• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقصیٰ منور ملک،صادق آباد

اس کی نگاہ نیلے افلاک کی وسعتوں میں بھٹک رہی تھی اور ذہن مختلف سوچوں کی آماج گاہ بناہو ا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا،جیسےوہ کسی تپتے صحرا میں برہنہ پا دوڑتی چلی جا رہی ہے۔ یوں جیسے اس کی کوئی منزل ہی نہ ہو۔ 

آسمان پر بھٹکتی نگاہ مایوس ہو کر لوٹ آئی۔’’میرے ہاتھ ایسے تو نہ تھے‘‘ غیر اختیاری طور پر اس نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا،جو شایدتوجّہ نہ دینے کے سبب بد رنگ سے ہو گئےتھے۔ وہ بالکونی سے اُٹھ کر کمرے میں چلی آئی۔آئینے میں کھڑےہو کر اپنا سراپا دیکھا’’لوگوں کو خوش کرنےکے لیے،ان کی خدمت میں خود کو بھلا دیا،لیکن…لیکن کیا ملا؟ کوئی بھی تو مجھ سےخوش نہیں، ہر کسی کو مجھ سے بس شکایتیں ہی ہیں۔ مَیں کیا کروں،کس سے کہوں؟ کوئی بھی تو میرا اپنا نہیں…‘‘اس کے آنسو،اس کا چہرہ بھگوتے چلے گئے۔

وہ بیڈ پر آکر لیٹ گئی،تکیے میں منہ چھپائے روتے روتے اس کی سوچ ایک مرتبہ پھر بھٹکنے لگی۔’’میرے مقدّر میں محرومیاں ہی لکھی ہیں، پہلے ماں کی محبّت سے محروم ہو گئی، اب بیٹا بھی خدا نے لے لیا۔ثوبان بھی تو ویسے نہیں رہے، سب کی خدمت کی،لیکن بدلے میں مجھے نفرت ہی ملی۔یا اللہ! تُو نے مجھے کیوں پیدا کیا،اتنی نفرتیں کیوں میرے ہی مقدّر میں لکھ دیں،یا اللہ تُو بھی تو میری نہیں سُنتا۔‘‘

وہ مایوسی کے عالم میں بس بڑبڑائے ہی جا رہی تھی، بنا یہ سوچے کہ اس نے کبھی اللہ کا دَر کھٹکھٹایا ہی نہیں اوربنا دستک دئیے دروازہ کب کُھلتا ہے۔’’اب مَیں اس گھر میں ایک مِنٹ اور نہیں رکوں گی۔‘‘ اس نے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور اپنے بابا کے پاس جانے کی راہ لی۔

’’بیٹا!مَیں تو پھر یہی کہوں گا کہ اتنی ذرا ذرا سی بات پر گھر چھوڑ کر نہیں آتے۔‘‘بابا کے سمجھانے پر وہ بگڑ گئی ’’بابا!اتنی سی بات… اتنی ذرا سی بات نہیں ہے ڈھائی سال ہو گئے مجھے ’’اس گھر میں، لیکن مَیں اتنے عرصے میں کسی کو اپنا نہ بنا سکی، نہ کسی کا دل جیت سکی۔ آنٹی کو اپنی ماں،،نندوں کو بہنیں سمجھا۔ سوچا تھا کہ میری زندگی میں جن محبتوں کی کمی ہے،وہ مجھے ان سے ضرور ملیں گی، لیکن انہوں نے مجھے کبھی اہمیت ہی نہیں دی۔مجھے طعنے دیتی ہیں، طنز کرتی ہیں، ذرا ذرا سی بات پر ذلیل کر کے رکھ دیتی ہیں۔ 

