• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد میری خواہش تھی کہ فارن سروس جوائن کروں مگر جب پولیس گروپ ملا تو والدہ صاحبہ پریشان ہو گئیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ بیٹے کی زندگی ہر وقت خطرے میں ہی رہے گی، مجرموں سے واسطہ پڑے گا اور یہ خدشہ بھی تھا کہ کہیں اُن کا بیٹا سخت گیر نہ ہو جائے۔ دوسری طرف عزیز و اقارب خوش تھے اور سمجھتے تھے کہ میرا مزاج اس سروس سے مطابقت رکھتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد الحمدللہ پولیس کی وردی پہن لی۔ یونیفارم میں 33سال گزارنے کے بعد میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک بہترین محکمہ ہے۔ اس کے افسر و جوان اپنی جان داؤ پر لگا کر دوسروں کی حفاظت کرتے اور زندگیاں بچاتے ہیں اور یقیناً یہ کوئی آسان کام نہیں۔ 74برسوں میں پاکستان کے کم و بیش ساڑھے سات ہزار سے زائد پولیس ملازمین شہید ہوئے جن میں سپاہی سے لے کر آئی جی تک اور خواتین اہلکار بھی شامل ہیں۔ میں نے بھی برائی کا قلع قمع کرتے ہوئے کئی دفعہ کلمہ پڑھا اور اکثر یوں لگا جیسے یہ میرا آخری لمحہ ہے۔

اگر اس محکمے کی کارکردگی پر کوئی سوال ہوتا ہے تو ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کیونکہ پولیس معاشرے کا ایک عکس ہے۔ میرے خیال میں اس محکمے میں مسائل کی بنیادی وجوہات میں بیرونی مداخلت اور میرٹ کے بغیر بھرتی، تربیت کا فقدان، وسائل کی کمی اور افسر شاہی کا سرخ فیتہ ہے۔ یہ اچھنبے کی بات ہے کہ پولیس سمیت بیشتر محکموں میں اکثر باپ بیٹا اور خاندان کے بیشتر افراد ایک ہی دفتر میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جونہی بھرتی شروع ہوئی منظورِ نظر لوگوں کی لسٹ پہلے سے ہی آجاتی ہے، چاہے وہ معیار پر پورے اُترتے ہوں یا نہیں۔ بھرتی کریں تو محکمہ خراب اور نہ کریں تو نوکری خراب۔ ایک دفعہ ہمیں 500افراد کی بھرتی کا موقع ملا، ہم نے تیزی دکھائی کہ اس سے پہلے کہ کوئی نئی لسٹ موصول ہو جلدی جلدی اصولوں کے عین مطابق امتحان لے کر کامیاب اُمیدواروں کو Appointmentلیٹر جاری کردیے۔ شام کو حسبِ توقع پرچی والی نئی لسٹ موصول ہوئی تو معذرت کی کہ جناب بھرتی ختم ہو چکی ہے۔ اس پر صاحبِ اقتدار اس قدر ناراض ہوئے کہ اسامیوں والا اجازت نامہ ہی منسوخ کر دیا۔ کامیاب اُمیدواروں کا دل ٹوٹ گیا لیکن پھر عدالت کی مداخلت اور بھرتی میں شفافیت کی تسلی کے بعد ان تمام امیدواروں کی نوکری دوبارہ بحال ہو گئی۔ہر محکمے میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے لیکن پولیس میں بالخصوص اصلاحات کی بات کی جاتی ہے۔ شاید اس کو بہتری کی نہیں اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہاں سب سے پہلی کوشش بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کی۔ وہ نو آبادیاتی پولیس کی باقیات کو ختم کرنا چاہتے تھے کیونکہ اُس وقت کی پولیس انگریز نے بنائی تھی تاکہ غلاموں پر بذریعہ پولیس حکمرانی کریں۔ قائد نے میٹروپولیٹن پولیس سسٹم قائم کرنے کی منظوری دی مگر افسوس اُن کی رحلت کے بعد ان کا بویا ہوا بیج پروان نہ چڑھ سکا اور اسی حاکمانہ ذہن کے ساتھ براؤن صاحب نے اپنے ہی لوگوں پر اپنا رعب و دبدبہ جاری رکھا۔ پولیس اصلاحات کیلئے 1947سے لے کر آج تک 26سے زائد کمیشن اور کمیٹیاں بنیں مگر اُن کی سفارشات پر صحیح طرح عمل نہ ہو سکا۔ اگرچہ کچھ اصلاحات ضرور آئیں اور بہتری بھی دیکھی گئی لیکن نوآبادیاتی نظام کا مکمل ڈھانچہ تبدیل کرنے کیلئے تسلی بخش اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ اس میں پولیس آرڈر 2002سب سے بہتر تھا جس پر سب متفق تھے کیونکہ اس میں پولیس کو جوابدہ بنایا گیا اور اس میں مداخلت کا خاتمہ، احتساب اور Specializationجیسے اہم نکات شامل تھے۔ جن کو لے کر خطہ کے دیگر ممالک نے اپنے نظام کو بہتر کیا لیکن افسوس اس آرڈر کے نفاذ سے قبل ہی درجنوں ترامیم کرکے اس کی اصل روح کا خاتمہ کر دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اربابِ اختیار نے اسے اسلام آباد میں ہی نافذ نہیں کیا۔ بعد میں سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کو جیسے ہی موقع ملا انہوں نے 2011میں خاموشی سے انگریز کا 1861والا پولیس ایکٹ دوبارہ نافذ کر دیا۔ پنجاب نے کسی نہ کسی طرح ٹوٹے پھوٹے انداز میں پولیس کے قوانین کو جاری رکھا مگر بیشتر شقوں کو نافذ ہی نہیں کیا جبکہ خیبر پختونخوا نے 2017میں اپنا ایک نیا پولیس ایکٹ متعارف کروا دیا۔ جب حالات زیادہ خراب ہوئے تو سندھ میں سول سوسائٹی نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت اس نتیجہ پر پہنچی کہ بلاوجہ کی مداخلت، ٹرانسفر پوسٹنگ اور ذاتی پسند ناپسند کا عنصر نہیں ہونا چاہیے۔ کسی طرح پولیس کی خود مختاری قائم رہے اور یہ محکمہ بغیر کسی بیرونی مداخلت کے اپنے فرائض سر انجام دیتا رہے اور اس کے برعکس کوئی قانون نہ بنایا جائے لیکن 2019میں سندھ حکومت نے تمام احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک نیا پولیس ایکٹ نافذ کر دیا۔ اس قانون کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست دائر ہوئی جو تاحال شنوائی کی منتظر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ 2018میں سپریم کورٹ کے حکم پر ایک پولیس ریفارمز کمیٹی بنی جس میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس آئی جی صاحبان شامل تھے۔ اس کمیٹی نے اپنے تجربات، زمینی حقائق اور عوام کی مشکلات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور سامراجی نظام کے خاتمہ کیلئے بہتر سفارشات پیش کیں جس کا لب لباب تھا کہ پولیس کا قانون پورے ملک میں یکساں ہونا چاہیے، شہری پولیسنگ ہونی چاہیے، احتساب کا عمل بہتر ہونا چاہئے اور تفتیش کے جدید طریقوں کو اپنایا جائے مگر صاحبِ اقتدار اور اشرافیہ ہی تبدیلی قوانین کے مخالف تھے کیونکہ اس طرح انہیں خود احتساب کے عمل سے گزرنا پڑتا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم واقعی پولیس میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں؟ عوام تو شاید ایسی تبدیلی کے متمنی ہوں لیکن جن کی اصل میں یہ ذمہ داری ہے وہ ایسا نہیں چاہتے۔ وہ شاید اس لیے کوئی سسٹم رائج کرنے میں مخلص نہیں کہ پھر اُن کا اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا اور عوام الناس، دوست احباب اور رشتہ دار چھوٹے چھوٹے جائز اور ناجائز کاموں کیلئے اُن کے ارد گرد طواف کرنا بند کردیں گے۔یہ توسب چاہتے ہیں کہ پولیس میں مداخلت ختم ہو اور اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت میں اضافہ ہو لیکن جو یہ بات کہتے ہیں کیا وہ واقعی چاہتے بھی ہیں کہ ایسا ہو؟

(صاحبِ مضمون وفاقی سیکرٹری وزارتِ سدِّ بابِ منشیات، پاکستان ہیں)

تازہ ترین