• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مری میں ہونے والا سانحہ حکومت کی کئی سطحوں پر بیک وقت ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔ انتظامیہ نہ صرف نمک اور برف صاف کرنے کا سامان صحیح جگہوں پر رکھنے میں ناکام رہی، بلکہ ٹریفک کے بہاؤ کو منظم کرنے یا زیادہ گاڑیوں کو مری میں داخل ہونے سے روکنے میں بھی ناکام رہی یا لوگوں کو ان کی گاڑیوں سے نکال کر قریبی گھروں، ہوٹلوں اور فوجی تنصیبات میں جانے کا حکم دینے میں بھی ناکام رہی۔ 

لیکن متوقع طور پر اور ہمیشہ کی طرح اس حکومت اور وزیر اعظم نے متاثرین پر انتہائی سنگدل اور ناروا انداز میں الزام لگایا۔ یہ پی ٹی آئی کا انداز ہے۔ 

بڑی بڑی باتیں کرنا، ڈیلیور کرنے میں ناکام رہنااور پھر دوسروں پر الزام لگانا۔مری پہلا سانحہ نہیں لیکن امید کرتے ہیں کہ یہ آخری ہو۔ اکتوبر 2019 میں ریلوے میں آگ لگنے کا حادثہ ہوا تھا جس میں 74 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

شیخ رشید نے گیس سلنڈر لے جانے کی وجہ سے جان کی بازی ہارنے والے مسافروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہی آگ لگنے کی وجہ بنے۔ انکوائری رپورٹ میں ثابت ہوا کہ یہ شارٹ سرکٹ تھا جس کی وجہ سے ایسا ہوا۔ 

شیخ رشید کے دور میں ریلوے کی تاریخ میں سب سے زیادہ حادثات ہوئے جن میں جان لیوا حادثات بھی شامل ہیں۔ 

لیکن وہ وزارت میں اس وقت تک برقرار رہے جب تک کہ انہیں وزارت داخلہ میں ترقی نہیں دی گئی۔ یہ ان خطبات کے بالکل برعکس ہے جو اس وقت کے اپوزیشن لیڈر، اور اب وزیراعظم، وزراء کے ذمہ داری لینے کے بارے میں دیتے تھے۔

جب پی ٹی آئی حکومت میں آئی تو پاکستان گندم اور چینی برآمد کر رہا تھا۔ آج یہ دونوں چیزیں درآمد کر رہا ہے۔ 

پی ٹی آئی کی حکومت 48 روپے فی کلو کے حساب سے چینی برآمد کرنے اور چند ماہ بعد اس سے دگنی قیمت پر دوبارہ درآمد کرنے کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ گزشتہ سال حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہم نے 27 ملین ٹن گندم پیدا کی جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہے۔

اس کے باوجود قیمتیں بڑھتی رہیں اور ہمارے وزیر برائے فوڈ سیکورٹی نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ گندم کہاں گئی۔ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے پولٹری انڈسٹری کو گندم استعمال کرنے کی خصوصی اجازت دی تھی اور اسے افغانستان اور وسطی ایشیا میں بھی اسمگل کیا جاتا تھا۔

اٹک میں ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کا عہدہ پنجاب میں سب سے مہنگا ہے۔ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے سال پاکستان میں کپاس کی تقریباً 11 ملین گانٹھوں کی پیداوار ہوئی۔ 

پچھلے سال اس نے تقریباً 5.5 ارب گانٹھیں پیدا کیں جو 1983-84کے بعد سب سے کم ہیں۔اس سیزن میں ہماری زرعی پیداوار کیسی ہو گی اس کا اندازہ یوریا کی خرید، قلت اور بلیک مارکیٹنگ کے لیے لمبی قطاروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ چند ماہ قبل فرٹیلائزر انڈسٹری یوریا برآمد کرنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔ 

تاہم حکومت نے انہیں گیس کی سپلائی کم کر دی اور ایران اور افغانستان کو سبسڈی والے یوریا کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کو روکنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔ اب اسی یوریا کو اسمگل کی گئی قیمت سے تین گنا قیمت پر درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ یہ حکومت ہے یا پتلی کا تماشا؟۔ 

خان، بزدار کی جانب سے پنجاب کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد سے محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کے تیرہ اور محکمہ اسکول ایجوکیشن کے آٹھ سیکرٹری تبدیل ہوچکے ہیں۔ 

تین سال میں خان بزدار انتظامیہ نے چونا پتھر کی کان کنی اور سیمنٹ پلانٹس کے 16لائسنس جاری کیے ہیں۔ قیاس آرائیاں ہیں کہ لائسنس دے کر چند مخصوص افراد کو نوازا گیا ہے۔ لیکن کوئی بھی ماہر نہیں سمجھتا کہ تین سے زیادہ لائسنس جاری کرنا ماحولیات کے لحاظ سے دانشمندی ہے۔

ہماری معیشت کی صحت کو ناپنے کے لیے بہت سے اعداد و شمار موجود ہیں۔ جی ڈی پی کی نمو ، مہنگائی ،بے روزگاری، غربت ، بجٹ خسارے ، قرضے ،ٹیکس وصولی ،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جو کہ تجارتی خسارہ مائنس ترسیلات زر ہے ،غیر ملکی ذخائر اور شرح مبادلہ میں شرح سودوغیرہ۔ 

تقریباً ان تمام شعبوں میں پی ٹی آئی نے پی ایم ایل این سے بہت بری کارکردگی دکھائی ہے۔ ایک شعبہ جو اس نے بہتر کیا وہ تجارت اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کنٹرول کرنا تھا۔ اس طرح یہ واحد اعدادوشمار ہیں جن کو پی ٹی آئی کے وزراء نے کوئی وزن دیا۔ 

ان کے لیے سکڑتی ہوئی جی ڈی پی یا بڑھتی ہوئی مہنگائی ، غربت یا بے روزگاری نہیں، صرف اہم شعبے کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارے تھے۔ اب رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں تجارتی خسارہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے تجارتی خسارے سے 44 فیصد زیادہ ہے۔

جب اسٹیٹ بینک پہلے چھ ماہ کے لیے سی اے ڈی شائع کرے گا، تو یہ تعداد بھی ہمارے گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے زیادہ ہوگی۔ لہٰذا اب پی ٹی آئی نے جس کارنامے کا ذکر کیا تھا وہ بھی اپنی نااہلی کے سمندر میں غائب ہو گیا ہے۔ بیانیہ اور صرف بیانیہ ہی پر یہ حکومت یقین رکھتی ہے۔

مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا کرتے ہوئے حکومت نے ایک بیانیہ تیار کرنے کا فیصلہ کیا کہ پاکستان میں مہنگائی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی ’’گردشی قرض ختم کرنے‘‘ کے لیے بجلی کے نرخ بڑھا رہی ہے۔ اس کے باوجود بجلی کے نرخوں میں دوگنا اضافے کے ساتھ گردشی قرض بھی دوگنا ہو گیا ہے۔ 

پی ٹی آئی اب کہتی ہے کہ نرخ بڑھ رہے ہیں کیونکہ اسے مقررہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی نے واقعی کوئی مقررہ لاگت ادا نہیں کی ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ اس نے گنجائش چارجز کے لیے ادا کی گئی رقم سے زیادہ گردشی قرضہ بڑھا دیا ہے۔ تو پھر یہ ٹیرف کیوں بڑھا رہی ہے؟ 

کیونکہ اس نے پاور سیکٹر (ٹی اینڈ ڈی نقصانات اور وصولی) کے انتظام کو بدتر بنا دیا ہے، میرٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے اور بجلی پیدا کرنے کے لیے مہنگا فرنس آئل استعمال کیا ہے۔ یہ حکومت تین سال سے پرائیویٹ سیکٹر میں ایل این جی ٹرمینل لگانے کا وعدہ کر رہی ہے۔ 

اب اس نے ایک اور یو ٹرن لیا ہے اور وزارت توانائی کی تین کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ وزارت سمندری امور کی ہدایت پر ٹرمینل قائم کریں۔وزارتوں کا یہ ملاپ یقیناً نااہلی اور کرپشن کابندھن ہے۔ 

حکومت نے سستی گیس کی تلاش میں ایل این جی کو 4 ڈالر میں دینے سے انکار کر دیا اور اسے 30 ڈالر میں خرید لیا۔

(صاحبِ مضمون سابق وزیر خزانہ، محصولات اور اقتصادی امور ہیں)

تازہ ترین