• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان جانچ اور جائزے (ہمارے ساتھ کیا غلط ہے؟)، حکمتِ عملیوں، پانچ سالہ اور سالانہ منصوبے، رپورٹیںتیار کرنے میں بہت سے ترقی پذیر ممالک پر سبقت رکھتا ہے۔ لیکن ہمارا عمل درآمد کا ریکارڈ بدترین ہے۔ یہ ایک اہم وجہ ہے کہ پاکستان کا معاشی ڈھانچہ غیر فعال، ترقی میں بے ربط اور انسانی بہتری کے اشاریوں میں جمود کا شکار رہا ہے۔ بہت سارے کمیشنوں، کمیٹیوں، ٹاسک فورسز، تھنک ٹینکوں اور تحقیقی اداروں کی سفارشات کے باوجود ملک کی بہتری کے لیے درکار اصلاحات کیوں سرانجام نہیں پاتیں ؟ زیرِ نظر مضمون سول سروسز میں اصلاحات اور ریاست کی ایگزیکٹو برانچ کی تنظیم نو کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ گزشتہ دہائی یا اس سے زائد عرصہ کے میرے اپنے تجربے کا عکاس ہے۔ عدالتی اصلاحات کی عدم موجودگی قانون کی حکمرانی، معاہدوں کے نفاذ، تنازعات کے فیصلوں، قانون سازی کی اصلاحات کو متاثر کرتی ہے۔ مقننہ میں اصلاحات، پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی ایگزیکٹو پر نگرانی کرنے کی صلاحیتوں کو تقویت دیتیں اور قانون سازی کے معیار اور وسعت کو بہتر بناتی ہیں۔انتخابی اصلاحات عوامی نمائندوں کو منتخب کرنے کے عمل کو بہتر بناتی ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں ریاست کے کسی ایک عنصر میں بہتری کا اثر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

یہاں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ لفظ ’’اصلاح ‘‘اتنی کثرت سے استعمال یا غلط استعمال ہوا ہے کہ اب یہ گھسا پٹا لگتا ہے۔ اس کی تشریح افراد اور گروہ اپنی اپنی محدود سوچ کے مطابق کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف مفہوم رکھتا ہے۔ جب تک اس کے نتائج مجھ پر اثرانداز نہیں ہوتے، میں اصلاحات کا بہت بڑا حامی ہوں لیکن جس وقت میرے اپنے یا جس گروہ سے میرا تعلق ہے اس کے مفادات مجروح ہوتے ہیں، میں ان اصلاحات کا شدید مخالف بن جاتا ہوں۔ اصلاحات کے مقصد، شکل، ماہیت اورٹائمنگ کو قبول کرنے یا نہ کرنے میں یہ غیر متوازن رویہ اصلاحاتی عمل کی راہ میں ایک بنیادی رکاوٹ ہے۔

کئی ایک مبصرین کا استدلال ہے کہ جب تک حکومت، بازاروں اور سول سوسائٹی کے متعلقہ کرداروں کی واضح حد بندی اور تعریف نہیں کرتی اور اس پر اتفاق نہیں کیا جاتا تو ایگزیکٹو برانچ کی اصلاح کے لیے کسی بھی قسم کی تجاویز کا سامنے آنا قبل از وقت ہے۔ یہ چونکہایک انتہائی متنازع اور جذباتی مسئلہ ہے، جیسا کہ نیولبرل ازم اور مارکیٹ پر مبنی معیشت بمقابلہ سرکاری مداخلت اور حکومت کی سرپرستی میں چلنے والی معیشت۔ جب تک یہ معاملات نہیں سلجھتے، ہم اس پر لامتناہی بحث کرتے ہوئے آگے بڑھنے سے قاصر رہیں گے۔ لہٰذا میں جو نتیجہ نکالتا ہوں، وہ یہ ہے کہ یہ دوطرفہ تعلق مصنوعی، غیر فعال اور بے مقصد ہے۔ یہ موثر اور قابل حکومت اوراچھی طرح سے کام کرنے والی مسابقتی منڈیوں کا مجموعہ ہے جس کی وجہ سے معیشت ترقی کرتی ہے۔ ہمارے اپنے براعظم میں جاپان، چار ٹائیگرز (کوریا، تائیوان، ہانگ کانگ، سنگاپور) سے لے کر آسیان ممالک (ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، فلپائن، ویت نام) تک اور گزشتہ تین دہائیوں میں چین کی زبردست ترقی سے اس تجویز کی ٹھوس سند ملتی ہے۔ حکومتی اداروں کی عدم موجودگی میں نجی شعبے کے طاقتور کھلاڑی اپنی منفی اجارہ داری قائم کرلیتے ہیں۔ حکومت کا کام اجارہ داریوں، مافیاز، کارٹلز اور مارکیٹ کی طاقت کے ارتکاز کو ختم کرنا ہے جو عام معاشی بہبود کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ حکومتیںمعاشی فوائد کو مساوی اور وسیع پیمانے پر تقسیم کرتی ہیں۔ اس دوران حکومت کو سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی ملی بھگت سے انہی طاقتور مفادات کے لیے ہائی جیک کیا جا سکتا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب حکومت کو اشیا اور خدمات کی پیداوار، تقسیم اور تبادلے میں بلا روک ٹوک صوابدید کی اجازت دی جائے۔ جدت اور پیداوار میں اضافے کی بجائے محض زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہی دولت کمانے کا واحد مقصد بن کر رہ جاتا ہے۔ حکومت اس منافع خوری پر ٹیکس لگانے کی بجائے، محض اپنا بچائو کرنے کے لیے ’’بیرونی لوگوں‘‘ پر انحصار کرتی ہے جو ملک کو کمپنی میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ایسی ریاست جلد ہی معاشی خودمختاری پر کنٹرول کھو دیتی ہے۔ یہ اشرافیہ کا ماڈل پاکستان میں پچھلے 75 سال سے رائج ہے۔ اس نے اپنے شہریوں کو صرف پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کیا ہے۔ ا س کی وجہ سے کوئی ریلیف نہیں ملا۔ اسے مشترکہ ترقی کے ماڈل سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس کے فوائد چند ہاتھوں میں مرتکز نہیں ہوتے۔

آئیے اب شروع میں اٹھائے گئے اہم سوال کی طرف آتے ہیں: ہمارے ہاں اصلاحات کے نفاذ کا ریکارڈ اتنا مایوس کن کیوں ہے؟ طرزِ عمل میں عدم توازن اور ان اصلاحات پر وسیع اتفاق رائے کے فقدان کے علاوہ اور بھی کئی مجبور وجوہات ہیں جن کا تجزیہ درج ذیل پیراگراف میں کیا گیا ہے۔

1۔ ڈیزائن میں خامی: بیان کردہ مقصد کے حصول کا ایک پہلو یہ ہے کہ شہریوں کو بنیادی عوامی اشیا اور خدمات کس طرح سستی اور موثر انداز میں فراہم کی جائیں۔ اس کے لیے اصلاحات مقامی سطح پر تجویز کی جائیں کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں شہری اور حکومتی عملے کے مابین تعامل ہوتا ہے۔ چاہے وہ سیکورٹی ہو، امن و امان، بچوں کی تعلیم، خاندان کے لیے صحت کی دیکھ بھال، پینے کا پانی اور سیوریج، گلیوں اور محلوں کی صفائی، سڑکیں اور فٹ پاتھ، پبلک ٹرانسپورٹ، اسٹریٹ لائٹس، پارکس اور سہولیات، منڈی اور مارکیٹ کی جگہیں، انصاف کی تلاش اور تنازعات کا فیصلہ ہو۔ یہ تمام کام صوبائی دارالحکومتوں میں نہیں مقامی سطح پر انجام پاتے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین