• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوگن ائیر پورٹ سے جہاز روانہ ہوا تو اُس میں بڑی تعداد میں پاکستانی نژاد امریکی خاندان سوار تھے، جن کے بچے ایک ایسے ملک میں چھٹیاں گزارنے جا رہے تھے جہاں کی تہذیب و تمدن، طور اطوار، بولی اور تہوار اُس ملک سے یکسر مختلف تھے جہاں وہ رہائش پذیر تھے۔ وہ سب دور دراز شہروں سے گھنٹوں کی مسافت طے کرکے بوسٹن پہنچے تھے اور آگے بھی طویل دورانیے کی فلائٹ انہیں وطن کی طرف لے جا رہی تھی۔ بچوں اور بڑوں کے چہروں پر انجانی خوشی تھی، اپنوں سے ملنے کی اور اپنی مٹی سے محبت کی۔ کچھ والدین اپنے کم سن بچوں کو اپنے والدین سے ملانے لے جا رہے تھے، چند مسافر اپنے عزیزوں کی شادیوں میں شریک ہونے اور کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے پُراعتماد نوجوان طالب علم اپنے بوڑھے اور کمزور ہوتے والدین اور پرانے دوستوں سے ملنے کو بیتاب تھے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسٹاپ اوور کے بعد فلائٹ روانہ ہوئی تو عرب ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی بھی جہاز میں سوار ہو گئے۔ اُن مسافروں کی اکثریت نے معمولی کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھے مگر اپنے بیوی بچوں، بہن بھائیوں اور والدین کیلئے قیمتی تحائف سے بھرے سوٹ کیس تھام رکھے تھے۔ یہ سب وہ محنت کش تھے جو بیرونِ ملک انتہائی محنت اور جانفشانی سے کام کر تے ہیں تاکہ اُن کے خاندان والے وطن میں خوشحال زندگی گزار سکیں۔

بیرونِ ملک سے آنے والی فلائٹس کو دیکھا جائے تو اوورسیز پاکستانیوں کی جھلک اُن میں بخوبی نظر آتی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ ان کا آبائی وطن پاکستان اب محض چھٹیاں گزارنے اور معدوم ہوتے رشتوں کو ملنے کی جگہ ہے۔ چند برس پہلے تک بیرونِ ملک بسنے والے تقریباً سبھی والدین کی خواہش ہوتی تھی کہ اپنے بچوں کیلئے بہو یا داماد پاکستان سے لے کر آئیں مگر اب بیرونِ ملک بسنے والی نئی نسل مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے والدین کے آبائی وطن میں شادی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی نئی نسل پڑھ لکھ کر اچھے عہدوں پر فائز ہو چکی اورمتمول اور آزاد زندگی گزار رہی ہے اور پاکستان کے گھٹن زدہ ماحول، تنگ نظر معاشرے اور فرسودہ نظامِ تعلیم سے مستفید ہونے والے بچے ان کو بطور لائف پارٹنر قابلِ قبول نہیں ہیں البتہ جدید مغربی طرز کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیلبچے جو فیشن اور آزادی میں مغرب کے بچوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں، وہ باآسانی بیرونِ ملک ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔ بیرونِ ملک بسنے والے پاکستانیوں کیلئے اپنی آبائی جائیداد اور بعد میں کی گئی انویسٹمنٹ کا تحفظ اور بچے بچیوں کے مناسب ہم پلہ رشتے دو سب سے بڑے مسئلے ہیں جن کی طرف حکومت کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب اور ابوظہبی میں تارکینِ وطن کی ایک بہت بڑی تعداد رہائش پذیر ہے جو سب سے زیادہ زرمبادلہ اپنے ملک بھیجتے ہیں مگر ان کا مستقبل غیریقینی صورتحال کا شکار ہے۔ ان ممالک میں روزگار اور کاروبار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں ان کی بڑی تعداد کی واپسی شروع ہو جائے گی جس سے نہ صرف بیرونی ترسیلات متاثر ہوں گی بلکہ ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوگا جس کی طرف حکومت کی توجہ دلائی جانی ضروری ہے۔ یورپ اور امریکہ سے بھی آنے والے برسوں میں ترسیلاتِ زر سکڑنا شروع ہو جائیں گی کیونکہ وہاں مقیم پاکستانیوں کی نئی نسل کی اولین ترجیح وہی ملک ہوگا جس کے ساتھ اُن کا مستقبل وابستہ ہے۔

پاکستان کے عوام، حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کو بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی وطن سے محبت اور قربانیوں کا بخوبی علم ہے۔ پاکستان کی مالی مشکلات کا مداوا کرنا ہو، قدرتی آفات کا مقابلہ کرنا ہو یا ملک کیلئے لابینگ کرنی ہو، بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ہمیشہحکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے مگر بدقسمتی سے جب بھی ان کی نمائندگی کا موقع آیا ہر حکومت نے اپنے چہیتے آگے کر دیے جن کا مطمح نظر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی خدمت نہیں بلکہ اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے بیرونِ ملک چیپٹر اور شاخیں کمیونٹی میں تفریق کا باعث بن رہی ہیں جس کی وجہ سے وہاں کی نئی نسل پاکستانی سیاست سے متنفر ہو رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ’’اپنا‘‘ کی طرز پر غیرسیاسی فورم اور آرگنائزیشنز تشکیل دی جائیں جو پاکستان اور اپنی کمیونٹی کیلئے بلا امتیاز خدمات انجام دے سکیں۔

(صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین