دنیا میں موجود جاندار مخلوقات اور ان کا نظامِ زندگی سمجھنے کے لیےانسان ہمیشہ سے کوشاں رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں نئے تعلیمی مضامین نئے انکشافات کے ساتھ آتے رہتے ہیں ۔حیاتی کیمیا ایک ایسا ہی مضمون ہے، جس نے جانداروں کے اندر ہونے والے تمام کیمیائی عملیات کو سمجھنے اور معلومات اکھٹی کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ آج کی طبی سائنس اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح سے اس مضمون کے ذریعے دیگر مضامین ابھر کر سامنے آئے اور آج ہر مضمون ایک الگ میدان اورتحقیق کو جنم دے چکا ہے ۔
مثال کے طور پر جینیاتی ، سالمانی ، لحمیاتی اور دیگر علوم اب اپنے آپ میں مکمل موضوع بن چکے ہیں۔ان موضوعات میں ہونے والی تحقیق ہر روز نئے انکشافات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں ۔ تکسیدی دبائو ایک ایسا عمل ہے جو ہر جاندار میں خلیاتی سطح پر ہو تا ہے ۔ یہ عمل آکسیجن ایٹم کی دو حالتوں کے درمیان غیر متوازن ہونے کی وجہ سے ظہور پذیر ہو تا ہے ۔ عام حالت میں موجود آکسیجن جب کیمیا عمل کے نتیجے میں ضمنی آکسیجن کی صورت اختیار کر تی ہے تو یہ ایک انتہائی رد عمل رکھنے والی آکسیجن ہوتی ہے جو فوراً بے اثر بنا دی جاتی ہے۔
اگر اس رد عمل رکھنے والی آکسیجن کو خلیاتی طور پر بے اثر نہیں کیا جاتا تو اس کی وجہ سے جو دبائو جنم لیتا ہے ۔اس کو تکسیدی دبائو کہا جاتا ہے، عام طور سے یہ دبائو نہ ہونے کے برابر ہو تا ہے اور جسمانی طور پر اہم افعال انجام دیتا ہے ۔ اگر یہ دبائو بڑھ جائےتو اس کی وجہ سے مختلف بیماریاں ظاہر ہوسکتی ہیں ۔ مثال کے طور پر سرطان ، دل اور خون کی شریانوں کی بیماری ، دماغی بیماریاں جو چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھے تک کو ہو سکتی ہیں اور چھوٹی بیماری جیسے نفسیاتی دبائو یا افسردگی ۔
یہ انتہائی رد عمل رکھنے والی آکسیجن اگر خلیاتی نظام کے تحت بے اثر نہیں ہو تو اس کا اثر خلیوں میں موجود لحمیات ، چربی اور جینیاتی مواد پر پڑتا ہے جو کہ آکسیجن کے ساتھ کیمیائی عمل میں جا کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتے ہیں ۔ یو ں جسمانی یا اعضاء کے خلیات بھی سکڑ کر ختم ہو نا شروع ہو جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت ساری بیماریوں میں تکسیدی دبائو کو جانچا جاتا ہے ۔ چھاتی کا سرطان عورتوں میں پائے جانے والی بیماریوں میں سب سے زیادہ ہونے والا سرطان ہے جو مرض کی حالت اور دنیا بھر میں سرطان سے ہونے والی اموات میں دوسرے نمبر پر ہے۔
اس بیماری کی وجوہات اور آگے بڑھنے کے عمل میں کثیر العوامل اسباب شامل ہوتے ہیں جن میں سے ایک تکسیدی دبائو بھی ہے۔ یہ دبائو نہ صرف سر طانی خلیات بڑھانے میں مدد کر تا ہے۔ بلکہ ان خلیات کی بقا اور علاج سے مزاحمت میں بھی اہم کر دار ادا کر تا ہے ۔ ایشیائی خطے میں اور بالخصوص پاکستان میں چھاتی کے سرطان کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے پروٹیومکس سینٹر ، جامعہ کراچی میں کی جانے والے ایک تحقیقی مطالعے میں اس بات کو جانچنے کی کوشش کی گئی کہ تکسیدی دبائو کا چھاتی کے سرطان کے مریضوںمیں کس طرح کا عمل دخل ہے۔
عام طور سے جینیاتی تبدیلیوں کی معلومات کسی بھی سرطان کی نشو نما اور افزائش کی نشاندہی کرنے کے لیے ممکنہ معاون کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں ۔ یہ تبدیلیاں دراصل مختلف لحمیات یا خامروں کی سطح پر خلیات میں ظاہر ہوتی ہیں ۔ پیرا اوکسینیز ایک کیلشیم پر منحصر خامرہ ہے جو تکسیدی نقصان سے بچائو فراہم کر تا ہے۔ اس خامرے کی فعالیت میں کمی بہت سی بیماریوں بشومل چھاتی کے سرطان سے وابستہ ہے۔ اس تحقیقی مطالعے میں پیرا اوکسینیز خامرے میں جینیاتی تبدیلی اور تکسیدی دبائو کے مار کر کی پیمائش کی گئی۔
یہ مشاہدہ کیا گیا کہ چھاتی کے سرطان کے مریضوں میں تکسیدی دبائو زیادہ ہو تا ہے اور پیرا اوکیسنیز خامرے کی فعالیت میں کمی موجود ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مشاہدہ بھی کیا گیا کہ خامرے میں ایک خاص جینیاتی تبدیلی بھی موجود ہے جو کہ صحت مند خواتین سے حاصل شدہ نمونوں میں موجود نہیں تھی ۔ اسی طرح کے ایک اور تحقیقی مطالعے میں جوڑوں کی سوزش والے مریضوں کو شامل کیا گیا ۔ جوڑوں میں داد اور سوجن کی بہت ساری اقسام ہیں جن میں ورم مفصل و عظم (اوسٹیو آرتھرائٹس ) بھی شامل ہے۔
جوڑوں کی یہ بیماری عام طور سے بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے رونما ہوتی ہے ۔ اس بیماری کی وجہ سے جوڑوں میں موجود چبنی ہڈی کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے، جس کے بعد ثانوی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن میں سوزش ، ہڈی کے گودے کا گھائو اور ذیلی ہڈی کا دوبارہ تشکیل ہو نا شامل ہے ۔ بیماری کی بہت ساری وجوہات میں عمر ، جنس ، موٹاپا اور تکسیدی دبائو شامل ہیں ۔ اس مطالعے میں مریضوں میں غیر تکسیدی عوامل کی پیداوار کی پیمائش اور قدرتی طور پر پائے جانے والے پیرا اوکیسنیز کی تکسیدی خصوصیات پر توجہ مرکوز کر نا تھا ۔
تحقیق کے دوران صحت مند افراد اور ورم مفصل و عظم کے مریضوں میں تکسیدی دبائوکے مار کر اور پیرا اوکسینیز خامرے کی موجودگی اور فعالیت کو جانچا گیا ۔ مجموعی طور پر نتائج سے یہ اخذ کیا گیا کہ تکسیدی دبائو میں اضافہ اور خامرے کی موجودگی اور فعالیت میں کمی مریضوں میں بیماری کے اضافے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ دونوں مطالعے دو بالکل مختلف قسم کے مریض پر کئے گئے اور دونوں دفعہ یہ بات سامنے آئی کہ تکسیدی دبائو کی موجودگی نہ صرف بیماری کا ہونا ظاہر کررہی ہے بلکہ اس میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہے ۔
قلبی امراض کی بات کی جائے تو دراصل یہ بیماری کثیر العوامل اسباب کی وجہ سے ہوتی ہے جن میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ کو کیسٹرول کا بڑھنا، بلند فشار خون، تمباکو نوشی کی عادت ، غیر متوازن غذا ، ذیابطیس ، تنائو اور ایک غیر متحرک زندگی شامل ہیں۔ پچھلے سالوں کے دوران تحقیقی اعدادو شمار نے یہ نشاندہی کی ہے کہ تکسیدی تنائو کو بھی دل کی بیماری میں بنیادی یا ثانوی وجہ سمجھنا چاہیے۔
تکسیدی دبائو بنیادی طور پر دل کی شریانوں میں روکاوٹ پیدا کرنے والے عوامل کے محرک کے طور پر کام کرتا ہے، کیوں کہ یہ بات مشہور ہے کہ خون کی شریان میں ابتدائی رکاوٹ دراصل شریان کے اندرونی خلیات میں سوزش سے شروع ہوتی ہے۔ اس سوزش کے نتیجے میں رد عمل آکسیجن پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے جو خون میں موجود کم کثافت والے شحمی لحمید (لو ڈینسٹی لیپو پروٹین ) سے کیمیائی طور پرمل جاتی ہے اور ایک چھوٹا سا ابھار بنادیتی ہے ،جس پر مزید شحمی لحمیات اور کولیسٹرول وغیرہ جمنا شروع ہوجاتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ چھوٹا سا ابھار ایک بڑی رکاوٹ کی شکل اختیار کرنی شروع کردیتا ہے جوکہ خون کی شریان کو مکمل طور پر بند کردیتا ہے ۔ یہ بات مختلف تحقیقی مطالعات سے ثابت کی جاچکی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تکسیدی دبائو دل کی بیماریوں کی ایک اہم وجہ ہے ،اسی طرح اگر اعصابی بیماریوں کی بات کی جائے تو وہاں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف بیماریوں میں جیسے پارکنشز کی بیماری ، الزائمر کی بیماری ، سکلیروسس افسردگی اور یادداشت کی کمی جیسی خرابیوں میں تکسیدی دبائو سے ہونے والے نقصان ایک اہم وجہ ہے، رد عمل آکسیجن کی وجہ سے دماغ کے خلیات میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو زہریلے پیپٹا ئد اور دیگر کیمیاء عمل کو شروع کرنے کا سبب بنتی ہیں۔
ان عوامل کا نتیجہ دماغی اور اعصابی بیماریوں کی شکل میں نکلتا ہے ۔ گردے بھی اس تنائو سے منفی طور پر متاثر ہوسکتے ہیں۔تکسیدی تنائوکی وجہ سے پیدا ہونے والی سوزش خون میں موجود ان خلیات کو اپنی طرف کھینچتی ہے جو سائٹوکاٹن اور دیگر کیمیائی سالحے پیدا کرتے ہیں اور سوزش کو بڑھادیتے ہیں۔ یہ عمل اس لیے ہوتا ہے کہ جسم میں ہونے والی خرابی کا پتہ چل جائے اور علاج ہوسکے لیکن اگر اس طرح کے عوامل کو نظر انداز کردیا جائے تو پھر یہ خرابی بڑھ جاتی ہے اورایک بڑی بیماری کی صورت میں آخر میں ظاہر ہوتی ہے ۔ یہاں یہ بات بتا نا مقصود ہے کہ تکسیدی دبائو جانداروں میں موجود ایک خود کار نظام ہے جو روزمرہ حیاتی کیمیائی عمل کا حصہ ہے۔
جسم کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ اس دبائو کے پیدا ہونے کے بعد اس کا تدراک بھی خود ہی ہوجائے ۔ اس طرح سے تکسیدی اورغیر تکسیدی عوامل کے درمیان ایک توازن قائم ہے ۔یہ توازن برقرار رہتا ہے تو تمام حیاتی عوامل ٹھیک انداز میں چلتے رہتے ہیں ۔ اگر یہ توازن کسی صورت بگڑ جائےتو پھر مختلف بیماریا ں جنم لینا شروع کرتی ہے ۔ اورارتقائی طور پر دیکھا جائے تو دراصل یہ پانی میں پیدا ہونے والے وہ پہلے بیکٹیریا تھے جنہوں نے زمین کے ماحول کو آکسیجن پیدا کر کے ایک آکسیجن ذر خیز ماحول میں تبدیل کردیا تھا اوراسی دبائو کے نتیجے میں دیگر جاندار وں نے اپنا اپنا خلیاتی نظام آکسیجن کی موجودگی سے ہم آہنگ کرکے اپنی بقاء کا انتظام شروع کردیا جو آگے جاکر موجودہ دور کے جانداروں کی صورت میں دنیا میں موجود ہے ۔ یہ نظام نہ صرف ہوا میں موجود آکسیجن کو انتہائی موثر انداز میں استعمال کا حامل ہے بلکہ تکسیدی دبائو کا عمل بھی اپنائے ہوئے ہے۔
تحقیقی مشاہدات اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انسان کے جسمانی نظام میں اس تنائو کا اہم عمل دخل ہے متوازن تکسیدی تنائو جہاں ایک صحت مند فرد کی علامت ہے وہیں اس دبائو کی زیادتی کسی نہ کسی خرابی یا بیماری کا عندیہ دے رہی ہوتی ہے ۔ اگر ہم اس عمل کو عمدہ طریقے سے قابو کرنے اور متوازن رکھنے کے قابل ہوجائیں گے تو اسے علاج کے لئے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جاسکے گا۔