مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر
بلاشبہ والدین ہی کائنات میں ایسی عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کے اولاد پر بے شمار احسانات ہیں۔ اگر کوئی شخص ساری زندگی اپنے والدین کی خدمت کرکے اُن احسانات کا بدلہ چکاناچاہے، تب بھی وہ والدین کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں جہاں اﷲ نے اپنی عبادت کا حکم دیا، تو والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے’’اور آپ کے ربّ نے حکم دیا کہ اس کی ہی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ۔‘‘ محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ نے والدین کی عظمت و اہمیت کو احادیث مبارکہ میں بیان کیا ہے۔
سرورِ دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’جو نیک اولاد اپنے والدین کو محبّت کی نگاہ سے دیکھے، تو اﷲ پاک ہر نظرِ محبّت پر اُس کے لیے ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے۔‘‘ لیکن افسوس، آج کل ہمارے معاشرے میں والدین سے بدسلوکی کے واقعات بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ اسی حوالے سے میرے ایک دوست مولوی اسماعیل نے مجھے اپنے گائوں میں ایک نافرمان بیٹے کے ہاتھوں اپنی ماں کو اذیّت پہنچانے کا دل دوز واقعہ سنایا، جو اُن ہی کی زبانی پیش کررہا ہوں۔
’’تقریباً بائیس برس قبل کا واقعہ ہے، میاں چنوں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہمارے گائوں میں ایک انتہائی شریف خاتون کے شوہر کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اُن کا ایک ہی بچّہ تھا، جس کی عُمر اُس وقت پانچ برس تھی۔ شوہر کے انتقال کے بعد خاتون بالکل تنہا رہ گئیں، اُن کے آگے پیچھے کوئی نہ تھا، غربت کے سبب رشتے داروں نے بھی کنارہ کشی کرلی۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ؎ ٹوٹ جاتا ہے غریبی میں جو رشتہ خاص ہوتا ہے۔
بہرحال، لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اُن بیوہ خاتون نے روزی روٹی کے لیے آس پاس کے گھروں میں کام کاج شروع کردیا۔ کام کاج کے دوران وہ اپنے بچّے کو اپنے ساتھ رکھتیں اور اس اُمید پر نہایت پیارو شفقت سے اس کی پرورش کرتی رہیں کہ بڑا ہو کر اُن کا سہارا بنے گا۔
وہ اُسے بڑا اور کام یاب افسر بنانا چاہتی تھیں۔ اس کی شادی کے بھی سپنے دیکھتیں۔ اسی طرح ماہ و سال بیتتے رہے، جب خاتون کا بیٹا جوان ہوا ،تو وہ بھی محنت مزدوری کرکے ماں کا ہاتھ بٹانے لگا،لیکن بوڑھی ماں نے ضعیفی کے باوجود محنت مشقّت سے منہ نہیں موڑا، روز بیٹے کو کھانا کھلا کر کام پر بھیجتیں اور پھر خود کام پر روانہ ہوجاتیں۔ سن رسیدگی کی وجہ سے کافی کم زور بھی ہوگئی تھیں۔ ایک روز کام سے گھر آئیں، تو کافی تھک چُکی تھیں۔
بیٹا کام پر گیا ہوا تھا، تو سوچا کہ بیٹے کے آنے تک تھوڑا آرام کرلوں، پھر اُٹھ کر روٹی پکادوں گی، یہ سوچ کر وہ لیٹیں تو گہری نیند آگئی۔ کچھ دیر بعد بیٹا کام دھندے سے لوٹا اور آکر ماں کو آواز دے کر روٹی مانگی، تو ماں نے بڑے پیار سے کہا ’’بیٹے! میرے طبیعت خراب ہوگئی تھی، تھوڑی دیر کے لیے لیٹی تو آنکھ لگ گئی، مَیں ابھی پکادیتی ہوں، سالن پہلے ہی تیار ہے، ابھی روٹی پک جائے گی، تو ہم دونوں اکٹھے کھالیں گے۔‘‘
ممتا کی ماری ماں نے ابھی یہ الفاظ منہ سے ادا ہی کیے تھے کہ اس بدبخت کو نہ جانے کیوں اتنا غصّہ آگیا کہ اس نے پائوں سے جوتا اتار کر آناً فاناً اپنی ماں کے منہ پر دے مارا اور انتہائی رعونت سے بولا ’’تم سے روٹی بھی نہیں پک سکتی۔‘‘ اس کی سفّاکیت پر اس کی ماں ہکّا بکّا، حیرت اور صدمے سے گنگ ہوگئی۔ کچھ حواس بحال ہوئے تو اپنے ربّ سے رو رو کرفریاد کرنے لگیں کہ ’’اے اللہ! مجھ ضعیفہ، دکھیاری ماں کو اُس کے بیٹے سے جوتیاں کھانے کو باقی رکھا، جسے میں نے خونِ جگر دے کر پالا۔
اے کاش! مَیں مر گئی ہوتی، اب مجھے اٹھالے کہ اس بیٹے کے ہاتھوں مزید ذلیل و رسوا ہونے سے بچ جائوں۔‘‘ بیمار و ناتواں ماں اپنے ربّ کے حضور گریہ کناں تھی، دوسری طرف نافرمان بیٹا نتھنے چڑھائےبے حسی اور نخوت سے ایک طرف بیٹھ کر ماں کو تک رہا تھا، جیسے ماں کے منہ پر جوتا مارنا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔
مگر شاید ماں کی آہ و بکا آسمان کو چیرتی بارگاہِ الٰہی تک جا پہنچی کہ اس واقعے کے چند روز بعد ہی اس کی دکھیاری ماں غم و صدمے سے چل بسی۔ ماں کی انتہائی بے ادبی و تذلیل پر اس ناخلف و نا ہنجار پر اللہ کی پکڑ یوں آئی کہ ماں کی موت کے کچھ دنوں بعد اس کے گھٹنے پر بغیر کسی ظاہری سبب یا چوٹ کے ایک زہریلا زخم نمودار ہوگیا اور تیزی سے بڑھتا پوری ٹانگ تک پھیل گیا۔ وہ جوں جوں اس کا علاج کرواتا، زخم بڑھتا ہی جاتا، حتیٰ کہ پوری ٹانگ میں زہر پھیل گیا، ٹانگ کا گوشت گلنے سڑنے لگا اور اُس سے شدید بدبو آنے لگی۔
ماں زندہ تھی، تو ہر طرح اس کا خیال رکھتی تھی، لیکن اس کے جانے کے بعد وہ بالکل تنہا رہ گیا تھا، پورا دن کمرے میں تنہا بیٹھا اپنی اس حالت پرروتا اور ماں کو یاد کرتا رہتا۔ خالی گھر اسے کاٹ کھانے کو آتا، تو خود کو گھسیٹتا ہوا بڑی مشکلوں سے دروازے سے باہر جا بیٹھتا۔ بدبو کے بھبکوں سے لوگ ناک پر ہاتھ رکھ کر گزرجاتے۔ اس کی حیثیت دھوبی کے کتّے سے بھی بدتر ہوگئی تھی کہ لوگ ترس کھا کر اس کے آگے روٹی، پانی رکھ کر چلے جاتے۔جو بھی اس کے قریب سے گزرتا، اُس کی طرف وحشت زدہ انداز سے دیکھ کر یہی کہتا کہ ’’ہائے، مجھے موت آجائے، یہ میری ماں کی بددُعا کا نتیجہ ہے، ماں کی بددعا سےبچو، دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو۔‘‘
بے شک، زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے کہ ’’دو گناہوں کی سزا دنیا میں مل جاتی ہے۔ایک ظلم اور دوسرا والدین کی نافرمانی۔‘‘ اللہ تعالیٰ سب کو ان گناہوں سے محفوظ رکھے اور والدین کی قدر وقیمت جاننے، اُن کے ساتھ حُسنِ سلو ک کی توفیق دے۔ (آمین) (جمیل احمد اعوان، لاہور)