• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن میں فوج ہو، اندر بھی، باہر بھی اور گنتی کے دوران بھی تو مجھے یقین ہے کہ کچھ لوگوں کو کافی ٹھنڈ پڑ گئی ہوگی، افاقہ محسوس ہوا ہوگا اور ضمنی الیکشن کے نتائج سننے جاننے کے بعد کافی حد تک پرسکون ہوگئے ہوں گے کہ ایم کیو ایم ایک بہت ہی بڑی، فیصلہ کن اور زندہ حقیقت ہے جو بے رحم ریاستی پروپیگنڈے کا شکار رہی اور پروپیگنڈہ ایسی بھیانک چیز ہے جس کے نتیجہ میں انسان اینجلینا جولی کے بارے تو سب کچھ جانتا ہے لیکن اپنے گھر کی ملازمہ کے بارے لاعلم ہوتا ہے۔ پروپیگنڈہ کے علاوہ ایم کیو ایم سے کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی کہ ان میں سے کوئی بھی پشتینی حکمران نہ تھا۔ ایم کیو ایم بنیادی طور پر ظلم، تشدد اور بدترین استحصال کا ردعمل تھی اور ری ایکشن میں کوئی کچھ بھی کرسکتا ہے۔ دس دن کے بھوکے کو ڈائننگ ٹیبل پر بٹھاؤ گے تو وہ نیپکن ، چھری، کانٹے کے نخروں میں پڑے بغیر کھائے گا کم، گرائے گا زیادہ لیکن یہاں وہ لوگ ہی موجود نہیں جو واقعات اور شخصیات کو ”تیسری آنکھ“ سے دیکھ سکیں مثلاً میں نے گذشتہ ہفتہ دس دن میں مختلف چینلز پر مختلف شہروں میں ”ڈاکوؤں“ اور ”چوروں“ کو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر شہریوں کے ہاتھوں وحشیانہ طریقہ سے پٹتے، مار کھاتے دیکھا لیکن خدا کی قسم مجھے ان ڈاکوؤں اور چوروں میں سے کوئی ایک بھی ”ڈاکو“ اور ”چور“ دکھائی نہ دیا۔ یہ سب بھوکوں پیاسوں کے مارے ”زندہ مردے“ تھے لیکن کسی ”غیور باشعور“ نے ٹھڈے مکے مارنے سے پہلے ان ڈاکوؤں چوروں میں سے کسی سے نہ پوچھا … ”تیرے بچے یا بہن بھائی تو بھوک سے قریب المرگ نہیں؟ تیری ماں یا باپ میں سے کوئی دوائی کے بغیر تو نہیں تڑپ رہا؟ تیری بہنیں جہیز کے بغیر بوڑھی تو نہیں ہورہیں؟
میں جرائم کو پروموٹ نہیں کررہا نہ انہیں Justify کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ مقصد صرف یہ یاد دلانا ہے کہ آقا نے فرمایا تھا کہ ”افلاس کفر تک لیجاتا ہے“ (مفہوم) تو چوری ڈکیتی تو کفر کے مقابلہ پر کوئی جرم ہی نہیں سو ہوسکے تو ”تیسری آنکھ“ استعمال کرنا سیکھو۔ ایم کیو ایم کی تاریخ پڑھو کہ ان لوگوں نے ابتدائی سالوں میں کس قدر بدترین ظلم و تشدد، اہانت و اذیت کو فیس کیا۔ آفرین ہے کہ ڈٹے رہے اور سیاسی اجارہ داروں سے اپنا حق وصول کر کے انہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا… ”ساڈا حق ایتھے رکھ“ میں ایم کیو ایم کو محاورے والے سات ہزار خون معاف کرتا ہوں کیونکہ مجھے عملی باغیوں سے عشق ہے۔ میرے بزرگ قتیل شفائی نے کیا خوب کہا #
میں نے تو قتیل اس سا منافق نہیں دیکھا
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
سلام ہے ان عام عوام غلام بچوں پر جنہوں نے کراچی حیدرآباد و دیگر استحصالیوں سے چھین لئے۔ ضمنی انتخاب کا نتیجہ اک ایسا اعلان ہے جسے روشن اذہان کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ پنجاب کے ایک بزرگ رانا نذر الرحمن اپنی قسم کی عالی شان شخصیت ہیں۔ ان کی آپ بیتی ایک روزنامہ کے سنڈے یا فرائیڈے میگزین میں چھپتی رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ فاشسٹسوں کی ایک جماعت نے کہیں تشدد کیا تو میں نے ان کے ایک لیڈر کو فون پر سرزنش کی تو جواب ملا ”یہ تو ہلکی پھلکی موسیقی تھی“۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب خود کو زبردستی مسلط کرنے والے اپنی جنونیوں کو ”مہاجر قومی موومنٹ“ نے بری طرح پھڑکایا، نشان عبرت بنایا تو رانا نذر الرحمن صاحب نے اس لیڈر کو فون کر کے کہا۔
”تمہاری ہلکی پھلکی موسیقی کے جواب میں الطاف حسین نے کراچی میں جو ”کلاسیکل موسیقی“ پیش کی ہے اس کے بار ے میں کیا خیال ہے؟“
رب العزت کی قسم! مجھے طاقت ملے تو میں پنجاب میں ان ہزاروں معززین کا حشر نشر کردوں جو اربوں روپے کی بجلی، گیس اور پانی چوری کر کے عوام کا قتل عام کررہے ہیں کیونکہ ظلم کے عادی مظلوم اول تو اٹھتے ہی نہیں لیکن اگر کبھی ایسا معجزہ ہو ہی جائے تو پہلے مرحلہ میں حدود سے تجاوز اک فطری بات ہے۔
میری منطق کو تو گولی ماریں لیکن اتنا ضرور سوچنا چاہئے کہ اگر پیپلز پارٹی او ر ن لیگ جیسی مین سٹریم، اہم اور بڑی سیاسی جماعتوں کی تان بھی ”نائن زیرو“ پر ہی ٹوٹتی ہے تو اس کی اکلوتی وجہ یہ کہ ایم کیو ایم فیصلہ کن سیاسی اہمیت کی حامل ایک محب وطن پارٹی ہے۔ اگر اس میں کچھ ”عقاب“ رہ بھی گئے ہیں تو ملک بھر میں ان کے سٹیکس بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی ختم ہو جائیں گے بلکہ ہو چکے ہیں اور آج یہ ایک انتہائی میچور، متوازن اک ایسی سیاسی پارٹی ہے جس کی پڑھی لکھی مڈل کلاس قیادت انتہائی منظم ہونے کے ساتھ ساتھ شدید محنت اور ہوم ورک پر یقین رکھتی ہے۔ غیر جانبداری سے اپنے طور پر فیصلہ کیجئے کہ ٹی وی ٹاک شوز میں مدلل ترین گفتگو کون لوگ کرتے ہیں۔
فوج کی کڑی نگرانی میں کرائے گئے ضمنی انتخابات کے نتائج پر ٹھنڈے دل کے ساتھ بلاتعصب غور کرنے سے یہ بات بہ آسانی سمجھ آجائے گی کہ پاکستانی معیشت کی سیاسی شہ رگ کی سیاسی شہ حقیقت کیا ہے؟ مزید یہ کہ پی ایس 64، میرپور خاص سے ظفر کمالی کی جیت میں بھی عقل مندوں کیلئے کچھ اشارے موجود ہیں۔
سچ یہ کہ اب تک تو صرف ایم کیو ایم ہی وہ واحد سیاسی پارٹی ہے جس نے زیریں متوسط طبقات کے قابل نوجوانوں کو سیاست میں پروموٹ کیا ہے۔ کیسا المیہ ہے کہ ہم عوام صنعت کاروں، جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کے تمام تر مظالم ان کا حق اور اپنا فرض سمجھ کر برداشت کر لیتے ہیں لیکن اپنے طبقے کو چھوٹ اور رعایت دیتے ہوئے شرماتے ہیں۔
تازہ ترین