• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جہاں موسم تبدیل ہورہا ہے، وہیں سیاسی حالات بھی تیزی سے تبدیل ہور ہے ہیں، اس وقت پاکستان جس قسم کے حالات سے گزر رہا ہے، اس میں ہر جانب افراتفری پھیلی ہوئی ہے،کسی شعبے میں استحکام دکھائی نہیں دے رہا ۔ عوام پریشان اور بدحال ہیں تو اپوزیشن جماعتیں ملک کی تباہی اور بربادی کا رونا رو رہی ہیں، صنعت کار اور تاجر برادری بھی بے بس ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا جو عوام کیلئے سکون آور ثابت ہوا ہو،ایسے حالات ماضی میں کبھی اس ملک میں نظر نہیں آئے۔ پاکستان کو معاشی تباہی سےبچانے کے لئے فوری اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والے وقتوں میں حالات بے قابو ہو سکتے ہیں ۔عوام میں مہنگائی کا بوجھ اٹھانے کی سکت ختم ہوچکی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ عوام اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو پاکستان بچائو کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہونا ہوگا۔اس وقت حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم زبانی جمع خرچ تک ہی محدو د ہے، سیاسی ماحول گرم رکھنے کیلئے اعلانات تو ہوتے رہے لیکن فیصلہ سازی کا فقدان نظر آیا۔پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو ساڑھے تین سال کا عرصہ ہوچکا ہے، اگلا سال الیکشن کا سال ہے مگر اس حکومت کے دور میں اب تک جس انداز سے روپے کی قدر کم ہوئی ایسے مناظر پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے، جس کی اہم ترین وجہ وزیر اعظم کی اپنی ٹیم کی نااہلی ہے جس کی وجہ سے ایک دو وزارتوں کے سوا کسی میں بھی وہ ترقی نہیں ہوسکی جس کی عوام کو امیدیں تھیں، موجودہ حکومت کی بدنصیبی یہ ہے کہ اس نے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف چور،ڈاکو اور کرپٹ کے علاوہ کوئی وظیفہ نہیں پڑھا،ایسا لگتا ہےکہ حکمرانوںکے پاس عوام کے چہروں پر مہنگائی ، گرانی اور بیروزگاری سے لکھی پریشانی پڑھنے کا وقت بھی نہیں ہے۔وزیر اعظم ملک میں لوٹی ہوئی دولت لانے کی باتیں کرتے تھے، بیرونی قرضہ نہ لینے کا وعدہ کرتے تھے مگر یہ سب کچھ اقتدار میں آنے سے قبل صرف انتخابی نعرے تھے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں توچلتے ہوئے کاروبار بند ہوگئے،ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے، وزیر اعظم کشکول توڑنے کی نوید دیتے رہےمگر پورا ملک آئی ایم

ایف کے شکنجے میں جکڑا گیا۔آئی ایم ایف کے ہٹ مین ملکی اکانومی کی گاڑی چلا رہے ہیں۔ ہمارا وزیر خزانہ پہلی مرتبہ کسی بین الاقوامی ادارے کے کلرک سے زیادہ اپنی حیثیت نہ منواسکا،تین سال میں سب سے اہم وزارت کا وزیر ہی تبدیل ہوتا رہا ہے، آئی ایم ایف کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مہنگائی کہاں پہنچتی ہے، اس کے حکام یہ دیکھتے ہیں کہ جو پیسہ دیا ہے، اس کی ریکوری کیسے کرنی ہے۔ اس ریکوری کو مائنڈ میں رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ مختلف اشیا پر لازمی سبسڈی تک ختم کی جاتی ہے تو نتیجے میں مہنگائی ہوتی ہے جب تک ہم آئی ایم ایف کے شکنجےمیں پھنسے ہوئے ہیں خواہش کے باوجود مہنگائی کو کنٹرول نہیں کرسکتے جو کہ ساری برائیوں کی جڑ ہے۔اسٹاک ایکسچینج کے درست سمت میں سفر کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو، کاروباری سرگرمیاں بغیر افراتفری آگے بڑھ رہی ہوں، بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور شرح سود میں عوام دشمن اضافہ نہ ہو رہا ہو۔ اپوزیشن اور حکومت نے اگر صورت حال کا درست اندازہ نہیں کیا تو حالات سیاستدانوں کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے لئے عوام کے غصے کا ایک نمونہ خیبر پختوا کے بلدیاتی ا نتخابی نتائج ہیں جو ان کے ساتھ ساتھ حکومتی اتحادی جماعتوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے بھی کافی ہیں\۔2013کے بعد پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو عوامی پذیرائی کے بجائے سخت سوالوں کا سامنا ہے، عوام تنگ آچکے ہیں، یہ نہ ہو کہ عوام آگے نکل جائیں اور سیاستدان پیچھے رہ جائیں، مسلم لیگی رہنما مریم نواز کے اس بیان کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ اگلے انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ہیلمٹ استعمال کرنا پڑے گا، سیاسی محاذ آرائی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان واپسی کے تمام راستے بند نظر آرہے ہیں، تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال کے سبب ملک میں عدم استحکام کے بڑھنے کا خدشہ ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو خدا نخواستہ اس کے بہت خطرناک نتائج سامنے آنے کا خدشہ ہے۔موجودہ حالات میں ماسوائے اپوزیشن سے بات چیت کے اس کا کوئی حل نہیں۔ حکومت بالخصوص وزیراعظم کو انا کے خول سے باہر آنا ہوگا کہ صرف نتیجہ خیز مذاکرات ہی اس صورتحال کو ٹال سکتے ہیں،پاکستان کو بیرونی محاذ پر بھی زبردست چیلنجز کا سامنا ہے۔ جس میں افغان صورت حال کے اثرات، امریکا کے ساتھ سرد مہری، بھارت سے گرما گرمی اور کشمیر میں بدلتے رجحانا ت شامل ہیں جس کیلئے مستحکم خارجہ پالیسی بنانا ہوگی۔

تازہ ترین