• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سنا ہے دو ماہ سے پرویز رشید اطلاعات کے وزیر ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ وہی پرویز رشید ہیں جنہوں نے گزشتہ سال 8مارچ کو الحمرا کلچرل کمپلیکس کی وسیع چھت پر ہزاروں لڑکیاں مدعو کی تھیں۔ اس دن کو شایان شان طریقے سے منانے کیلئے شاعری، موسیقی اور اہم تقاریر کے ذریعے شہباز شریف نے بھی یہ یقین دلایا کہ خواتین کے سارے دکھوں کا مداوا بس آج سے حتمی طور پر شروع ہو جائے گا۔ مجھے اندازہ ہے کہ 1997ء میں یہ ٹی وی کے چیئرمین بھی رہے ہیں جو 14/اگست اور 23/مارچ کو خوبصورت پروگرام پیش کرنے کیلئے ہم جیسے موجود لوگوں سے مشورہ بھی کرتے تھے۔ آپ پوچھیں گے کہ میں یہ ”تھے تھے“ کی تکرار کیوں کر رہی ہوں؟ سنا ہے تمام ثقافتی ادارے بھی پرویز رشید کے ماتحت آتے ہیں اور میں دیکھ رہی ہوں کہ تمام ثقافتی ادارے یا تو اجڑے پڑے ہیں یا پھر وہاں تعینات کرنے کیلئے ایسے لوگوں کے نام لئے جا رہے ہیں جنہوں نے کبھی ثقافتی سرگرمیاں نہ دیکھی نہ سنی نہ ہی جانتے ہیں کہ بڑے غلام علی خان کون تھے، زندہ ہیں کہ مر گئے؟ ادب کی دہلیز پہ کس کس نے جبہ سائی کی اور زندہ جاوید ہوئے؟ میں پٹیالہ میں جس پروفیسر کے ساتھ بیٹھی تھی تعارف پہ معلوم ہوا کہ وہ فوک لور شعبے کے سربراہ ہیں۔ پوچھا ”بھارت میں کتنی پنجابی فوک لور ہیں؟“کہا ”وہ سب تو پاکستان ہی میں ہیں۔ میں لوک ورثہ میں یہ سب حاصل کرنے کے لئے گیا تھا، وہاں دیکھا تو بے شمار کیسٹس کو تو فنگس لگی ہوئی تھی یا بہت سی ضائع ہو گئی تھیں“۔ میں شرمندہ ہو کر خاموش ہو گئی۔ میں نے پھر ان سے کوئی بات نہ کی۔ اب میری ملاقات فن آرٹس کے سربراہ سے ہوئی۔ پوچھا ”پاکستانی پینٹنگز دیکھی تھیں؟“ کہا ”میں پاکستان گیا۔ نیشنل گیلری میں گزشتہ 16 سال سے کوئی نئی پینٹنگ خریدی ہی نہیں گئی۔ میں نے دیکھا کہ کئی گیلریوں میں سونک لگی ہوئی تھی۔“ میں نے اب سوچا میں کسی سے پاکستان کا حال نہ پوچھوں گی۔
مقتدرہ کی جانب نکل گئی، وہاں بورڈ بدلا ہوا تھا۔ ”ادارہٴ فروغ اردو“ لکھا ہوا تھا۔ پوچھا کون صاحب کرامات ہے؟ دفتر میں سنّاٹا تھا۔ پتہ چلا ڈاکٹر انوار احمد کے جانے کے بعد نہ کوئی آیا نہ گیا، نہ کام نہ کاج، اسٹاف ویلا بیٹھا ہوا ہے۔ آگے بڑھی تو اکیڈمی کا بورڈ لگا دیکھا۔ یہاں الٹا منظر تھا۔ چیئرمین اور ڈی جی کی کرسیاں بھری ہوئی تھیں۔ کن اصحاب سے، جن کا جاننا آپ کے یا زمانے کیلئے ضروری نہیں چونکہ فنڈز نہیں اس لئے یہاں بھی اسٹاف ویلا تھا۔ آگے گئی تو نیشنل بک فاؤنڈیشن کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ یہاں بھی مظہرالسلام کے بعد اسٹاف ڈنڈے بجا رہا تھا۔ ذرا دائیں کو مڑی تو ٹی وی اسٹیشن آ گیا۔ یہ ادارہ بھی باس کے بغیر اشتہاروں کے سر پر چلے جا رہا تھا۔ بائیں کو مڑ کر قائداعظم پیپرز سیکشن کے سربراہ کا نام پوچھا، یہاں بھی پتہ چلا سیٹ خالی ہے۔ میرا دل بہت اچاٹ ہوا، سوچا کراچی چلو۔ اردو لغت بورڈ، فہمیدہ ریاض کے جانے کے بعد سے آواز دے رہا ہے، کوئی ہے جو یہاں بیٹھ سکے۔ آگے گئی تو قائداعظم اکیڈمی پوچھ رہی تھی، مجھے کس کے حوالے کرنا ہے؟
میں نے جھنجھلا کر فارن آفس کی جانب رخ کیا۔ امریکہ اور انگلینڈ جیسے اہم مراکز ہیں، ہمارے ملک کا کوئی سفیر نہیں ہے۔ علاوہ ازیں کوئی 11 ممالک میں سفارت کاروں کی پوسٹیں کہہ رہی ہیں کہ مہرباں ہو کے بلا لو ہم کو۔ ارے یہ تو چھوٹی باتیں ہیں۔ خود اسلام آباد میں کوئی 12 پوسٹیں سیکرٹری کی سطح کی ایسی ہیں جو منتظر ہیں، کسی لائق و فائق بندے کی۔جب ہی تو میں کہوں یہ آوے کا آوا کیوں بگڑا ہوا ہے۔ نئے سے نئے چینل کھل رہے ہیں۔ کونسل آف کمپلینٹ کو بتایا ہی نہیں جا رہا۔ جگہ جگہ یعنی راولپنڈی اور پاکستان کے تمام چھوٹے شہروں میں سارے کے سارے انڈین چینل رواں ہیں۔ ادارے کے افسران نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ پیمرا میں ”جس کو چاہے پیا وہی سہاگن“ والا قصہ ہے۔ چار ماہ ہونے کو آئے کونسل آف کمپلینٹ کی میٹنگ ہی نہیں ہوئی حالانکہ ہر دو ماہ بعد یہ میٹنگ ہونی چاہئے۔ ٹی وی کے سینسر بورڈ میں افتخار عارف کے جانے کے بعد کوئی متبادل نہیں رکھا گیا ہے۔ خاتون رکھنا تو نامناسب ہے۔ ادبی پروگرام کی کوئی اہمیت اور ضرورت نہیں ہے۔ موسیقی کے پروگرام بھی غیر ضروری ہیں سوائے سیاسی اور مذہبی موضوعات کے اور کچھ بیان کرنے کو نہیں کہ ڈراموں کے سلسلے میں دس تھپڑ اور چھ دھکے، عورت کیلئے لازمی ہیں۔ ہندوستانی ڈراموں کی نقل میں ڈریس اور زیور پہنے جاتے ہیں۔آج کل کے زمانے کے مطابق ڈپارٹمنٹ فلمز اور مطبوعات کیوں نہیں چل رہا؟ وہی صدر اور وزیراعظم کی تقاریر شائع کرنا اور جب وہ چلے جائیں تو ان کو ضائع کرنا۔ کس سفارت خانے میں پاکستانی ادب، مصوری، موسیقی اور اسکیچز کوئی ایک آئٹم بھی تو نہیں جبکہ ہر تین ماہ بعد انڈین کمیشن سے کتب، رسالے، سی ڈیز اور طرح طرح کا مٹیریل ملتا رہتا ہے۔ ایک زمانے تک جب میں مدیر تھی تو ماہ نو سارے اردو کے ادباء کو ملا کرتا تھا۔ یہ عمل ہمارے سارے سفارت خانے سرانجام دیتے تھے۔ اب ماہ نو ہی نہیں، جلال الدین صاحب نے پاکستانی مصوری پر کتاب بنائی ہے۔ وہ ہندوستان میں پسند کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں کسی کو خبر ہی نہیں ہے۔ پاکستان کی تہذیب اور کھانوں کے بارے میں کافی ٹیبل کتاب بنائی جائے تو سارے سفارت خانے اس کو خریدیں گے۔ ہم سات ہزار سال کی ثقافت کے علمبردار ہیں، کہیں ایسی دستاویز تیار کی گئی ہے؟ بچوں کو بھی محمد بن قاسم کا زمانہ پڑھایا جاتا ہے۔ صفائی، انسانی حقوق اور مذہبی مساوات کا کوئی سبق پڑھانے سے ہم ڈرتے ہیں۔ کب تک اپنی پولیس کی طرح ہم ڈرتے رہیں گے تاکہ طالبان ہم سب کو مار ڈالیں۔ توجہ کیجئے جناب وزیر صاحب!
تازہ ترین