنگ ہے، تو ذرا سوچیں، اگر ایک ایسا رنگ وجود میں آتا ہے، جو دونوں کا مِکسچر، دونوں کے خواص کا مجموعہ ہے، تو وہ کیا ہی شاہ کار رنگ ہوگا۔ اِس کی خصوصیات کی بات کی جائے، تو یہ روشنی، نور، اُجالے، طراوت، تازگی، اُمید و رجا کی علامت، کرسٹل انرجی فراہم کرنے والا رنگ ہے۔ جو ایک طرف بےحد ٹھنڈا، پُرسکون، خاموش، رومانی، دوستانہ سا ہے، تو دوسری جانب ممتا جیسے الوہی جذبات و احساسات سے لب ریز، گرم جوشی اور والہانہ پن کے اظہار کے لیے بھی انتہائی موثر ہے۔ 

سالِ نو کے لیے اِس کا انتخاب کرنےوالوں کو یقین ہے کہ بہت جلد یہ رنگ گلوبل انڈسٹری پر چھانے، لاکھوں لوگوں کا مَن پسند رنگ بننے والا ہے۔ تو لیجیے، ہم نے بھی آج اپنی بزم اِسی شان دار رنگ کے کچھ حسین و جمیل عکس و آہنگ سے مرصّع کردی ہے۔ ہمارے ساتھ آپ بھی ویری پیری، کاسنی مائل نیلے (ہیپی پیری وِنکل بلیو) کے مختلف شیڈز سے آراستہ اس محفل کا حصّہ بن جائیے اور ساتھ ترنّم ریاض کی یہ نظم گنگناتے رہیے ؎ سُنو.....یہ زیست ایسی شے نہیں، مِل پائے گی پھر.....دو جہاں کا حُسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر.....چلو، ہلکے سے رنگوں کی لپیٹو اوڑھنی.....برآمدے میں اُس سے کھیلیں گی ہوائیں کاسنی.....پھر جامنی سی روشنی اوڑھائے گی اِک مخملیں چادر .....مقیش اس میں ستارے ٹانکنے اُتریں گے..... دیکھو.....زندگی کا اور اِک دن ہے گزرنے کو، اُٹھو تو .....دو جہاں کا حُسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر۔