محمّد علی سحر، محمود آباد، کراچی
علیم نے زندگی میں کبھی محنت مشقّت نہیں کی تھی، جب ماں زندہ تھی ،تو وہی بے چاری بنگلوں میں برتن دھوکر اور جھاڑو، پونچھا لگا کر اس ہڈ حرام کا دوزخ بھرتی رہی ۔اور پھر یہ سوچ کر علیم کی شادی کردی کہ شاید شادی کے بعد سُدھر جائے ، مگر وہ بڑا ہی ڈھیٹ تھا، کسی صُورت سُدھر کے نہ دیا۔بیوی بھی آخر کتنے دن ساتھ نبھاتی، شوہر کی ہڈحرامی سے تنگ آکر خلع لے کے علیحدہ ہوگئی ۔ماں کے مرنے اور بیوی کے الگ ہوجانے کے بعد تو اُس کے اور مزے آگئے، دن بھر پڑا سوتا رہتا یا پھر کسی خیراتی دسترخوان سے پیٹ بھر کھانا کھاتا اور اپنے کام دھندے پر لگ جاتا۔
کام بھی کیا، چھوٹی موٹی چوریاں کرتا تھا،جنہیں بڑے فخر سے ہاتھ کی صفائی یا ہنر کہتا۔ اکثر اپنے بچپن کے دوست، انورسے کہتا ’’یار انّو! یہ جتنے بھی لوگ ہیں ناں، سب ہماری طرح چورہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم غریب ہیں، توفراڈئیے مشہور ہیں اور یہ سارے شرافت کا لبادہ اوڑھےچوری چُھپے دھوکا دہی کرتے ہیں۔
سو، یہ سب معزّز اور ہم بدنام ہیں ۔یہ بڑے بڑے ڈاکٹرز بھاری بھرکم فیسیں لیتے اور کمیشن کے لیے ،مجبور مریضوں کےغلط سلط ٹیسٹس کرواتے ہیں۔ مخصوص کمپنیوں کی منہگی منہگی دوائیں تجویز کرتے اورکمیشن لیتے ہیں۔ اسی طرح نجی اسکول مالکان بھی کسی قسائی سے کم تھوڑی ہیں، یہ بھی ہماری طرح پیسا بٹورنے میں ماہر ہیں۔‘‘اورعلیم کی باتیں سُن کر انور ہمیشہ اپنے پان، گٹکے سے لال دانت دکھا کر ہنسنے لگتا۔
دوپہر کے بارہ بج رہے تھے اور علیم اپنی کوٹھری میں مزے سے سورہا تھا کہ زور زور سے کسی نے دروازہ بجایا، مسلسل دروازہ پیٹنےپر وہ ہڑ بڑا کر اُٹھا ۔دروازہ کھولاتو سامنے انور کھڑا تھا۔علیم نے منہ بنایا تو انور نے ہنستے ہوئے کہا ’’مہاراج! ابھی تک سپنے دیکھ رہے ہیں۔‘‘علیم ،اس کی بات سُنی، اَن سُنی کرتے ہوئے منہ دھونے لگا۔ اور تھوڑی دیر بعد حسبِ معمول دونوں ایک خیراتی دسترخوان پر پہنچ گئے، جہاں کچھ ہی دیر میں دوپہر کا کھانا لگنے والا تھا۔کھانا کھا کر انور نے ایک مکان سے گٹکا لیا کہ آج کل گٹکے کی کُھلے عام فروخت پر پابندی تھی، وہیں سے علیم نے ایک سگریٹ لی اور لمبے لمبےکَش لگانے لگا۔
پھر دونوں بھری دوپہر میں ایک خستہ حال پارک کی ٹوٹی بینچ پر جا بیٹھے، جہاں کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد علیم نے انور سے کہا ’’یار! میرے ذہن میں ایک بہت ہی زبردست آئیڈیا آیا ہے۔ بس، تُجھے میراساتھ دینا ہوگا اور یہ کہہ کر اس نے انور کو سارا آئیڈیا سمجھایا۔آئیڈیا سُن کر تو انور کی خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی نہ تھا۔ ’’واہ! میرے چیتے، کیا زبردست ترکیب سوچی ہے۔
اَبے! سچ کہہ رہا ہوں،اگر تُونے اتنا دماغ پڑھائی میں لگالیا ہوتا، تو آج کوئی بڑا افسر ہوتا۔‘‘ ’’چل بے! پڑھ لکھ جاتا تو ایک ہاتھ میں ڈگری، دوسرے میں میڈلز لیے ایک دفتر سے دوسرے دفتر ٹھوکریں کھا رہا ہوتا۔ ویسے بھی مجھ سے یہ محنت، مشقّت نہیں ہوتی۔‘‘پھر دونوں نے اس آئیڈیے پر دوسرے ہی دن سے عمل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آگے کی حکمتِ عملی ترتیب دی۔
علیم اگلے روز خلافِ معمول صبح 11 بجے ہی اُٹھ گیا اور صاف سُتھرا لباس ، ٹوپی پہن کرانور کا انتظار کرنے لگا۔کچھ دیر بعد انور بھی سفید سوٹ اور سفید ہی ٹوپی پہنے آگیا۔ دونوں نے خیراتی دسترخوان سے ناشتا کیا،بس پکڑی اور شہر کے سب سے بڑے قبرستان کے باہر ایک طرف جا بیٹھے۔کچھ دیر بعد ایک میّت بس، جس کے ساتھ کئی شان دار گاڑیاں بھی تھیں، قبرستان کے گیٹ پر آکر رُک گئیں۔ گاڑیوں کے رُکتے ہی بس کے ایک طرف انور اور دوسری طرف علیم کھڑا ہوگیا ۔
دونوں نے دیگر لوگوں کے ساتھ میّت کو بس سے اُتارا اور لوگوں کے ساتھ چلنے لگے۔ اتنے میں انور ایک طرف جاکر میّت کے بالکل ساتھ چلنے لگا اور ساتھ چلتے ہوئے لوگوں سے مرحوم کی تعریفیں کرتے ہوئے، مرحوم کے متعلق معلومات حاصل کرنی شروع کردیں کہ کہاں رہتے تھے، ملازمت کہاں کرتے تھے، کتنے بچّے ہیں، وغیرہ وغیرہ… دوسری طرف علیم بھی لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے یہی معلومات لیتا جارہا تھا،جب میّت دفنا دی گئی اور دُعا کے بعد مرحوم کے بڑے بیٹے نے سوئم کا اعلان کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’بابا پر کسی کا قرض تو نہیں ہے؟‘‘ تو بس یہ سُنتے ہی علیم نے فوراً کہا ’’جی، میرے والد ان کے ساتھ کام کرتے تھے، جن سے انکل نے ایک بار25000 روپے بطور قرض لیے تھے،جو آج تک واپس نہیں کیے۔ اس بات کا گواہ یہ چائے والا انور ہے، جس کے ٹی اسٹال پر انہوں نے قرض لیا تھا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے علیم نے روہانسے ہونے کی اداکاری کی، تو انور نے بلند آواز سے علیم کی بات کی گواہی دے دی۔مرحوم کے ایک بیٹے نے علیم کوبغور دیکھا اور کہا،’’مَیں تو آپ کو نہیں جانتا اور بابا کے پاس پہلے کبھی دیکھا بھی نہیں، نہ ہی انہوں نے کبھی کسی سے قرض لینے کا ذکر کیا۔‘‘ جس پر علیم کچھ گھبرا گیا اور یہ کہتے ہوئے کہ ’’چلیں، کوئی بات نہیں۔ مَیں تو ویسے بھی حیدر آباد میں رہتا ہوں، میری وہیں گاڑیوں کے پارٹس کی دُکان ہے۔کراچی آیا ہوا تھا، تو انکل کے انتقال کی خبر سُنی، تو سوچا ،جنازے میں شرکت کرلوں۔
اگر آپ پوچھتے نہیں، تو مَیں ہر گز اس قرض کا تقاضا بھی نہیں کرتا، لیکن مَیں نے سُنا ہے کہ مُردے پر قرض کا بوجھ ہوتا ہے، اس لیے مَیں نے بتادیا۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے پکڑے جانے کے خوف سے وہاں سے بھاگنے میں عافیت جانی۔مگر،ابھی چار قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ مرحوم کے بڑے بیٹے نے اُسے آواز دیتے ہوئے کہا ’’ویسے تو ہم میں سے کوئی بھی آپ کو نہیں جانتا، لیکن اگر آپ دعویٰ کررہے ہیں، تو سچ ہی کہہ رہے ہوں گے۔ پرسوں سوئم کے بعدآپ کی رقم، آپ کو مِل جائے گی۔‘‘ یہ بات سُن کر علیم اور انور خوشی سے بغلیں بجاتے قبرستان سے واپس آگئے ۔
سوئم والے دن دونوں صاف سُتھرے سفید لباس پہن کر اُسی مسجد جا پہنچے، جہاں سوئم کا اعلان ہوا تھا۔وہاں سے فارغ ہوکر مرحوم کے بیٹے انہیں اپنے ساتھ گھر لے آئے، جہاں انہوں نے علیم اور انور کو سوئم کی بریانی کِھلائی۔ بعد ازاں، تمام رشتے داروں کے سامنے پیسے ادا کرتے ہوئے کہا، ’’گرچہ میرے والد نے کبھی اس اُدھار کا ذکر نہیں کیا، لیکن ہم آپ کو جُھٹلا بھی نہیں سکتے کہ آپ ہمارے والد کے متعلق سب جانتے ہیں۔ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے والد کی قبر بھاری ہو۔‘‘
نوٹ ہاتھ آتے ہی علیم اور انور نے اجازت لے کر رکشے میں بیٹھ کرگھر کی راہ لی۔ وہ دونوں بے حد خوش تھے کہ قریباً دو ہفتے ہنسی خوشی گزر جائیں گےکہ اچانک ہی ایک تیز رفتار ٹرک نے رکشے کو ٹکّر مار ی اور دیکھتے ہی دیکھتے رکشے میں آگ بھڑک اُٹھی۔ تینوں(رکشا ڈرائیور، علیم، انور)کو اسپتال تو پہنچادیا گیا، لیکن کراماتی طور پر حادثے میں رکشا ڈرائیور کو ایک خراش تک نہ آئی ، جب کہ انور اور علیم بُری طرح جُھلس گئے۔
آج بھی سب حیران ہوتے ہیں کہ انور اور علیم دونوں کو ایک ہی جیسی چوٹیں کیسے لگیں کہ دونو ں ہی کے جسموں کا آدھا ، آدھا حصّہ بالکل جُھلس گیا ہے ۔ دونوں میں سے کوئی اُٹھ بیٹھ سکتا ہے،بول سکتا ہےاورنہ ہی کھاپی سکتا ہے۔ دونوں ہی بس زمین پر پڑے رہتے ہیں کہ جھلسے ہوئے حصّے، جن میں سے خون رِستا رہتا ہے، دیکھ کر کوئی ان کے قریب بھی نہیں آتا۔
البتہ فقیر مافیا نے دونوں کی حالت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انہیں قریب موجود قبرستان کے باہر لٹا دیا ہے،جہاں آنے جانے والے لوگ ان کی چادر پر چند سکّے، تو کبھی نوٹ پھینک جاتے ہیں اور وہ پیسا بھی اُنہیں نصیب نہیں ہوتا کہ وہ بھی مافیا اپنے قبضے میں لے لیتی ہے۔ واقعی کسی نے سچ ہی کہا ہے، ’’ جو بوؤ گے، وہی کاٹو گے۔‘‘