• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگائی اور بےروزگاری بلاشبہ اِس وقت پاکستان کے دو سب سے بڑے مسائل ہیں۔ عام آدمی تو کیا نچلی اور متوسط سطح کے تنخواہ دار طبقے کی آمدنی بھی اتنی کم ہے کہ روزمرہ استعمال کی بنیادی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے مقابلے میں اِس کی قوتِ خرید روز بروز گھٹتی جارہی ہے۔ اوپر سے بےروزگاری کے عفریت نے ان پڑھ تو کیا، پڑھے لکھے نوجوانوں کا گلہ بھی دبوچ رکھا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا سیاسی بیانیہ تو یہی ہے کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے مگر اس حقیقت کو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مہنگائی لوگوں کی برداشت سے باہر ہورہی ہے اور آبادی میں اضافے کے ساتھ بےروزگار ی بھی کنٹرول سے باہر ہے۔ ہری پور میں اسپیشل ٹیکنالوجی زون کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب اور پشاور میں خیبرپختونخوا کے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی سے گفتگو کے دوران اس صورتحال کا تجزیہ انہوں نے ان الفاظ میں کیا کہ ایک طرف ملک کو پیشہ وارانہ مہارت کے حامل ہنرمند افراد کی ضرورت ہے تو دوسری طرف نوجوان لڑکے لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد ڈگریاں ہونے کے باوجود بےروزگار ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ تعلیمی اداروں میں نوجوان جو کچھ پڑھ کر آتے ہیں وہ مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں۔ اس کا حل انہوں نے یہ بتایا کہ ’’بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع مہیا کرنا ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے اور تعلیم، ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سیکٹر پر توجہ دے کر اس چیلنج پر قابو پایا جاسکتا ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی درست کہا کہ ماضی میں تعلیم کو ناگزیر ملکی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ہمیں تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی جس کے لیے یقیناً وسائل کی ضرورت ہے۔ جیسے جیسے محصولات میں اضافہ ہوگا اور ریونیو بڑھے گا تعلیم ہی نہیں صحت کے شعبے کے لیے بھی مزید فنڈز مہیا کئے جائیں گے۔ وزیراعظم نے ٹیکنیکل تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے خاص طور پر آئی ٹی سیکٹر پر توجہ دینے کی جو بات کی ہے وہ وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ٹیکنالوجی کے محاذ پر جو نت نئی تحقیق، تخلیقات اور ایجادات سامنے آرہی ہیں اس کے پیش نظر یہ پیشگوئی مشکل نہیں کہ روزگار کے حوالے سے مستقبل سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کا ہے۔ اس ضمن میں آئی ٹی سیکٹر کی اہمیت سب سے زیادہ ہے لیکن غریب آدمی یہاں بھی مار کھا رہا ہے۔ اس کے پاس ٹیکنالوجی سیکھنے اور اس کے لیے ضروری آلات اور مشینری حاصل کرنے کے لئے پیسہ نہیں لہٰذا اس کی مدد کے لیے حکومت کو خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ ذہین اور باصلاحیت لڑکے لڑکیاں مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق ایسی فنی تعلیم حاصل کر سکیں جو ان کے لئے حصول روزگار کا ذریعہ بنے۔ وزیراعظم نے مہنگائی کا بھی خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھی ہے لیکن حکومت عام آدمی کو اس کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات کررہی ہے۔ تاہم مشاہدہے کی بات یہ ہے کہ حکومت ایک طرف یقیناً نچلے طبقے پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کے لیے بعض سہولتیں دے رہی ہے لیکن آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول کے لیے ان کی ایسی شرائط پر عمل کررہی ہے جن کے نتیجے میں مہنگائی کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ عام آدمی کو اس سے غرض نہیں کہ معاشی ترقی کی شرح کتنے فیصد ہوگئی۔ وہ بازار میں جب کچھ خریدنے کے لیے جاتا ہے اور اس سے پہلے سے زیادہ دام مانگے جاتے ہیں تو اس کی ہمت وہیں جواب دے جاتی ہے۔ اس لیے حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن کے اچھے نتائج زمین پر نظر بھی آئیں۔ مہنگائی اور بےروزگاری پر ایسے اقدامات سے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین