• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں سیاست کے حوالےسے شائع ہونے والی سچی اور جھوٹی خبروں نے ان معصوموں کو پریشان کردیا ہے، جو سیاست سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتے!خود مجھے بھی سیاست سے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی ایک پاکستانی کو ہونی چاہیے۔ اس کی ’’اوور ڈوز‘‘ سے میں اللّٰہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ اس کا نتیجہ عموماً غیر سیاسی ڈائریا کی صورت میں نکلتا ہے۔ چنانچہ میں نے سوچا کیوں نا آج ان ادیبوں کی جگتیں آپ کو سنائوں جو اپنی کتابوں میں بہت سنجیدہ ہوتے ہیں۔

اس حوالے سے پہلے نمبر پر منیر نیازی کا نام آتا ہے۔ منیر ایک منفرد اور شاندار شاعر ہی نہیں، اے کلاس جملے بازبھی تھے، ان کے جملے بھی انتہائی تخلیقی نوعیت کے ہوتے تھے۔ ایک جونیئر نے ان سے پوچھا ’’آپ کے نزدیک شاعری میں میرا کیا مقام ہے؟‘‘ منیر نے کہا ’’بچے، تم ابھی مقام کی پہلی ’’م‘‘ تک بھی نہیں پہنچے‘‘۔ منیر ایک گرلز کالج کے مشاعرے میں گئے تو فرسٹ ایئر کی ایک بچی نے اپنی بے خبری کی وجہ سے منیر صاحب سے پوچھا ’’سر کیا آپ بھی شاعر ہیں؟‘‘منیر نے کہا ’’نہیں میں قتیل شفائی ہوں‘‘ ایک روز ظہیر کاشمیری نے منیر کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا ’’منیر یار میرا جی چاہتا ہے کہ شام کے سائے ڈھل رہے ہوں، دریا کا کنارہ ہو، مغنیہ گیت گا رہی ہو........‘‘ منیر نے ظہیرکو یہیں ٹوک کر کہا ’’یہ سب کچھ ہو مگر ظہیر تم وہاں نہ ہو‘‘منیر نے ایک بڑبولی شاعرہ کے بارے میں یہ ’’بیان‘‘ دیا کہ اس کی مثال ایک اسکوٹر کی سی ہے جس میں ٹرک کا ہارن فٹ کیا گیا ہو‘‘۔

خود منیر پر بھی ان کے دوستوں نے بہت چست جملے کسے۔ فیصل آباد کے ایک مشاعرہ میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے منیر نے کہا ’’ایک دن میرے گھر کے صحن سے سانپ نکل آیا، یہ عورتیں بہت بہادر ہوتی ہیں، میری بیوی نے ڈنڈا اٹھایا اور اسے مار دیا‘‘ پاس بیٹھے ریاض مجید بولے’’اس نے سوچا ایک گھر میں ایک ہی کافی ہے‘‘ اس طرح بذریعہ کار جھنگ کے ایک مشاعرےمیں شرکت کے لئے جاتے ہوئے منیر نیازی جگہ جگہ کار رکواتے ہوئے کسی کھیت یا ویران مقام کی طرف منہ کرکے اس جگہ کی ’’سیرابی‘‘ کرتے۔ انتہائی سنجیدہ شخصیت کے حامل شریف کنجاہی منیر کے ہمسفر تھےایک مقام پر پہنچ کر منیر نے شریف کنجاہی سے پوچھا ’’جھنگ مزید کتنی دور ہے؟‘‘ شریف صاحب نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا ’’بس دو پیشاب اور‘‘ ۔ احسان دانش بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ ایک مشاعرے میں اسٹیج پر بیٹھے ’’صحت مند‘‘ طفیل ہوشیار پوری حسب معمول سو گئے اورخراٹے بھی لینے لگے۔ احسان دانش نے ان کے کھلے منہ اور خراٹوں کے حوالے سے مجھ سے پوچھا ’’طفیل کو دیکھ رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’جی‘‘پوچھا ’’کیسا لگ رہا ہے؟‘‘ پھر خود ہی بولے ’’ایسے نہیں لگتا جیسے کسی گوریلے کو گولی لگی ہو؟‘‘ میری ہنسی نکل گئی جس پر سامعین مجھے غصہ سے دیکھنے لگے۔ایک دفعہ احسان صاحب نے اپنے ہی حوالے سے ہوئی ایک دلچسپ حرکت کے بارے میں بتایا کہ انہیں جب مشاعروں کے دعوت نامے ملتے تھے تو جہاں نہ جانا ہوتا ، وہاں کسی دوسرے شہر کا بتاتے کہ اس روز تو میں وہاں ہوں گا۔ اختر شیرانی کے صاحبزادے (نام یاد نہیں آ رہا) ایک بار ان کے پاس ایک مشاعرے میں شرکت کی درخواست لے کر آئے تو احسان صاحب نے کہا ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اختر شیرانی کے بیٹے کو انکار کروں،ضرور آئوں گا، کس تاریخ کو ہے مشاعرہ؟‘‘اس نے جواب دیا ’’گیارہ اپریل کو‘‘ یہ سن کر احسان صاحب بولے ’’او ہو، یہ تو گڑ بڑ ہوگئی، میں تو اس روز شیخوپورہ میں ہوں گا‘‘۔ اختر شیرانی کے صاحبزادے نے کہا ’’احسان صاحب مشاعرہ بھی شیخوپورہ ہی میں ہے‘‘۔

مشاعروں کے ایک ناظم کسی بھی شاعر کو کلام کے لئے بلاتے تو تقریباً ایک جیسی تعریف و توصیف سے ابتدا کرتے۔ ایک مشاعرے میں انہوں نے کسی شاعر کو دعوت کلام دیتے ہوئے اپنے روایتی انداز میں تعریف و توصیف کے قلابے ملانا شروع کئے تو شاعر کا نام پکارے جانے سے قبل ظہور نظر اپنی نشست سے ان کے مائیک کی طرف جانے لگے تو ناظم مشاعرہ نے کہا ’’نہیں نہیں حضور میرا اشارہ آپ کی طرف نہیں ہے‘‘۔ اس پر ظہور نظر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’گزشتہ مشاعرے میں یہ تعارف آپ نے میرے حوالے سے کرایا تھا‘‘۔ ایک کتاب کی رونمائی میں اظہار خیال کے لئے سلیم احمد کی باری آئی تو وہ مائیک کی طرف جاتے ہوئے بڑ بڑانےلگے، انکے قریبی شخص نے بتایا وہ کہہ رہے تھے ’’اللّٰہ معاف کرے، آج پھر جھوٹ بولنا پڑے گا‘‘۔ بریڈ فورڈ کے ایک مشاعرے میں ایک بہت عمدہ شاعر اور بہت اعلیٰ ترنم والے ایک شاعر بھی مدعو تھے، وہ اسٹیج پر آئے اور مشاعرہ لوٹ لیا۔ مشاعرہ کے بعد سامعین ان کے گرد جمع ہوکر تعریف و توصیف کر رہے تھے، اتنے میں ایک بہت مالدار سامع نے شاعر کو مخاطب کیا اور کہا ’’وا ہ واہ جناب اللّٰہ نے آپ کو لحنِ دائودی سے نوازا ہے۔آپ خدا کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے۔ جناب اللّٰہ نے آپ کو اتنی خوبصورت آواز عطا کی ہے، آپ ہیر کیوں نہیں گاتے؟‘‘ یہ سن کر میری اور امجد اسلام امجد کی ہنسی نکل گئی مگر متذکرہ شاعر شدید غصے میں آگئے اور ان صاحب سے مخاطب ہو کر کہا ’’آپ بدتمیز ہیں، آپ بکواس کر رہے ہیں‘‘۔ وہ صاحب جنہوں نے اپنی طرف سے جینوئن تعریف کی تھی، ہوشیار ہوگئے ، بولے حضور میں تو صرف یہ عرض کررہا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو لحن ِ دائودی عطا کیا ہے تو آخر ہیر کیوں نہیں گاتے‘‘ اس پر شاعر دوست کے منہ سے بوجہ غصہ جھاگ نکلنے لگی، میں نے ان کے ’’مداح‘‘ کا ہاتھ پکڑا اور پرے لے جا کر کہا ’’آپ کو نہیں پتہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، اب اگر آپ نے کچھ کہا تو حضرت آپ کو ماریں گے‘‘۔ اس مداح کو تادیر تحریر پتہ نہیں چلا کہ آخر اس نے کیا غلط بات کہی تھی!

تازہ ترین