ثوبان بھی میری کوئی بات نہیں سُنتے، ہمیشہ مجھے ہی کہتےہیں کہ’’ امّی کو شکایت کا موقع نہ دو۔‘‘لیکن انہیں تو شاید میرے وہاں ہونے ہی سے شکایت تھی، سو مَیں نے ان کی زندگی آسان کردی۔‘‘فاروق صاحب نے بھی اسے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے دی۔’’بابا! یہی وجہ تھی کہ مَیں نے الگ گھر کی خواہش کی تھی۔‘‘’’طوبیٰ! تم تو ایسی نہیں تھیں۔ اپنی ماں کی طرح صابر و شاکر تھیں۔ اب یہ شکوے شکایتیں، بار بار روٹھنا، گھر چھوڑ آنا… یہ سب کیا ہے بیٹا؟‘‘امّی کی ایسی آزمائشیں بھی تو نہیں تھیں۔‘‘ ’’آپ کو کیسے پتا کہ اُس کی زندگی آزمائشوں سے مبرا تھی؟ ہر شخص کی آزمائش مختلف ہوتی ہےاور ہر شخص ہی آزمائش میں ہے۔ 

اب اگر ثوبان آپ کی بات مان لے، الگ گھر لے بھی لے،تو اُس کے آفس جانے کے بعد اکیلےگھر میں کیسے رہو گی۔ آپ کو تو اکیلے پن سے ڈر لگتا ہے ناں۔مجھے دیکھو،سارا دن اکیلے رہ کر جی گھبرانے لگتا ے،دَر و دیوار کاٹ کھانےکو دوڑتے ہیں اور ہاں یاد آیا ،میرے پاس آپ کے لیے کچھ ہے۔‘‘وہ حیرانی سے بابا کی طر ف دیکھنے لگی اور وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے، واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کے خُوب صُورت کوَر میں لپٹی ایک ڈائری تھی۔’’یہ آپ کی امّی کی ڈائری ہے۔ مَیں نے بہت سنبھال کر رکھی تھی۔ اُس کے جانے کے بعد اس ڈائری نے مجھے بہت کچھ سکھایا،لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب آپ کو اس کی ضرورت ہے۔‘‘ بابا نے ڈائری اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اور ’’ شب بخیر‘‘ کہہ کر سونے چلے گئے۔

’’4جنوری 1996 ء: میری شادی کو سال ہونے کو ہے،لیکن میری کوششوں کے باوجود سبھی مجھ سے کِھنچے کِھنچے سے رہتے ہیں۔ کوئی مجھ سے زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتا،لیکن خیر…مَیں ایک دن ضرور سب کو اپنا بنا لوں گی،کیوں کہ پانی کے قطرے، پتھر پر بھی مسلسل گرتے رہیں، تو اس میں سوراخ کر ہی دیتے ہیں۔ 12اکتوبر 1996ء:اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے چاند سی بیٹی دی۔ ماں بننے کا احساس کیسا اَن مول اور خُوب صُورت ہوتا ہے یہ مجھے اپنی بیٹی کو پہلی بار گود میں لے کر پتا چلا۔

حالاں کہ ابّا جان اور اماں جان کو اعتراض ہے کہ بیٹا کیوں نہ ہوا،ان کی کاٹ دار باتیں میرا دل چھلنی کر دیتی ہیں۔ لیکن بیٹا یا بیٹی دینا تو ربّ کے ہاتھ میں ہے، اس میں کسی انسان کا کیا اختیار…؟ 26 نومبر 1996ء: آج طوبیٰ ڈیڑھ ماہ کی ہو گئی ہے۔ابھی تک ابّا جان اور امّاں جان نے اسے گود میں نہیں اُٹھایا۔ کہتے ہیں ابھی بہت چھوٹی ہے، لیکن میں جانتی ہوں کہ وہ پوتی کو گود میں لینا ہی نہیں چاہتے، ورنہ فہد کو تو پہلے ہی دن اٹھا لیا تھا۔یااللہ!میرے دل میں یوں بدگمانیاں کیوں پیدا ہو رہی ہیں۔ تُو ہی مجھے کوئی راستہ دِکھا،مجھے ہدایت عطا فرما۔

9دسمبر1996ء: آج مَیں اپنی سہیلی کے ساتھ درس سننے گئی تھی،کتنا سکون تھا وہاں۔ سُنا ہے، ایسی نورانی مجالس کو فرشتوں نے گھیرا ہوتا ہے۔باجی صفیہ نے دل موہ لینے والی حکایات سُنائیں۔انہوں نے کہا کہ’’خوشی اور غم انسان کی زندگی میں آتے رہتے ہیں۔جس طرح موسم بدلتے ہیں، اسی طرح کیفیات بھی بدلتی رہتی ہیں۔

یہ نظام اللہ نے اس لیے بنایا تاکہ انسان خوشی میں اس کا شُکر ادا کرسکے اور غم کی گھڑی میں اس سے حالِ دل کہے، اُس کے آگے گڑ گڑائے، فریاد کرے۔جب اللہ کُن کہتا ہے،تو پھر ناممکن سے ’’نا‘‘ ہٹ جاتا ہے،صرف ممکن ہی ممکن رہ جاتا ہے،لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم مانگتے ہی نہیں اور نہ ہمیں مانگنے کا سلیقہ ہے۔ اکثر لوگ تو نماز پڑھتے ہی یوں اٹھتے ہیں،جیسے ٹرین چھوٹنے والی ہو۔

جب بندہ نماز مکمل کرتا ہے، تو دُعا مانگنا گویا اس کی اُجرت ہے،اب یہ بندےپر منحصر ہے کہ وہ کیا اُجرت مانگے۔ اللہ تو کُل جہانوں کا پالن ہار ہے۔دینے سے اس کے خزانوں میں کمی نہیں آتی، وہ تو ہمارے مانگنے کا منتظر ہے۔‘‘انہوں نے ہمیں تاکید کی کہ’’ہر نماز کے بعد پانچ منٹ دُعا مانگنا اپنی عادت بنائیں اور پھر حسبِ توفیق بڑھاتے جائیں۔

یقین کیجیے، یہ تعلق وقت کے ساتھ گہرا ہوتا جائےگا اور جب وہ آپ کا ہو جائے گا ناں،تو ساری پریشانیاں،ساری مشکلات حل ہو جائیں گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘باجی صفیہ کی دھیمے لہجے میں کی گئی باتیں میرے دل میں اُترتی چلی گئیں۔ اب مَیں ڈائری پر لکھ کر محفوظ کر رہی ہوں تاکہ اگرکبھی میں ڈگمگائوں تو یہ باتیں مجھے استقامت دیں اور اب میں اپنی ہر بات اپنے اللہ سے کروں گی کہ وہی تو سب دُکھوں کا مداوا کرنے والا ہے۔‘‘

طوبیٰ نےچھے سات صفحات پر مشتمل کچھ دِنوں کی رُو داد پڑھی، تو اس کا چہرہ آنسوئوں سے بھیگا ہوا تھا۔اس نے ہتھیلی کی پشت سے آنکھیںاور چہرہ رگڑ کر صاف کیا۔ان آنسوئوں کے ساتھ،اس کے دل کا غبار بھی دُھلتا جا رہا تھا۔اس نے خستہ حال اوراق احتیاط سے پلٹے۔’’16دسمبر1996ء: مَیں نے اپنی غلطی نہ ہونے کے باوجود امّاں اور ابّا جان سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اور آئندہ شکایت کاموقع نہ دینے کا وعدہ بھی کیا۔ دونوں بہت حیران اور خوش تھےاور ایسا کر کے میں خود بھی پُرسکون ہوں۔

