• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک تبدیلی وہ تھی جس کا ڈھنڈورا 2018 سے پہلے اور آج تک عمران خان پیٹتے پھر رہے ہیں۔ وقت رفتہ رفتہ گواہی دے رہا ہے کہ اس تبدیلی کے دامن میں سوائے دروغ، دشنام، دہشت اور دھمکی کے کچھ نہیں تھا۔ یہ تبدیلی آتی تو تین سو پچاس ڈیم بنتے ، جانے کتنے ارب درخت لگتے، ہر بچے نے اسکول جانا تھا، اس ملک کے عوام کو آزادی اظہار کا حق ملنا تھا، ملک سے کرپشن کو ختم ہونا تھا، پاکستانی پاسپورٹ کو عزت ملنی تھی، دنیا کے ممالک نے ہم سے قرض کی بھیک مانگنی تھی۔ غربت ختم ہونی تھی، معیشت نے اتنی ترقی کرنی تھی کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے لوگوں نے نوکریاں چھوڑ چھوڑ کر عازمِ پاکستان ہونا تھا، ملکی خزانہ چشم زدن میں ڈالروں سے سنہرا ہو جانا تھااور ملک نے ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے کہیں کا کہیں نکل جانا تھا۔

آج ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد تبدیلی کا بخار اتر چکا ہے۔ لوگوں کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ یہ تبدیلی صرف ایک ڈھونگ اور ڈرامہ تھی۔ اس میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو غیر جمہوری قوتوں، میڈیا اور انصاف کے در کی مدد سے بے وقوف بنایا گیا۔ اس عرصے میں معیشت تباہ ہو گئی، ملکی ساکھ برباد ہو گئی، اداروں کی عزت نیلام ہو گئی، غریب کا گھر لٹ گیا، افلاس خود کشیوں پر مجبور کرنے لگا، کرپشن پہلے سے کہیں بڑھ گئی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو گیا۔ یہ عمران خان کی تبدیلی تھی جو بائیس کروڑ لوگوں کے لئے ایک بھیانک خواب ثابت ہوئی کہ اب لوگ تبدیلی کے نام سے بھی ڈرنے لگے ہیں۔

اب جب کہ لوگ تبدیلی کے نام سے بھی خائف ہیں ایسے میں نواز شریف ایک تبدیلی کے متقاضی ہیں۔ ان کی اس تبدیلی میں نہ دروغ ہے نہ دشنام ہے نہ دھمکی اور نہ ہی ڈھونگ۔ ان کی تبدیلی کا کلیہ بہت سادہ اور آسان ہے۔ نواز شریف جس تبدیلی کا ذکر کرتے ہیں وہ چند بنیادی نکات پر مبنی ہے۔ نواز شریف کا تقاضا یہی ہے کہ ووٹ کو عزت دی جائے، پارلیمان کی حرمت کا خیال رکھا جائے، سول سپرمیسی کے تصور کو بالاتر سمجھا جائے۔ آزادی اظہار کا حق سب کو دیا جائے اور غیر جمہوری قوتوں کا سیاست میں کوئی کردار نہ ہو۔ انہی نکات کی بناپر نواز شریف نے جی ٹی روڈ کا سفر اختیار کیا، اسی وجہ سے جیل کاٹی، اس جرم میں سارا خاندان اور تمام عزیز تر ساتھی پابند سلاسل رہے۔ اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود نواز شریف اپنی ہٹ پر قائم ہیں اور اپنی تبدیلی کے بنیادی نکات سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

نواز شریف نے جو کہا اور جو چاہا اس کے ثمرات ابھی تک منصہ شہود پر نہیں آئے۔ اب بھی اس ملک کے وزیر اعظم عمران خان ہیں اور ان کے جعلی اقتدار کوبظاہر کوئی خطرہ نہیں۔ چاہے کرپشن کے درجنوں کرپشن کے اسکینڈل آ جائیں، چاہے ہر وزیر ہر مشیر کسی ایک نئے جرم میں ملوث نظر آئے۔ چاہے معیشت تباہ ہو جائے، چاہے ایک پیج پھٹ ہی کیوں نہ جائے، چاہے الیکشن کمیشن کچھ بھی نہ کہے۔ چاہے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کچھ بھی کہتی رہے۔ عمران خان ابھی تک وزیر اعظم ہیں اور اپنی جھوٹی تبدیلی کے مزے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔دوسری جانب جس تبدیلی کی طرف نواز شریف کا اشارہ تھا، اس کا پھل ہمیں ابھی تک کہیں نظر نہیں آرہا۔ نہ ابھی تک ووٹ کو عزت دی گئی، نہ پارلیمان کی حرمت بحال ہوئی نہ سول سپرمیسی کی جنگ میں فتح حاصل ہوئی نہ غیر جمہوری طاقتوں کا سیاست میں عمل دخل کم ہوا۔ نہ نواز شریف بر سر اقتدار آئے نہ نئے صاف اور شفاف الیکشن ہوئے، نہ عمران خان کی تبدیلی سے قوم کو نجات ملی، نہ صحافیوں پر قدغنیں ختم ہوئیں، نہ عدلیہ کے در انصاف کے لئے کھلے۔ نواز شریف کا نظریہ تبدیلی عمران خان کی تبدیلی سے یکسر مختلف ہے۔ نواز شریف کسی انقلاب کے داعی نہیں۔ لیکن ان کی تبدیلی نے لوگوں کی شعوری سطح کو ضرور جھنجھوڑا ہے۔ ان کو چوہتر سال کی تاریخ یاد کروائی ہے۔ ان کی توجہ تاریخ کی بڑی غلطیوں کی طرف دلائی گئی ہے۔ عوام کو ان کے بنیادی حقوق یاد کروائے گئے ہیں۔ ان کی سوچ کے دھارے کو ایک مختلف سمت موڑا گیا ہے۔ ان کو آئین کی حرمت کا درس دیا گیا ہےاور ان کو آبرو سے جینے کا سیلقہ سکھایا گیا ہے۔

یہ تبدیلی کسی سونامی کی طرح معاشرے کو دریا برد نہیں کرے گی بلکہ اس کے اثرات بہت دور رس ہوں گے۔ شعور کی جو لہر اس ملک میں آ چکی ہے اب اس سے جان چھڑانا غیر جمہوری قوتوں کے بس کی بات نہیں۔ یاد رکھیے جس معاشرے میں ایک دفعہ احساس محرومی در آئے اس معاشرے سے اس احساس کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے صرف چند سال میں اس سماج کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ وہ خوف جو سارے معاشرے پر طاری تھا لوگ اب اس خوف سے باہر نکل رہے ہیں۔ وہ رکاوٹیں جو آزادی اظہار کے راستے میں حائل تھیں لوگ اب ان رکاوٹوں کو سوشل میڈیا پر عبور کر رہے ہیں۔ درِ انصاف ہو یا ریاست کے اہم ستون سب جانتے ہیں کہ نواز شریف جس تبدیلی کا ذکر کررہے ہیں وہ اس معاشرے میں وقوع پذیر ہو چکی ہے۔ اب اس کے ثمرات عوام تک پہنچنے میں دیر ہو سکتی ہے مگر اندھیر نہیں مچ سکتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین