• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اندرونی اور بیرونی، دیدہ و نادیدہ حملہ آوروں سے بچاؤ اور تحفّظ کے لیے ایک ایسا دفاعی نظام عطا کیا ہے، جو ہر وقت مستعد اور چوکس رہتا ہے۔ یہ نظام طبّی اصطلاح میں امیون سسٹم یعنی ’’مدافعتی نظام‘‘ کہلاتا ہے اور یہی مدافعتی نظام ہمارے جسم میں کسی بھی قسم کے خردبینی اجسام مثلاً بیکٹیریا، وائرس یا کسی بھی طرح کے زہریلے مواد کے داخل ہونے پر برق رفتاری سے اینٹی باڈیزتیار کرکے بَھرپور مزاحمت کرتا ہے۔ قوّتِ مدافعت کی دو اقسام ہیں۔ قدرتی قوّتِ مدافعت (Innate Immunity)اور غیر قدرتی قوّتِ مدافعت(Acquired immunity)۔

قدرتی قوّتِ مدافعت جسم میں خلیات اور پروٹین کی صُورت پائی جاتی ہے اور کسی بھی انفیکشن کو ختم کرنے کے ساتھ یہ نشان دہی بھی کرتی ہے کہ جسم کاکون سا حصّہ انفیکشن سے متاثرہوا ہے۔ مثال کے طور پر مچھرکے کاٹنے پر جِلد ہلکی سُرخی مائل ہوکر متوّرم ہوجاتی ہے اور خارش بھی محسوس ہوتی ہے،جب کہ غیر قدرتی قوّتِ مدافعت، غیر انسانی ذرّات (Antigen) یعنی بیکٹیریا اور وائرس کےجسم میں داخل ہونے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ 

یہ پیدایشی طور پر نہیں پائی جاتی ، بلکہ جسم میں کوئی اینٹی جن داخل کرکے ہی پیدا کی جاتی ہے،تاکہ جسم بیماری کے خلاف مدافعت میں سرگرم کردار ادا کرسکے۔ اس کے لیے ویکسینزکے ذریعے جس مرض سے بچاؤ ممکن ہو، اُس کا پورا وائرس مُردہ حالت میں یا پھر وائرس کا چھوٹا سا نمونہ داخل کر کے جسم کو ٹرینڈ کیاجاتا ہے، تاکہ اگر وائرس کسی طرح جسم تک رسائی حاصل کرلے، تو دفاعی نظام اُسےباآسانی زیر کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ بچّوں کو پیدایش کے پہلے دِن سے پانچ سال کی عُمر تک ایک خاص شیڈول کےمطابق حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں، تاکہ وہ مختلف موذی امراض سے محفوظ رہ سکیں۔

قدرتی طور پر پائی جانے والی قوّتِ مدافعت ،دفاع کی پہلی لکیر(First Line Of Defence)بھی کہلاتی ہے ،کیوںکہ جسم کو جراثیم اور وائرسز سے جتنے بھی خطرات لاحق ہوتے ہیں،تو یہی لائن سب سے پہلے ان کا دفاع کرتی ہے۔ سائنس دانوں نے اسے چار حصّوں میں منقسم کیا ہے۔ ایناٹومیکل بیرئیرز (Anatomical Barriers)، فزیالوجکل بیرئیرز(Physiological Barriers)، اینڈوسائٹک بیرئیرز(Endocytic Barriers) اور فیگوسائٹک بیرئیرز (Phagocytic Barriers)۔ ایناٹومیکل بیرئیرز کا کام جراثیم کو جسم میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ ان بیرئیرز میں انسانی جِلد اور اس پر موجود لیس دار جھلّی شامل ہے۔

اس ضمن میں ہماری جِلدکے دو حصّے ایپی ڈرمس اور ڈرمس بہت اہم ہیں۔ایپی ڈرمس باریک پرتوں پر مشتمل ہے اور یہ تمام پرتیں Epithelial نامی خلیات سےبنی ہوتی ہیں۔ قدرتی طور پر ہر پندرہ سے تیس دِن میں پُرانے خلیات ختم ہوکر ان کی جگہ نئے خلیات لے لیتے ہیں۔ ڈرمس جِلد کے کنیکٹیو ٹشوز،خون کی شریانوں،ہئیر فولیکلز، روغنی غدود اور پسینے کے غدود وںپر مشتمل ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے دفاع کے لیے اس پہلی رکاوٹ کو ایسے ہتھیاروں سے لیس کیا ہے کہ وائرسزیا جراثیم موقعے ہی پر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ 

