• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کووِڈ۔19کا پہلا کیس رپورٹ ہونے کے دو سال بعد بھی دنیا کے اکثر ممالک اس کے اومیکرون ویرئنٹ کے پھیلنے کی وجہ سے ریکارڈ انفیکشن رپورٹ کررہے ہیں، لیکن دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں سے درپیش طویل مدتی خطرات کے مقابلے میں وَبائی بیماری کم خطرہ معلوم ہوتی ہے۔

یہ نتائج ورلڈ اکنامک فورم کی نئے سال میں دنیا کو درپیش خطرات کی رپورٹ (گلوبل رِسکس رپورٹ 2022) میں ایک ہزار ماہرین کی آراء کی روشنی میں اکٹھے کیے گئے ہیں۔

سالانہ گلوبل رِسکس پرسیپشن سروے (GRPS) میں موسمیاتی تنزلی کے خلاف کارروائی میں ناکامی، موسم کے انتہائی واقعات، حیاتیاتی تنوع میں کمی اور ماحولیاتی نظام کی تباہی کو اگلے 10 برسوں میں شدت کے لحاظ سے سرفہرست 10 عالمی خطرات میں اولین تین درجوں پر رکھا گیا ہے۔

سرفہرست 10 خطرات میں سے ایک تہائی خطرات سماجی مسائل سے متعلق ہیں، جب کہ سماجی ہم آہنگی کا خاتمہ اور بسراوقات کا بحران، اولین پانچ خطرات کو مکمل کرتے ہیں۔ متعدی بیماریاں، اس کے بعد نیچے چھٹے نمبر پر آتی ہیں۔

موسمیاتی خطرات کے خلاف کارروائی میں ناکامی کو درمیانی مدت (2-5 سال) اور طویل مدت (5-10 سال)، دونوں میں دنیا کے لیے سب سے اہم خطرہ قرار دیا گیا ہے، جس سے معاشروں، معیشتوں اور کرۂ ارض کو سب سے زیادہ اور شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

سروے کے زیادہ تر جواب دہندگان کا خیال ہے کہ بہت کم کام کیا جا رہا ہے77فی صد ٪ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کو کم کرنے کی بین الاقوامی کوششیں ابھی "شروع نہیں ہوئیں" یا "ابتدائی مراحل" میں ہیں۔

رِسک آؤٹ لک اور عالمی اختلافات 

درحقیقت، سروے میں شامل ماہرین اور سربراہان، دنیا کے نقطہ نظر کے بارے میں پوری طرح پُرامید نہیں تھے، GRPS کے 16فی صد سے بھی کم جواب دہندگان '’پرامید‘ یا ’مثبت‘ تھے، جب کہ اکثریت (84.2فی صد) ’متفکر‘ یا ’پریشان‘ تھی۔ '

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 تک ترقی پذیر معیشتیں (چین کے علاوہ) اپنی وبائی مرض سے پہلے کی متوقع جی ڈی پی نمو سے 5.5 فیصد کم ہو جائیں گی، جب کہ ترقی یافتہ معیشتیں اسے 0.9 فیصد سے پیچھے چھوڑ چکی ہوں گی۔

عالمی معیشتوں میں نمو کا اتنا بڑا فرق دنیا کے مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت پر اثر ڈالے گا جس میں موسمیاتی تبدیلی، ڈیجیٹل سیکیورٹی کو بڑھانا، معاشی اور سماجی ہم آہنگی کو بحال کرنا، اور خلاء میں مسابقت کو منظم انداز میں آگے لے کر چلنا شامل ہے۔

’’ملکوں کے اندر اور ان کے درمیان فرق بڑھنے سے نا صرف کووِڈ۔19اور اس کی مختلف شکلوں پر قابو پانا مزید مشکل ہو جائے گا، بلکہ مشترکہ خطرات کے خلاف مشترکہ کارروائی رُک جانے کا بھی خطرہ ہو گا جسے دنیا نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی‘‘، ایسا کہنا ہے فورم کی منیجنگ ڈائریکٹر سعدیہ زاہدی کا۔

قلیل، وسط اور طویل مدتی خطرات 

جیسے جیسے وبائی مرض کے مکمل مضمرات واضح ہوتے جائیں گے، آنے والے برسوں میں خطرات کا بھی اُفق بدلتا جائے گا۔ آئندہ دو برسوں میں، ماہرین اور سربراہان، سماجی ہم آہنگی کے خاتمے، دماغی صحت کے بگاڑ، متعدی امراض اور معاش کے بحران کو ماحولیات کے ساتھ مساوی خطرات کے طور پر دیکھتے ہیں، اور یہ خطرات مختصر سے طویل مدت تک مستقل ہیں۔

آئندہ پانچ برسوں میں، قرضوں کے بحران اور جیو اکنامک تصادم کے معاشی خطرات اُبھرسکتے ہیں کیونکہ حکومتیں مالیاتی ترجیحات میں توازن پیدا کرنے کی جدوجہد کریں گی، تاہم طویل مدت کے ٹاپ فائیو خطرات میں ماحولیاتی تبدیلی کا خطرہ غالب رہے گا۔

وبائی مرض کے نتیجے میں پیدا ہونے والا سب سے سنگین چیلنج ’معاشی جمود‘ ہے۔ میکرو اکنامک توقعات بدستور کمزور ہیں، اور کووِڈ ۔19 وبائی مرض کے باعث 2024تک عالمی معیشت 2.3 فیصد کم ہونے کی توقع ہے۔اجناس کی قیمتیں، مہنگائی اور قرض، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر، دونوں ممالک میں بڑھ رہے ہیں۔ وبائی بیماری اور اس کے معاشی نتائج وائرس پر قابو پانے اور ممالکی کی پائیدار بحالی کی صلاحیت کو محدود کررہے ہیں۔

حکومتوں، کاروباروں اور معاشروں کو ’نیٹ۔زیرو‘ معیشتوں میںمنتقل ہونے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ ایک جارحانہ اور تیز رفتار منتقلی طویل مدتی ماحولیاتی نتائج کو کم کر دے گی لیکن اس کے قلیل مدتی اثرات شدید ہو سکتے ہیں، جیسے بڑے پیمانے پر کاربن خارج کرنے والی صنعتی سے لاکھوں کارکنوں کو ملازمتوں سے باہر کرنا یا سماجی اور جغرافیائی سیاسی تناؤ کو متحرک کرنا۔ 

اس کے برعکس، ایک سست لیکن زیادہ منظم منتقلی ماحولیاتی انحطاط، ساختی کمزوریوں اور عالمی عدم مساوات کو طول دے گی۔ مختلف ممالک اور شعبہ جات میں متنوع ترجیحات، دونوں منظرناموں میں باہمی اور کثیرالجہتی تعاون کو بڑھانے میں مزید رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں۔

معاشی مشکلات کی شکل میں بڑھتا ہوا عدم تحفظ، موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات اور سیاسی بنیادوں پر ظلم و ستم اور تفریق، لاکھوں لوگوں کو بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دے گا۔ وَبائی مرض کے دیرپا اثرات، معاشی تحفظ پسندی میں اضافہ اور لیبر مارکیٹ کی نئی حرکیات کے نتیجے میں، کئی ممالک میں ان تارکین وطن کے داخلے میں زیادہ رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں جو موقع یا پناہ کی تلاش میں ہوسکتے ہیں۔ منظم ہجرت کے مواقع میں کمی اوراس کے ترسیلات زر پر اثر کے نتیجے میں معاش کی بحالی، سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے، اور آمدنی اور مزدوری کے فرق کو ختم کرنے کی کوششیں متاثر ہوسکتی ہیں۔

ڈیجیٹل سسٹمز پر بڑھتے ہوئے انحصار، جسے کووِڈ۔19 نے مزید تیز کردیا ہے، نے معاشروں کو بنیادی طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ساتھ ہی، سائبر سیکیورٹی کے خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کو مؤثر طریقے سے روکنے یا ان کا جواب دینے کی معاشروں کی صلاحیت اس رفتار سے نہیں بڑھ رہی۔ اہم انفراسٹرکچرپر حملے، غلط معلومات کا پھیلاؤ، دھوکہ دہی اور ڈیجیٹل سیفٹی، ڈیجیٹل سسٹمز پر عوام کے اعتماد کو متاثر کریں گے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے اس کی لاگت بڑھ جائے گی۔ 

جیسے جیسے حملے زیادہ شدید اور وسیع پیمانے پر اثر انداز ہوتے جائیں گے، سائبر کرائم سے متاثر ہونے والی حکومتوں اور ان جرائم کے خلاف مؤثر ردِعمل نہ دِکھانے والی حکومتوں کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ اور بھی بڑھ جائے گا کیونکہ سائبر سیکیورٹی قومی ریاستوں کے درمیان تعاون کے بجائے انحراف کی ایک اور وجہ بن جائے گی۔

ہرچندکہ انسان کئی دہائیوں سے بیرونی خلا کی تلاش میں کوشاں ہے، اس سلسلے میں حالیہ برسوں کے دوران نجی اور سرکاری سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، دونوں سطح پر تلاش کے نئے مواقع پیدا کیے جارہے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے اور ساتھ ہی اس بات کا بھی عندیہ دے رہے ہیں کہ بیرونی خلاء انسان کے لیے کچھ خطرات بھی رکھتی ہے۔ 

بڑھتی ہوئی خلائی سرگرمی کا سب سے فوری نتیجہ زمین کے قریب کے بنیادی ڈھانچے اور خلائی اشیاء کے درمیان تصادم کے زیادہ خطرے(جو ان مداروں کو متاثر کر سکتا ہے جن پر کلیدی نظام انحصار کرتے ہیں)، قیمتی خلائی آلات کو نقصان پہنچانے، یا بین الاقوامی تناؤ کو جنم دینے کی صورت میں سامنے آسکتا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خلاء کے میدان میں مختلف ممالک کے درمیان ابھی حکمرانی کے اصول اور ڈھانچہ ابھی تک اس قدر واضح اورطے نہیں کیا جا سکا، جہاں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں فوری حل کے ٹھوس اصول موجود ہوں۔ 

خلا میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی سے جغرافیائی سیاسی تناؤ میں بھی اضافے کا خطرہ ہے، خاص طور پر جب خلاء میں کام کرنے والی بڑی طاقتیں، اس سلسلے میں متفقہ لائحہ عمل اور قوانین بنانے میں ناکام ہوجائیں۔