• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ گنہگاروں ‘‘ کو ’’ پارساؤں ‘‘ کے احتساب تک جانا ہے !

اپوزیشن کے سیاست دانوں نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی تجویز کو قبول کر کے دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے ، جس کے نتیجے میں پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کے لیے مجوزہ جوڈیشل کمیشن کے دائرہ ہائے کار ( ٹی او آرز ) بنانے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنانے پر بھی اتفاق رائے ہو گیا ہے ۔ انتہائی خوش آئند بات یہ ہے کہ اس مرتبہ سیاسی دانش مندی کے اس مظاہرے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی شامل ہیں ۔ یہ کئی لحاظ سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے ۔ سیاست دانوں کے اس دانش مندانہ فیصلے سے ایک طرف تو پاناما لیکس کا معاملہ پارلیمنٹ کے اندر ہی طے ہو جائے گا اور دوسری طرف حقیقی احتساب کا ایسا نظام قائم کرنے کا موقع میسر آئے گا ، جو جمہوری عمل کے تحت کام کر سکے گا ۔ ایسے نظام احتساب کی نہ صرف بہت زیادہ ضرورت تھی بلکہ یہ نظام احتساب جمہوریت کا بھی محافظ ہو گا ۔ بعض حلقوں کی طرف سے اپوزیشن کے سیاست دانوں کے اس فیصلے پر زبردست تنقید کی جا رہی ہے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ سیاست دانوں نے احتساب سے بچنے کے لیے مفاہمت کر لی ہے ۔ کچھ لوگ بہت ہی سخت الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ الزام عائدکر رہے ہیں کہ سب سیاست دان ’’ چور ‘‘ ہیں اور وہ ایک دوسرے کو بچانا چاہتے ہیں ۔ بقول شخصے ’’ یاں ہر کوئی پارسائی کی عمدہ مثال ہے ۔۔۔ دل خوش ہوا کچھ گنہگار دیکھ کر ‘‘ (شعر میں تحریف کی گئی ہے ۔ سیاست دانوں کی وجہ سے ’’ اک ‘‘ کی بجائے ’’ کچھ ‘‘ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ تنقید کرنے والے یہ حلقے صرف سیاست دانوں کو ہی گنہگار سمجھتے ہیں ۔ ) یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے اپوزیشن پر فتح حاصل کر لی ہے ۔ پیپلز پارٹی پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ ’’ فرینڈلی اپوزیشن ‘‘ ہے اور اس نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہاتھ کر لیا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو اس بات کا قصور وار ٹھہرایا جا رہا ہے کہ انہوں نے مبینہ سیاسی سودے بازی کی بنیاد پر نرم رویہ اختیار کر لیا ہے ۔ اس طرح کی تنقید کرنے والے یہ امر نظرانداز کر رہے ہیں کہ ’’ گنہگار ‘‘ اپنا احتساب کرنے پر متفق ہو گئے ہیں ۔ اس بات کو سراہا جانا چاہئے ۔ پہلے اس طرح کبھی نہیں ہوا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاست دانوں نے ایک دوسرے سے مفاہمت نہیں کی ہے کیونکہ پاناما لیکس کا معاملہ دفن نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس معاملے کی تحقیقات سے کڑے احتساب کا ایک عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیاہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپوزیشن کو شکست نہیں دی ہے بلکہ یہ اپوزیشن کی فتح ہے کہ وزیر اعظم نے جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آرز طے کرنے کا اختیار پارلیمانی کمیٹی کو دیا ہے ۔ اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ وزیر اعظم کے پارلیمنٹ سے خطاب اور احتساب کے لیے اپنے آپ کو ’’ سرنڈر ‘‘ کرنے کے بعد اپوزیشن کےلئے احتجاج کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ اگر اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ اجلاس سے بائیکاٹ کرکے چلے گئے تو انہوں نے تحریک انصاف کے ساتھ کوئی ہاتھ نہیں کیا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز اگر قبول کی ہے تو یہ ان کی سودے بازی نہیں بلکہ سیاسی دانش مندی ہے کیونکہ اس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آرز پارلیمانی کمیٹی اتفاق رائے سے طے کرے ۔ پا کستا ن پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے لیے سیاست کی حد تک یہ بات درست ہے کہ وہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف جلسہ ہائے عام میں تلخ باتیں کریں اور ان سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کریں ۔ پاناما لیکس کے معاملے کو وہ سیاسی دباؤ کے لیے بھی استعمال کریں ۔ انہیں یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے کے خلاف سب سے زیادہ بلند آواز میں بات کریں اور کرپٹ لوگوں کو لٹکانے کے نعرے بھی لگائیں لیکن پاکستان میں جمہوریت کے تحت احتساب کا موثر نظام قائم کرنے کے لیے اس وقت جو موقع پیدا ہوا ہے ، اسے کسی سیاسی مہم جوئی میں ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔ جوڈیشل کمیشن کے دائرہ ہائے کار ( ٹی او آرز) وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے اثاثوں اور دولت کے ذرائع کی تحقیقات تک محدود رکھے جاتے ہیں یا پاناما لیکس میں شامل ناموں تک انہیں توسیع دی جاتی ہے ، دونوں صورتوں میں اعلیٰ سطح پر احتساب کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو جائے گا ، جسے روکنا ممکن نہیں ہو گا ۔ اس کے بعد یہ بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ دیگر سیاست دانوں کے ذرائع آمدنی اور اثاثوں کی تحقیقات کی جائیں ۔ پھر یہ بھی مطالبہ آئے گا کہ بیورو کریٹس ، تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی احتساب کے شکنجے میں لایا جائے ۔ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے احتساب کے بعد باقی لوگ بھی احتساب کے دائرے میں آنے پر مزاحمت نہیں کر سکیں گے ۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ کی یہ تجویز صائب ہے کہ وسیع تر احتساب کا ایک موثر نظام قائم کیا جائے ۔ یہ نظام پاکستان کی سلامتی اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے ۔ کرپشن نے پاکستانی معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے اور ریاست کی عمل داری ختم کر دی ہے ۔ سیاست دانوں کو کچلنے کے لیے قیام پاکستان کے بعد غیر سیاسی قوتوں نے بدنیتی پر مبنی جو احتساب کا نظام قائم کیا تھا اور جس کے تحت آج بھی قومی احتساب بیورو ( نیب ) میں مخصوص لوگوں کا تقرر کیا جاتا ہے ، وہ احتساب کا نظام غیر موثر اور ناکارہ ہو چکا ہے ۔یہ مکروہ نظام ہے، جو کرپشن کا سب سے بڑاسبب ہے کیونکہ اس نظام میں مقدس گائے پر ہاتھ ڈالنے کا تصور نہیں ہے ۔ اب اس کے برعکس کام کرنا ہو گا ۔ سیاست دانوں کا بنایا ہوا کڑے احتساب کا نظام ہی کرپشن کا خاتمہ کر سکتا ہے اور تاریخ یہ بات ثابت کر چکی ہے ۔ اس نظام کو قیام پذیر ہونے دیا جائے ۔ تنقید کرنے والے حلقے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت کو اکسائیں گے اور انہیں مہم جوئی کرنے کے لیے گمراہ کریں گے لیکن اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کو آئندہ بھی سیاسی دانش مندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور پاناما لیکس والے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کو یقینی بنا کر احتساب کا ایک مستقل اور موثر نظام بھی قائم کرنا ہو گا ۔ پاکستان کے لوگ کرپشن سے تھک گئے ہیں ۔ یہ فیصلہ کن مرحلہ ہے ۔ ’’ گنہگاروں ‘‘ کو اپنے احتساب کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ کر ’’ پارساؤں ‘‘ کے احتساب تک پہنچنا ہے ، جنہوں نے ’’ محتسب ‘‘ بن کر عالمی سامراجی قوتوں کی ضرورت کے طور پر کرپشن کو تیسری دنیا کے ملکوں میں رائج کر رکھا ہے اور جمہوریت اور قوموں کی خود مختاری کے راستے بند کر دیئے ہیں ۔ کرپشن عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لیے ضروری ہے ۔ ہمارے لوگوں کو اس کرپشن کے بارے میں بے خبر رکھا گیا ہے ، جس کے سامنے ہمارے سیاست دانوں کی کرپشن کچھ بھی نہیں ہے ۔ یہ وہ کرپشن ہے ، جو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو صرف دولت کے ارتکاز سے زندہ نہیں رکھتی ہے بلکہ اسے روزانہ کی بنیاد پر تیسری دنیا کے لوگو ں کا خون بھی پلاتی ہے ۔ اس کرپشن کے خاتمے کے لیے کام کا آغاز پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آرز پر اتفاق رائے پیدا کرنے سے ہی ہو گا ۔
تازہ ترین