جیسا کہ روغنی غدودسے ایک خاص قسم کا تیزابی نوعیت کا تیل خارج ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کئی جراثیم جسم پر چپکتے ضرور ہیں، لیکن فوراً ہی مَر جاتے ہیں۔ طبّی اعتبار سےزیادہ تر جراثیم نیوٹرل پی ایچ میں نمو پاتے ہیں، جب کہ بعض تیزابی پی ایچ میں۔ اگر تیزابی پی ایچ میں افزایش کرنے والے جراثیم کی تعدادبڑھ جائے تو چہرے پر دانے، پھوڑے پھنسیاں ظاہر ہونے لگتی ہیں،جن سے نجات کے لیے عموماً ڈرماٹالوجسٹس مخصوص جراثیم کُش مرکبات تجویز کرتے ہیں، تاکہ روغنی غدود کم کیے جاسکیں۔

عام طور پر متواتر اور غیر معیاری میک اَپ کی وجہ سے بھی جِلد میں کئی طرح کی تبدیلیاں پیداہوجاتی ہیں، جس کے نتیجے میں جِلد بیکٹیریا ہی سے نہیں، فنگل انفیکشن سے بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ ایک سروے میں اُن بیوٹی پارلرز کا جائزہ لیا گیا، جو میک اَپ، خاص طور پر آنکھوں اور جِلدکے لیے پراڈکٹس تیار کرتے تھے۔ 

رپورٹ کے مطابق ان کی تیار کردہ تقریباً تمام پراڈکٹس میں فنگس19.2 فی صد اور بیکٹیر یا 95 فی صد پایا گیا، جب کہ فیس پاؤڈر میں38.5 فی صد اور آئی لائنر میں30فی صد فنگس موجود تھا،کیوں کہ ان کی تیاری میں جگہ کا خیال رکھا جاتا ہے، نہ صفائی ستھرائی کا۔ پھر تیاری کے مراحل میں کسی قسم کی احتیاط بھی نہیں برتی جاتی۔ یاد رکھیے، اس طرح کی کاسمیٹکس استعمال کر کے جب خواتین بچّوں کو پیار کرتی ہیں، تو ان میں بھی جراثیم بلاواسطہ طور پر منتقل ہوجاتے ہیں۔

جِلدی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ جِلدکو جس قدر ممکن ہوسکے، کیمیکل سے پاک رکھا جائےاور قدرتی جڑی بوٹیوں سے تیار کی گئی ہربل کاسمیٹکس استعمال کی جائیں۔ عام طور پر چہرے کی تازگی کے لیے عرقِ گلاب استعمال کیا جاتا ہے، جو گھر پر بھی باآسانی تیار کرسکتے ہیں۔ موسمِ سرما میں لپ بام کا استعمال بڑھ جاتا ہے، تو چقندر کے عرق سےیہ بھی خود ہی تیار کی جاسکتی ہے، جس کے لیے ایک تازہ چقندر دھو کر چھیل لیں۔ اور اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے جوسر کے ذریعے رَس نکال لیں(بصورتِ دیگر چقندرا چھی طرح پیس کرچھلنی سے چھان کر بھی رَس نکالا جاسکتا ہے)۔

اس کے بعد شیشے کے باؤل میں1چائے کا چمچ گھی،2 چائے کے چمچ چقندر کا رَس ڈال کر اچھی طرح مِکس کرلیں اور ایک کُھلے منہ کے برتن میں تیز گرم پانی لے کر احتیاط سے اس کےدرمیان شیشے کا باؤل رکھ دیں، جب گھی پگھل کر رَس میں اچھی طرح مِکس ہوجائے تواس آمیزے کو پلاسٹک کے چھوٹے سے برتن میں بَھر کے فریزر میں رکھ دیں۔ یہ آمیزہ قدرے سخت ہو جائے، تو بوقتِ ضرورت استعمال کریں۔ یاد رہے، چقندر لپ بام بنانے کے لیے گھی کی جگہ ویزلین یا ناریل کا تیل بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ (مضمون نگار،فیڈرل اُردو یونی ورسٹی آف سائنس،کراچی سے وابستہ ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید