جنوری کے آخری دس دنوں میں متحدہ عرب امارات کو دو مرتبہ یمن کے حوثی باغیوں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلا ابوظبی کی تیل تنصیبات پر ہوا، تو دوسرے میں اُسی شہر کے امریکی فوجی اڈّے کو نشانہ بنایا گیا، جہاں دو ہزار امریکی فوجی تعیّنات ہیں۔ پہلا ڈرون حملہ تھا، جب کہ دوسرے میں حوثی دعوے کے مطابق، بیلیسٹک میزائل داغے گئے۔ان حملوں میں ایک پاکستانی سمیت 3 افراد جاں بحق اور 25 زخمی ہوئے، جب کہ تیل کے ٹینکرز میں بھی آگ بھڑک اُٹھی۔
امریکی اڈّے پر ہونے والے حملے سے کوئی نقصان نہیں ہوا کہ میزائل فضا ہی میں تباہ کردیا گیا تھا۔ یاد رہے، امریکا نے پیٹریاٹ دفاعی نظام، جو میزائل حملوں کے خلاف جدید ترین دفاعی نظام تصوّر کیا جاتا ہے، سعودی عرب، قطر، کویت اور متحدہ عرب امارت کو فراہم کیا ہے۔ یہ نظام عرب ممالک کے فضائی دفاع میں سب سے اہم ہے۔ صدام حسین کے سعودی عرب پر حملے کے وقت یہ نظام ان ممالک میں نصب کیا گیا تھا۔سعودی عرب کی آرامکو تیل ریفائنری پر حوثی باغیوں کے حملے ناکام بنانے میں اس دفاعی نظام نے کلیدی کردار ادا کیا۔
خلیجی اتحاد کی طرف سے، جس میں چھے ممالک شامل ہیں، حوثی باغیوں کے خلاف جوابی کارروائی کی گئی۔خاص طور پر سعودی عرب نے اُنھیں بھرپور فوجی جواب دیا۔عرب امارات کی جانب سے بتایا گیا کہ اُس کے ایف۔16 لڑاکا طیاروں نے یمن کے الجاف صوبے میں حوثی باغیوں کا میزائل لانچر تباہ کردیا، جس کی فوٹیج بھی میڈیا کو جاری کی گئی۔ حوثیوں نے مزید حملوں کی بھی دھمکی دی ہے۔
یمن2015 ء سے انتشار سے دوچار ہے، جب حوثی باغیوں نے ایک منتخب صدر کو بزورِ طاقت اقتدار سے بے دخل کر کے دارالحکومت صنعا اور دیگر کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔چھے خلیجی ممالک یمن کی منتخب حکومت کی حمایت کر رہے ہیں اور حوثی باغیوں سے برسرِ پیکار ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق اس خانہ جنگی میں ڈیڑھ لاکھ افراد ہلاک ہو چُکے ہیں۔
حوثی باغیوں کے اِن حملوں کی ٹائمنگ پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ آخر نئے سال کے آغاز پر خطّے یا یمن تنازعے میں ایسا کیا نیا ہوا کہ حوثیوں نے عرب امارت پر دھاوا بول دیا اور اُنہوں نے اِس بات کی بھی پروا نہیں کی کہ اِس طرح کا حملہ امریکا سے براہِ راست فوجی ٹکرائو کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ خطّے اور متصل ممالک کی طرح پاکستان نے بھی متحدہ عرب امارات کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے حملوں کی شدید مذمّت کی۔
یمن کے حوثی باغیوں کے ان حملوں سے خطّے کی صُورتِ حال ایک بار پھر سنگین ہوگئی کہ معاملات خاموش ڈپلومیسی کے سبب بہتری کی طرف بڑھ رہے تھے۔متحدہ عرب امارات کا عرب دنیا کے سب سے محفوظ علاقوں میں شمار ہوتا ہے اور وہاں بڑی تعداد میں غیر مُلکی بھی روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں، جن میں 15 لاکھ پاکستانی بھی ہیں، جو وہاں کی مجموعی آبادی کا 13 فی صد ہیں۔
بھارت کے بعد یہ سب سے بڑا تارکینِ وطن کا گروہ ہے۔ عرب امارات بین الاقوامی تجارت اور لین دین کا مرکز مانا جاتا ہے۔ وہاں کے حکم رانوں نے اس کی اسی طرز پر تعمیر کی ہے اور اسے عالمی مرکز بنانے کے لیے پالیسیز بھی بنائی ہیں۔یوں یہاں ہر قوم اور مذہب کا فرد اپنی مہارت اور ضرورت کے لحاظ سے کام کرتا ہے۔پاکستانی وہاں سے سالانہ10 ارب ڈالرز اپنے مُلک بھیجتے ہیں۔اگر عرب ممالک میں دبئی کو پاکستانیوں کا دوسرا گھر کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ایک زمانے میں’’ چلو چلو، دُبئی چلو‘‘ پاکستانیوں میں انتہائی مقبول اور پُرکشش نعرہ تھا۔
پھر یہ کہ عرب امارات ہمارا مصیبت کے وقت کام آنے والا دوست بھی ہے۔ وزیرِ اعظم، عمران خان کی حکومت شدید معاشی بحران کا شکار ہوئی، تو یو اے ای نے دو ارب ڈالرز کی فوری امداد فراہم کی اور دو سال بعد اُسے رُول اوور بھی کردیا، یعنی رقم واپس بھی نہیں مانگی۔ کورونا اور تیل کی کم قیمتوں کے دَور میں یہ ایک بہت بڑی اور فراخ دلانہ امداد تھی۔ جنھیں کورونا دَور کی معیشت سے کچھ واقفیت ہے، وہ اس امداد کی اہمیت زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ہمیں ایک شُکر گزار قوم کے طور پر اپنے ان دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے۔
جب کبھی وزیر یا لاعلم تبصرہ نگار ان دوستوں پر بے جا تنقید کرتے ہیں، تو بہت دُکھ ہوتا ہے اور یہ رویّے دوستیوں میں دراڑ کا بھی سبب بنتے ہیں۔ واضح رہے، ہر مُلک کی اپنی خارجہ اور معاشی پالیسی ہوتی ہے، جسے سامنے رکھ کر ہی بیانات دینے چاہئیں، یہ نہیں کہ افواہوں یا کہانیوں پر جذباتی بیانات داغ دیے جائیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نازک اور حسّاس بیرونی تعلقات پر بھی بے سروپا’’ ماہرانہ رائے‘‘ کا اظہار معمول بنتا جا رہا ہے۔افسوس کہ ہم نے اپنے بدترین معاشی حالات سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔حالاں کہ جب اس فضول اور بے وقوفانہ بیان بازی کے نتائج سامنے آتے ہیں، تو پھر ہمارے لیے اپنا کشکول بَھرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
متحدہ عرب امارات ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے اور تیل کم ہونے کے باوجود یہ خاصی خوش حال ہے کہ اسے بین الاقوامی مارکیٹ کا درجہ حاصل ہے۔اُس کی فضائی کمپنی دنیا کی بہترین اور مصروف ترین کمپنیز میں سے ایک ہے۔اسی طرح اس کے پورٹ بھی ہر وقت سامان کے کنٹینرز سے بَھرے رہتے ہیں، جہاں سے وہ یورپ، افریقا، ایشیائی ممالک اور نیوزی لینڈ تک جاتے ہیں۔ یہی اس کی خوش حالی کا راز ہے ۔کوئی شک نہیں کہ کورونا کے دو سالوں میں اسے شدید اقتصادی دبائو کا سامنا رہا اور روزگار کے وہ مواقع نہیں رہے، جو پہلے کبھی ہوا کرتے تھے۔
تاہم وہاں کے حکم رانوں نے اقتصادی اور خارجہ پالیسی میں کچھ ایسی تبدیلیاں کیں، جن سے اس کی سابقہ پوزیشن برقرار رہنے میں مدد مل سکتی ہے۔اگر یو اے ای خلیجی اتحاد کا حصّہ ہے، تو اس کے قطر اور ایران سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔ پاکستانیوں کے ساتھ وہاں لاکھوں بھارتی باشندے بھی موجود ہیں اور بھارت نے وہاں بڑی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔دوسرے الفاظ میں متحدہ عرب امارات نے اپنے معاشی اور تجارتی مفادات کو اوّلیت دیتے ہوئے شروع ہی سے ایک متوازن پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
یعنی سب سے دوستی اور کسی سے بھی دشمنی نہیں، کیوں کہ اس کا ہدف خطّے کا معاشی حب بننا تھا، جس میں وہ کام یاب رہا، خاص طور پر لبنان کی تباہی کے بعد اُس کا یہ کردار بے حد اہم ہوگیا۔ اس کی غیر جانب دارانہ پالیسی کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچز کا کوئی تنازع ہو، تو دونوں ممالک امارات کو متبادل کے طور پر قبول کرلیتے ہیں۔ حوثی باغیوں نے یو اے ای کی خوش حالی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔
حوثی باغیوں کی طرف سے دھمکی سامنے آئی، جس میں غیر مُلکی ملازمین، کمپنیز اور سرمایہ کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ’’ وہ عرب امارات سے چلے جائیں، کیوں کہ اب یہ مُلک غیر محفوظ ہوگیا ہے۔‘‘لیکن دنیا یو اے ای کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سعودی اور اماراتی اتحادیوں کو حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ وہ ان کا دفاع مضبوط تر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔صدر جو بائیڈن نے پہلے حملے کے بعد کہا تھا کہ وہ حوثی باغیوں کو دہشت گرد گروپس میں دوبارہ شامل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
یمن دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے، جس کا زیادہ تر حصّہ سعودی عرب کی سرحد سے ملتا ہے، جب کہ اس کا دارالحکومت صنعا، ابوظبی سے پندرہ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ اگر امارات اُس پر حملوں میں شامل رہا، تو اُسے جوابی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔شاید اِن حملوں کا مشرقِ وسطیٰ میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں سے براہِ راست تعلق ہے۔ درحقیقت، حوثی باغی ایک جارحیت پسند ملیشیا ہے، جسے ایران کی مدد حاصل رہی ہے۔
سعودی عرب اور خلیجی اتحاد الزام لگاتے رہے ہیں کہ ایران، حوثی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرتا ہے، جن میں ڈرون اور میزائل بھی شامل ہیں۔ خلیجی ممالک ماضی میں اپنی تیل کی اہمیت کے سبب امریکا اور یورپ کے اتحادی رہے، اِسی لیے قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں کئی امریکی فوجی اڈّے ہیں، جنہیں وہ علاقے میں اپنی برتری، دھاک اور فوجی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتا ہے، لیکن امریکا نے اوباما دَور سے کہنا شروع کردیا کہ اُس کے مشرقِ وسطیٰ میں مفادات کم ہوگئے ہیں اور اِسی لحاظ سے اُس کی دِل چسپی بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
اس تبدیلی کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اب امریکا میں بھی عرب ممالک کے برابر تیل نکلنے لگا ہے۔ امریکا پہلے شام سے گیا اور پھر اُس کا عراق سے انخلا ہوا۔نیز،فوجی اڈّوں پر فوجیوں کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے۔ اس انخلاء یا اڈّوں پر فوجیوں میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سمندر میں موجود اپنے سات فلیٹس سے دنیا میں کہیں بھی کارروائی کرنے صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران سے نیوکلیئر ڈیل کے معاملے پر عرب ممالک کو بہت سی شکایات تھیں اور اُنہیں یقین تھا کہ ایران اس ڈیل کے ذریعے علاقے میں برتری حاصل کرلے گا۔
ٹرمپ کے زمانے میں ایک طرف تو ان دیرینہ عرب حلیفوں سے تعلقات بہتر ہوئے، تو دوسری انقلابی تبدیلی یہ آئی کہ اسرائیل کے امریکی نگرانی میں عرب ممالک سے تعلقات قائم ہونے شروع ہوگئے۔متحدہ عرب امارات وہ پہلی ریاست تھی، جس نے اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کیے، جس کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم نے دبئی کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت، ٹیکنالوجی اور دفاع سے متعلق بہت سے اہم معاہدے بھی طے پائے۔یوں سعودی عرب سے مراکش تک اسرائیل کے اثرات گہرے ہوتے جارہے ہیں۔
خطّے میں ایک تبدیلی یہ بھی آ رہی ہے کہ حوثی باغیوں کے اہم اور واحد حلیف، ایران کے سعودی عرب سے تعلقات معمول پر آ رہے ہیں، اِس سلسلے میں اعلیٰ ترین سطح پر اہم پیش رفت ہوئی ہے اور توقّع کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی وقت سفارتی تعلقات قائم ہو جائیں گے۔یقیناً ،سعودی عرب اور خلیجی ممالک چاہیں گے کہ ایران کم ازکم پہلے قدم کے طور پر حوثی باغیوں کو امن مذاکرات کی طرف لائے۔
یاد رہے، شام کے معاملے میں سعودی عرب نے بڑی حد تک ایران کی حامی، اسد حکومت کی مخالفت کم کردی ہے۔ ایران سے یہ بھی مطالبہ ہوگا کہ وہ حوثیوں کو اسلحے کی فراہمی بندکر دے، خاص طور پر ڈرون اور میزائل تو بالکل بھی نہ دئیے جائیں۔کیوں کہ اگر خلیجی ممالک کے شہر اور تنصیبات اسی طرح حوثی باغیوں کے خطرے میں رہیں اور اُنھیں ایران کی مبیّنہ حمایت اور اسلحہ ملتا رہے، تو بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔شاید یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے عرب، ایران مذاکرات کی کام یابی کی خبریں آرہی ہیں، حوثی باغیوں کے لیے آپشن کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اگر امریکا علاقے سے چلا بھی گیا اور وہ کسی فوجی کارروائی سے اجتناب کرتا ہے، تب بھی اسرائیل جیسا طاقت وَر مُلک خطّے میں موجود ہے، جو عربوں کا نیا دوست بنا ہے۔اُس کے پاس وہ فوجی صلاحیت موجود ہے، جس سے حوثیوں کو شدید نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔گو کہ ایران، اسرائیل کا دشمن ہے، لیکن وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اُس کی عربوں سے دوستی دائو پر لگے۔
تہران نے آج تک علاقے کی اپنی ہم خیال ملیشیاؤں کی ہتھیاروں کی شکل میں مدد تو کی، لیکن اُس کا کبھی براہِ راست اسرائیل سے فوجی تصادم نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اُس کے ایٹمی پلانٹ کو دو بار ناکارہ بنایا، اُس کے نام ور ایٹمی سائنس دان کو ہلاک کیا، شام میں اس کی حمایت یافتہ ملیشیائوں پر شدید حملے کیے، لیکن پھر بھی ایران نے بیانات کے علاوہ اسرائیل کے خلاف کوئی براہِ راست فوجی قدم نہیں اُٹھایا۔
تو اب ،جب کہ عربوں اور اسرائیل میں سفارتی تعلقات قائم ہوچُکے ہیں، تو وہ اُس کے خلاف کوئی کارروائی مشکل ہی سے کرے گا۔مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی ایک اور طاقت ،تُرکی بھی سعودی عرب سے تعلقات معمول پر لارہی ہے، جب کہ اُس نے اسرائیل سے بھی تعلقات بہتر کرنے کے اقدامات شروع کردیے ہیں، جن میں وہاں سفیر کی تعیّناتی پہلا قدم تھا۔
حوثی باغیوں پر اب سعودی، ایران دوستی اور عرب، اسرائیل تعلقات کی وجہ سے شدید دبائو آچُکا ہے۔ یعنی اُن کے لیے حالات یک سَر تبدیل ہوچُکے ہیں۔ حملوں سے یوں لگتا ہے کہ حوثی ملیشیا کی خواہش ہے کہ یمن کے تنازعے کا کوئی ایسا حل نکل سکے، جس میں اُن کا شیئر بھی موجود ہو، اِسی لیے وہ متحدہ عرب امارات پر حملوں کے ذریعے اپنا دبائو اور اہمیت بڑھا رہے ہیں۔