باجی صفیہ نے سمجھایا تھا کہ معافی مانگنے سے (اپنی غلطی ہو یا نہ ہو) انسان پُرسکون ہو جاتا ہے اور آئندہ کےبہت سے لڑائی جھگڑوں سے بچ جاتا ہے۔ واقعی ایسا کرنے سے کم از کم مَیں تو بہت مطمئن ہوں۔ 2 جولائی 1997ء: مجھے درس میں جاتے ہوئے کئی ماہ ہو گئے ہیں۔ اس عرصے میں، مَیں نے اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں محسوس کیں۔ اب مجھے کوئی کچھ بھی کہےمَیں پلٹ کر کچھ نہیں کہتی۔ اُمید ہے کہ ایسا کرنے سے اللہ مجھے بھی معاف کر دےگا۔اگر دل زیادہ ہی غم سے بھر جائے،تو لوگوں سے کچھ کہنے کی بجائےاللہ سے کہہ دیتی ہوں، وہی میرے دل کو سکون اور خوشی عطا کرتاہے۔‘‘

’’امّی!آپ اتنی صابر شاکر تھیں، تبھی تو سب کے دِلوں میں اپنا مقام بنالیا، دادو، تائی جان، پھوپھی جان آپ کے یوں چھوڑ جانے پر اتنی غم گین تھیں،دادو کی حالت دیکھ کر تو لوگ یہ سمجھ رہے تھے، جیسے آپ انہی کی بیٹی ہوں اور مَیں کتنی بد نصیب ہوں کہ آپ کی بیٹی ہونے کے باوجود آپ جیسی نہ بن سکی۔‘‘طوبیٰ کھڑکی سے سر ٹِکائے کھڑی تھی۔یادیں سوچ کی رَدا اوڑھے ذہن کے کواڑوں پر دستک دے رہی تھیں۔ ’’بس، مَیں اپنے گھر واپس جائوں گی۔‘‘ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے وجود سے ٹکرایا اور وہ جیسے خیالات کی دنیا سے باہر آگئی۔ گھڑی کی طرف دیکھا، تو وہ ساڑھے تین بجا رہی تھی۔ وہ واش روم کی طرف بڑھی،وضو کر کے باہر آئی اورایک لمبے عرصے بعد نماز کے لیے کھڑی ہوگئی۔ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اللہ کو چھوڑے بیٹھی تھی اور اب سمجھ آئی کہ ربّ راضی،تو سب راضی۔

بذریعہ ڈاک موصول ہونے والی نا قابلِ اشاعت نگارشات اور ان کےتخلیق کار

٭جذبہ، چاہت، بابر نبیل، گلبرگ، لاہور٭ماں، زر غونہ کاکڑ، بلوچستان ٭اِدھر اُدھر بطور مزاح، غلام اللہ چوہان، کراچی٭صبح کا بھولا، محمّد امین لودھی، کراچی٭آخری کہانی، عنایت اللہ ایاز، لاہور٭آزادی تعلیم، آصف احمد، کھوکھراپار، ملیر، کراچی٭میرا گھر، میری جنّت، شاہدہ ناصر، گلشنِ اقبال، کراچی ٭دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ، اقصیٰ منور ملک، صادق آباد۔

بذریعہ ڈاک موصول ہونے والاناقابلِ اشاعت کلام اور ان کے قلم کار

٭مَیں ہوں آوارہ صحرا، نام و مقام نہیں لکھا٭حمد، غلام رسول طاہر، کراچی ٭ہم سو رہے تھے، نام و مقام نہیں لکھا٭محاذِ آزادی، عقیلہ عروج، مقام نہیں لکھا ٭یادوں کے رُوپ، لہو کا رنگ، غزلیات، شگفتہ لالہ زار، واہ کینٹ٭اداسی، جا رہا ہے دسمبر،وجیہہ تبسّم، خان کالونی، لاہورروڈ، شیخوپورہ٭غزل، مسلمان کی شان، شگفتہ بانو، واہ کینٹ٭21 ویں صدی، غلام نبی غلام،جناح آباد، کراچی٭نعت، عنبرینہ صابر، جہلم۔

سنڈے میگزین سے مزید