• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی کشمکش اور محاذ آرائی سے ماورا حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جمعرات کو اس وقت مکمل ہم آہنگی دیکھنے میں آئی جب قومی اسمبلی نے آئین میں 22 ویںترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ ترمیم کا مقصد چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان کی اہلیت کا معیار اور تقرری کے طریق کار کو تبدیل کرنا اور دیگر متعلقہ معاملات کیلئے اصول و ضوابط وضع کرنا بتایا گیا ہے۔ رائے شماری کے دوران بل کے حق میں 241 ووٹ آئے جو مطلوبہ دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ تھے۔ آئینی ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان کیلئے سپریم کورٹ یا کسی ہائیکورٹ کا موجودہ یا سابق جج ہونے کی شرط ختم کردی گئی ہے اب ججوں کے علاوہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے تحت کم سے کم 20 سال کی مدت ملازمت کے حامل گریڈ 22 یا اس سے اوپر کے بیوروکریٹس اور اعلیٰ تعلیمی ڈگری ، قومی یا بین الاقوامی سطح پر کامیابیوں کا ریکارڈ اور اپنے شعبے میں20 سال کا تجربہ رکھنے والے ٹیکنو کریٹس بھی کمیشن کے سربراہ یا رکن بننے کے اہل ہوںگے۔ کمیشن کی مدت پانچ سال ہوگی اور یہ سینٹ کی طرح ایک مستقل ادارہ ہوگا جس کے نصف ارکان ہر ڈھائی سال کے بعد تبدیل ہوتے رہیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر کے لئے عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 68 اورارکان کیلئے 65 سال ہوگی قائمقام چیف الیکشن کمشنر کی نامزدگی کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا اختیار ختم کردیا گیا ہے۔ اب چیف الیکشن کمشنر کی عدم موجودگی میں کمیشن کا سینئر ترین رکن خودبخودان کی ذمہ داریاں قائمقام کے طور پر سنبھال لے گا۔ کمیشن مقامی حکومتوں کے انتخابات کیلئے حلقہ بندیوں اور رائے دہندگان کی فہرستوں کی تیاری کا بھی ذمہ دار ہوگا۔ بل کے مسودے کو غور سے پڑھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کا مقصد الیکشن کمیشن کو ایک خود مختار اور حکومت کے کنٹرول سمیت تمام آئینی اداروں حتیٰ کہ عدلیہ کے اثر سے بھی آزاد بنانا ہے۔ آئینی و قانونی حلقے ایک عرصہ سے اس سمت میں قدم اٹھانے کیلئے آواز بلند کر رہے تھے۔ پاکستان میں انتخابات کی شفافیت کا معاملہ ہمیشہ متنازعہ رہا ہے اور برسر اقتدار حکومتوں کے علاہ حاضر سروس یا ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل الیکشن کمیشن پر بھی اعتراضات کی بوچھاڑ ہوتی رہی جس سے غیر محسوس طور پر عدلیہ کی ساکھ پر بھی حرف آیا اس صورت حال میں ضروری تھا کہ صرف ججوں کو اس امتحان سے نہ گزارا جائے بلکہ تجربہ کار بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس کو بھی ذمہ داریاں سونپی جائیںدوسرے جمہوری ملکوں میں زیادہ تر اسی روایت پر عمل ہوتا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں چیف الیکشن کمشنر اکثر کسی سرد و گرم چشیدہ بیوروکریٹ کو لگایا جاتا ہے جو اپنی صلاحیتوں کی بنا پر انتخابی مشینری کو پوری طرح کنٹرول میں رکھتا ہے اور انتخابی عمل کو غیر جانبدار انہ اور منصفانہ بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں دھاندلیوں کے چھوٹے موٹے الزمامات تو لگتے ہیں مگر پورے انتخابات کو منسوخ کرنے کے حق میں تحریکیں چلتی ہیں نہ دھرنے دیئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں الیکشن کمیشن آئینی طور پر انتظامی اور مالی لحاظ سے خود مختار اور حکومت کے کنٹرول سے آزاد ہونے کے باوجود انتخاباات کو بے قاعدگیوں کے الزامات سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتامبصرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جج انصاف کے شعبے میں تو یکتا ہوتے ہیں مگر انتظامی تجربہ کم ہونے کی وجہ سے انتخابی مشینری ان کے کنٹرول میں نہیں رہتی جس کی وجہ سے انتخابات میں بد نظمی اور بے ضابطگی کے مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں ۔ توقع ہے کہ الیکشن کمیشن کی ہیئت بدلنے سے صورت حال ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہوجائے گی ۔ نیز ارکان کی میعاد میں تسلسل اور خالی عہدے بروقت پر کرنے سے کمیشن کی خود مختاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ تاہم انتخابات کو مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدار بنانے کیلئے انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ پارلیمنٹ نے اس مقصد کیلئے جو کمیٹی بنائی تھی اس نے اپنی سفارشات کو ابھی حتمی شکل نہیں دی۔ حکومت اور ااپوزیشن کو اس سلسلے میں باہمی مشاورت سے کوئی لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا تاکہ آئندہ انتخابات سے قبل انتخابی نظام کی اصلاح کا عمل مکمل ہوجائے گا۔
تازہ ترین