جمہوری نظام میں پارلیمان ہی بالادست ایسا ادارہ ہوتا ہے جہاں قوم کے نمائندےافہام و تفہیم سے امور سلطنت و ریاست نہ صرف طے کرتے ہیں بلکہ اس منتخب ادارہ کو اس حد تک بالادستی حاصل ہے کہ یہ ملک کے آئین میں بھی ردوبدل کر سکتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت میں منتخب پارلیمنٹ ہی ملک کے سیاہ و سفید کی مالک ہوتی ہے۔ تاہم ’’جمہوری روایات‘‘ کا یہ تقاضا ہے کہ تمام معاملات باہمی مشاورت سے طے کئے جائیں اور اسپیکر کا یہ کہنا کہ ’’فیصلہ‘‘ ’’ایمز‘‘ والوں کے حق میں ہے حکم نہیں سند بن جاتا ہے۔ کئی جمہوری ممالک تو ایسے ہیں جہاں پارلیمنٹ ’’بارو ماس‘‘ ان سیشن رہتی ہے۔ کوئی مسئلہ ہو اسی سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور اسے ہی ’’پارلیمانی روایت‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ پاناما لیکس نے ہمارے ملک میں ایسی ’’اودھم چوکڑی‘‘ مچا دی ہے کہ تمام مسائل اپنی جگہ ہر جگہ ’’پاناما لیکس‘‘ ہی ہے۔ بھارتی را ایجنٹس پکڑے گئے جو ہماری سالمیت و استحکام کی بات ہے۔ ان کا کہیں ذکر نہیں۔ لوڈ شیڈنگ آگ بن کر برس رہی ہے۔ اسے بھی سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن سیاسی طور پر یوں کامیاب ٹھہری کہ اس نے پاناما لیکس میں ’’وزیراعظم‘‘ کو گھیر لیا ہے۔ مسئلہ صرف لندن فلیٹس کا ہے۔
چاہئے تو یہ تھا کہ وزیراعظم نواز شریف پہلے ہی روز اسمبلی میں آ جاتے اور ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کر دی جاتی جو تمام امور کو سنبھال لیتی لیکن شور ایسا مچایا گیا کہ جیسے اس تمام کھیل میں صرف اور صرف ملک کا وزیراعظم ملوث ہے۔ ان پانچ سو شخصیات پر توجہ نہیں دی گئی جن پر کھربوں روپے کے لین دین کا الزام ہے۔ یہ درست کہ جمہوری نظام میں اپوزیشن پر یہ جمہوری فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ حکومت کےغلط کاموں پر اسے روکے، ٹوکے لیکن ہماری تو ریت ہی نرالی ہے ابھی حکومت آتی ہی ہے کہ ’’ان کا جانا ٹھہر گیا‘‘ کا راگ شروع ہو جاتا ہے اور ماضی کا سبق یہ ہے کہ حکومت کو آئینی مدت بھی پوری کرنے نہیں دی جاتی۔ ’’فرشتے‘‘ ہر دم تیار رہتے ہیں۔ سو! ہمارے ملک میں بھی روایتی جمہوری کھیل شروع ہو گیا۔ اپوزیشن کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن، عمران خان خاص طور پر پیش پیش تھے اور ’’جواب آں غزل‘‘ چند وزیر سیاسی اکھاڑے میں کود پڑے۔ مسئلہ صرف اتنا تھا کہ پاناما لیکس کی شفاف تحقیقات کرائی جائے اور لوٹ کی دولت واپس لائی جائے لیکن اسے ’’حکومت کے آنے جانے‘‘ کا مسئلہ بنا دیا گیا۔ ’’سات سوال‘‘ کئے گئے اور بالآخر وزیراعظم نواز شریف قومی اسمبلی میں آ ہی گئے اور مختصر خطاب بھی کیا جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی کہ ’’میرا دامن صاف ہے‘‘ اور بلا امتیاز احتساب کی بات بھی کی گئی لیکن یہ سب کیسے اور کب ہو گا اس کا کوئی اعلان نہیں ہوا۔ اپوزیشن نے یہ کہہ کر ’’واک آئوٹ‘‘ کر دیا کہ ان کے 7سوال کا جواب نہیں ملا اور سوال بڑھ کر 70ہو گئے ہیں۔ جناب پرویز رشید، سعد رفیق کا کہنا ہے کہ ’’ناک آئوٹ‘‘ ہو گئے جہاں تک وزیراعظم کے خطاب کا تعلق ہے تو اسے ایک ’’اچھی تقریر‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے خوبصورت الفاظ تھے اور جب عمران خان کا بالواسطہ ذکر ہوا تو وہ بھی ’’اچھے انداز‘‘ میں تھا۔ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ’’احتساب کے ترازو میں تولنا ہے تو سب کو تولیں۔
اپوزیشن سوالات کرتی رہے گی اور ٹیلی وژن کے چینلز پر ’’منڈوے‘‘ سجتے رہیں گے اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ عوام کی بے چینی میں اضافہ ہی ہو گا۔ اگر مسئلے کو حل کرنا ہے تو تقریریں نہیں اقدام کرنے ہوں گے۔ آسان راستہ یہی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو فری ہینڈ دے دیا جائے اور اگر حکومت اور اپوزیشن ’’پاناما لیکس‘‘ ’’پاناما لیکس ‘‘ کھیل رہی ہیں تو انہیں کھلی چھٹی دے دی جائے اور جناب چیف جسٹس از خود نوٹس لے کر فیصلہ کر دیں اس طرح دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اس جہان فانی میں کوئی ناگزیر نہیں۔ جو آیا ہے اس نے واپس لوٹ کر جانا ہے اللہ ہی بڑا ہے اور وہی سارے جہاں کا مالک ہے۔ آخر میں غالب کا ایک شعر
رگ و پے میں جب اترے زہر غم تو دیکھئے کیا ہو
ابھی تو تلخی کام و دہن کی آزمائش ہے