لندن میں قائم ’’لاہور کلب یوکے‘‘ کے ایک ممبر طیب جلال خان نے اُس کلب کے واٹس ایپ گروپ میں 1967کے ’’روزنامہ کوہستان‘‘ کا ایک صفحہ شیئر کیا جس میں مرحوم صحافی شجاعت علی خان نے ’’موچی دروازہ لاہور کا ہائیڈ پارک‘‘ کے عنوان سے فیچر لکھا تھا، جس میں انہوں نے لکھا کہ برصغیر کی لاتعداد سیاسی، سماجی اور مذہبی تحریکوں کا یہ مرکز رہا ہے۔ فیچر رائٹر کی یہ تشبیہ قدرے درست بھی ہے کیونکہ موچی دروازے کی تاریخ اور جغرافیہ تو اپنی جگہ لیکن اس دروازے کے باہر دائیں ہاتھ پر واقع پارک کی تاریخی بالخصوص اُس کی سیاسی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شہرِ لاہور کے قدیم باسی موچی باغ کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بارہ دروازوں اور ایک موری کی فصیل کے اندر وہ آبادیاں بسی ہوئی ہیں جنہیں اندرون لاہور کہا جاتا ہے۔ بیرون موچی و اکبری دروازے اور سرکلر روڈ کے درمیان واقع سرسبز حصے کو موچی باغ کا نام دیا جاتا ہے۔ چند دہائیاں قبل یہ بھی کہا جاتا تھا کہ سیاسی اُتار چڑھاؤ کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کا دل پنجاب ہے، پنجاب کا دل لاہور اور لاہور کا دل موچی دروازہ ہے۔ موچی دروازہ بارہ دروازوں میں یکتا اس لیے بھی ہے کہ یہ تاریخی، تہذیبی، علمی، تمدنی، مذہبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا گڑھ بھی رہا ہے۔ اس علاقہ میں اصول، وضع داری اور خالص لاہوری اقدار کی صدیوں نشوونما ہوئی ہے۔ شعر و ادب، علم و ہنر اور سیاست سے جُڑی بےشمار شخصیات نے اِسی علاقہ میں پرورش پائی۔ یہی وہ موچی باغ ہے جہاں جلسہ نہ ہونے دینے کے لیے ماضی کے کئی حُکمرانوں نے دفعہ 144بھی لگائی۔ شاید غلام مصطفیٰ کھر گورنر پنجاب تھے، اخبارات میں ان کا ایک بیان تاریخ کے اوراق میں موجود ہے کہ ’’اگر آغا شورش کاشمیری نے موچی دروازہ میں جلسہ کرنے کی کوشش کی تو حکومت ان پر سختی سے ہاتھ ڈالے گی“۔ آغا شورش نے بھی گورنر کی اس دھمکی کا بڑا دلچسپ جواب دیا، انہوں نے کہا ’’کھر صاحب! آغا شورش کاشمیری نو بہار ایکٹرس کا دوپٹہ نہیں جس پر کوئی رنگ رنگیلا چھیل چھبیلا گورنر جب چاہے ہاتھ ڈال سکے، موچی دروازہ میں جلسہ ضرور ہوگا‘‘ اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ جلسہ ہوا بھی۔
اسلامیہ کالج اور برکت علی اسلامیہ ہال کے قرب میں واقع موچی باغ کی جلسہ گاہ نے نہ صرف انگریز راج سے آزادی کی جدوجہد میں اہم کردار کیا بلکہ یہ تاریخی میدان 1947کے بعد بھی شہریوں کے اظہارِ رائے کے حق کے تحفظ نیز اُن کے سیاسی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے حصول کی مسافت کے بہت سے مراحل کا گواہ رہا ہے۔ یوں تو گول باغ (ناصر باغ) کو بھی لاہور کے ہائیڈ پارک کا نام دیا جاتا ہے لیکن آزادی اظہار کے حوالے سے یہ مقام حقیقی معنوں میں موچی باغ ہی کو حاصل رہا ہے۔ لالہ لاجپت رائے، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، علامہ سر محمد اقبال، قائداعظم محمد علی جناح، نوابزادہ لیاقت علی خان، مولانا ظفر علی خان، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ذوالفقار علی بھٹو، خان عبدالولی خان، شورش کاشمیری، نوابزادہ نصراللہ خان اور نہ جانے کون کون سی بلند آہنگ ہستیاں تھیں جن کی آوازوں نے یہاں سامعین کو غروبِ آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک اپنے سحر میں گرفتار رکھا۔ آج حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار کا یہ گہوارہ تاریخی اہمیت کے دیگر بہت سے مقامات کی طرح، حکام کی عدم توجہ، قبضہ مافیاکی چیرہ دستیوں اور خود عام شہریوں کے تخریبی رویوں کا شکار ہے۔
