اسلام آباد:(انصارعباسی)…انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں حالیہ ترمیم، جس کے تحت سکیورٹی اداروں کو 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار ملا ہے، دراصل فوجی اور سول قیادت کے درمیان برسوں سے بند دروازوں کے پیچھے جاری اس بحث کا نتیجہ ہے جس میں شدت سے یہ راستہ تلاش کیا جا رہا تھا کہ لاپتہ افراد کے بحران کو ختم کیا جائے مگر اس طرح کہ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی مفلوج نہ ہو۔
باخبر ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اصل اختلاف یہی تھا کہ آیا فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو باقاعدہ یہ اختیار دیا جائے کہ وہ مشتبہ افراد کو 90 دن تک گرفتار کر کے حراست میں رکھ سکیں یا نہیں۔
یہ موضوع کئی برسوں تک سخت اور اعلیٰ سطحی مذاکرات کا محور رہا، حتیٰ کہ موجودہ آرمی چیف کے آنے سے پہلے بھی اس پر سنجیدہ بات چیت ہو چکی تھی۔
مسئلہ دراصل یہ تھا کہ فوج اور سکیورٹی ایجنسیاں دہشت گردی کے خلاف صفِ اوّل میں ہوتے ہوئے بھی کسی شخص کو گرفتار کرنے یا اس سے تفتیش کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں رکھتی تھیں، جس سے ایک خلا پیدا ہوتا اور جو لوگوں کی ناگزیر طور پرغیر سرکاری تحویل کی جانب لے جاتا تھا۔
ایک باخبر ذریعے نے بتایا کہ ’’دلچسپ چیز یہ تھی کہ بند کمرہ اجلاسوں میں اکثر سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہو جاتی تھیں، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے ردعمل کے خوف سے وہ اس قانون سازی سے ہچکچاتی تھیں۔‘‘
یہی سیاسی دباؤ اور عوامی تنازع کے اندیشے اس معاملے پر قانون سازی میں بار بار رکاوٹ بنتے رہے۔اب جب کہ ترمیم آخرکار منظور ہو گئی ہے، تو رانا ثنا اللہ اس حتمی نتیجے کے ایک اہم معمار سامنے آئے ہیں وہ سابق پی ڈی ایم حکومت میں وزیرِ داخلہ کے طور پر ان مذاکرات میں گہرے طور پر شامل تھے۔
رانا ثناء اللہ نے دی نیوز کو بتایا کہ ’’آخرکار وہ ترامیم، جن کی بے حد ضرورت تھی، پارلیمنٹ سے منظور ہو گئی ہیں۔‘‘ انہوں نے تصدیق کی کہ برسوں پر محیط پسِ پردہ بحث کا ہمیشہ ایک ہی مقصد تھا: ’’لاپتہ افراد کے مسئلے پر قابو پانا، وہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچائے بغیر۔‘‘ان کے اس بیان سے واضح ہے کہ یہ قانون سازی محض ایک نیا سکیورٹی ہتھیار نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے پرانے اور سب سے شرمندہ کرنے والے انسانی حقوق کے مسئلے کو حل کرنے کی ایک حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔
ایک ذریعے نے کہا کہ یہ ریاست کا اُس نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی صورت پر جواب ہے۔ رانا ثناء اللہ، جو اس وقت وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور ہیں، کا کہنا ہے کہ فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں کو مشتبہ دہشت گردوں کو تین ماہ تک احتیاطی حراست میں رکھنے کا اختیار دینا ہی لاپتہ افراد کے مسئلے کا طویل عرصے سے انتظار کیا جانے والا حل ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی اہم سول اور فوجی ادارے دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار ہیں، لیکن ان کے پاس مشتبہ دہشت گرد کو گرفتار کرنے، حراست میں رکھنے اور اس سے تفتیش کرنے کا قانونی اختیار نہیں تھا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کے بعد اب سول اور فوجی قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی مشتبہ دہشت گرد کو باقاعدہ گرفتار کر سکیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اختیار کے بغیر ہی لاپتہ افراد کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ سابق پی ڈی ایم حکومت کے دوران رانا ثناء اللہ فوجی حکام اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ قریبی رابطے میں تھے تاکہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی جامع حکمتِ عملی تیار کی جا سکے۔
ان مذاکرات میں بتایا گیا تھا کہ اگر فوجی اور سول اداروں کو مشتبہ دہشت گرد کو حراست میں رکھنے کا قانونی اختیار نہ دیا گیا تو لاپتہ افراد کا مسئلہ بڑھتا رہے گا۔ اور اگر ادارے کسی مشتبہ دہشت گرد کو گرفتار نہ کریں اور اس سے پوچھ گچھ نہ ہو تو یہ دہشت گردوں اور ان کے نیٹ ورکس کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا، جس سے عوام اور ملک کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔
پی ڈی ایم حکومت کے دوران اس مقصد کے لیے ایک اعلیٰ سطحی وزارتی کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی جس کی سربراہی اُس وقت کے وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کر رہے تھے۔ اس کمیٹی نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور اپنی تجاویز کو حتمی شکل دینے کا بیڑا اٹھایا تاکہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کیا جا سکے۔
اس وزارتی کمیٹی میں بلوچستان اور سابق فاٹا کے وزرا بھی شامل تھے۔ کمیٹی نے لاپتہ افراد کے لواحقین، سکیورٹی اداروں کے نمائندوں اور متعلقہ سرکاری محکموں سے ملاقاتیں کیں تاکہ ایسی حکمتِ عملی وضع کی جا سکے جس میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو سکے مگر سلامتی کے پہلوؤں پر سمجھوتہ نہ ہو۔
کمیٹی نے عدلیہ سے بھی مشاورت کی تاہم تنازعات سے بچنے کے لیے وہ اپنے کام کو مکمل نہ کر سکی۔