لندن میں ایک پارک ہے جس کا نام ہائیڈ پارک ہے، اس کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں ایک جگہ مخصوص ہے جسے اسپیکر کارنر کہا جاتا ہے جہاں کھڑے ہو کر آپ کسی بھی بڑے سے بڑے آدمی یہاں تک کہ برطانوی وزیراعظم کو بھی برا بھلا کہہ سکتے ہیں، آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا اور نہ ہی روکے گا، ہائیڈ پارک دونوں فریقین کیلئے یکساں مفید ثابت ہوتا ہے۔ بولنے والا متاثرہ فریق چیخ چلا کر اپنی بھڑاس، غصہ نکال لیتا ہے اور شورش اضطراب ذہنی سے نجات پا لیتا ہے۔ دوسری جانب حُکام بالا اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ بھڑاس نکاسی کا راستہ پا لے تو بہتر ہے ورنہ یہ گھٹن اور تپش کسی بھی تحریک کا باعث بن سکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی عملی تحریک جب ہی میدانِ عمل میں آئی جب اضطراب حد سےبڑھگیا، دباؤ ناقابلِ برداشت ہو گیا تو دلوں میں دبی سلگتی چنگاریوں نے میدانِ عمل میں الاؤ بھڑکا دیے، وہ الاؤ جو بھسم کرنے اور راکھ کر دینے کی اہلیت رکھتے تھے، ہائیڈ پارک کا اسپیکر کارنر بھی ایسا ہی ایک گوشہ ہے جہاں دلوں میں دبی چنگاری وہاں کی فضا میں اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ 2018میں جب پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالہ تو اپنے انواع و اقسام کے دیگر بیشمار وعدوں کی طرح لاہور میں لندن کی طرز کا ہائیڈ پارک قائم کرنے کا اعلان بھی کیا، کہا گیا کہ یہاں جلسے جلوس ہوا کریں گے۔ اُس وقت کے ڈی سی لاہور نے سگیاں پل کے پاس 10ایکڑ جگہ مختص کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا، وزیراعلیٰ نے اس کی توثیق بھی کی اور کبھی لاہور کے ناصر باغ کو ہائیڈ پارک میں بدلنے کی بات بھی کی گئی لیکن پھر کیا ہوا ’’وہ تحریک انصاف ہی کیا جو وعدہ وفا کرے‘‘۔
عین ممکن ہے کسی ’’حکومتی سیانے‘‘ نے حُکمرانوں کو صلاح دی ہو کہ بھائی لوگو! کوئی عقل کے ناخن لو، اگر ہائیڈ پارک طرز پر اظہارِ رائے کی شتر بےمہار آزادی دے دی گئی تو یہ عوام ہماری سیاست اور پالیسیز کے کشتوں کے پشتے لگا دیں گے۔ ہائیڈ پارک والی یہ عیاشی تو رہنے ہی دیں لیکن ہم لاہوریوں اور پاکستانیوں کی گزارش ملک کی سیاست پر اثرانداز ہونے والی قوتوں سے یہ ہے کہ موچی دروازہ باغ جو آج بھی قبضہ گروپوں کے پنجوں سے بچا ہوا ہے، اس کو صاف ستھرا رکھیں اور اس کی تاریخی اہمیت کو بحال کریں، اسے ہائیڈ پارک اور اسپیکر کارنر ڈکلیئر کرکے ایک نئی روایت کی بنیاد رکھیں جہاں مکالمے اور خیالات کے تبادلے کی تابندہ روایت کو آج کے دور کے تقاضوں کی روشنی میں زندہ رکھنے کی کوشش کی جائے اور اندھی تقلید سے انکار، تفکر، روشن خیالی اور ترقی پسندی جیسے لوازمات پروان چڑھیں۔ جو ترقی یافتہ اقوام کی طرح ہمارا بھی کل اثاثہ ہونے چاہئیں، چنانچہ درخواست ہے کہ یہ مختصر سا سامان ہی پاکستان کے شہریوں کو تعلیم یافتہ، مہذب، معقولیت پسند اور بااختیار بنانے میں زادِ راہ کا کام دے گا!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)