لینڈ سلائیڈ یا قطہ زمین کا پھیلنا ایک ایسے قدرتی عمل سے وابستہ ہوتے ہیں، جس کے ماتحت کوہستانی خطوں میں موجود بڑی بڑی چٹانوں کے بلاکس اور تودیں خود بخود اونچائی سے زبردست قوت کے ساتھ زمین کی سطح پر پہاڑوں کے دامن میں پہنچ جاتے ہیں۔
بظاہر تو یہ حرکت اچانک رونما ہوتی ہیں لیکن پہاڑی تودوں کو متحرک کرنے کی ابتداء زمین کی تخلیق کے فوراً بعد سے ہر لمحہ جاری ہے۔ پیدائشی طور پر چٹانیں اپنے مقام اور قیام کے حوالے سے ہر اعتبارسے پختہ، مستحکم اور جمود و سکوت میں ہوتی ہیں لیکن علاقے کی آب و ہوا اور موسمی اثرات کے کارندوں کی تخریبی عمل روز اول سے اسے غیر مستحکم کر کے متحرک کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔
خاص طور پر بارش اور برف باری کےبعد یہ عوامل ’’عمل انگریز‘‘ (Catalyst) کی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں ،جس کی وجہ سے چٹانی جسم کے اندر موجود جوہروں یا ذرّات کے قدرتی سالماتی بندش(natural molecular bonding)کی گرفت کمزور ہو جاتی ہے۔ نتیجے میں چٹانیں چٹخ جاتی ہیں جو دراڑ،جوڑ اور شگاف کی شکل میں تبدیل ہو جاتی ہیں، جو تسلسل سے جاری رہتا ہے،پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب کمزور چٹانیں اپنا قدرتی توازن برقرار نہیں رکھ سکتیں اور دیکھتے ہی دیکھتے براعظم یعنی خشکی کا ایک وسیع قطعہ زمین کی چٹانی بلکہ کئی کئی ٹن کے تودے مٹی اور دیگر ملبے قوت مزاحمت (force of resistance) پر بھاری پڑ جاتے ہیں۔
چناں چہ تمام اجزا اور ملبے دفعتاً بلندی سے پستی کی طرف ڈھلوان پر تیز رفتاری کے ساتھ رگڑ کھاتے ہوئے پھسلنا شروع کر دیتے ہیں، جس کی منزل آخر کار نیچے موجود آبادی اور شاہراہیں ہوتی ہیں۔ یہ حرکت ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ کہلاتی ہیں جسے مجموعی طور پر ’’ماس ریٹنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ابتداء میں یہ عمل سست اور بتدریجی ہوتا ہے اسی وجہ سے قبل از تاریخ کے انسانوں کو اس کا احساس نہیں ہو سکا۔
علم و فکر اور سائنسی شعور سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے پہاڑی اور دامن کوہ کو بود و باش کے حوالے سے محفوظ تسلیم کرکے گزر بسر کا آغاز کر دیا۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی اس طرح کے علاقوں میں اس طرز زندگی کو مزید تقویت حاصل ہوئی یہاں تک کے دور حاضر کے سائنسی شعور رکھنے والے افراد نے بھی اس طرز زندگی کو جدید پیمانے پر اپنالیا بلکہ بعض ریاست نے تو ملک بوس عمارتیں بھی تعمیر کرلیں ،تا کہ سیاحت کو فروغ دیا جا سکے لیکن ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جب ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ کے نتیجے میں قریبی شہروں، قصبوں میں موجود مکانات اور بلند و بالا عمارتیں، رہائشی سمیت روئے زمین سے مٹ گئے یا پھر شدید جانی و مالی نقصان ہوا۔
وہاں البتہ وہ ممالک جو اس قدرتی آفات سے نبردآزما ہونے کے لئے پوری طرح جدید آلات، ماہرین اور دیگر وسائل سے پوری طرح لیس تھے،انہوں نے کافی حد تک اس پر قابو پالیا ہے۔ مثلاً 1978ء میں برف باری کے بعد وقوع پذیر ہونے والے ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ نے چین کے ’’کانسو‘‘ (Kamsu) صوبہ کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیا ،جس سے کم و بیش دو لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ 1970 میں نیواڈو حسکرین پیرو (Navato Hascainan Peru) کے پہاڑی علاقوں میں برف باری اور بارش کے بعد ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ نے 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دو قصبوں کو ملبے کے نیچے دفن کر دیا ،جس سے 18000 ہزار افراد کی جان چلی گئی۔
اس ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے کچھ حصے 250 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھسلتے ہوئے اطراف میں موجود شاہراہ کو مکمل تباہ کردیا۔ لیکن 8مئی 1980 میں تاریخ کا سب سے بڑا ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ اس وقت پیش آیا جب’’مائونٹ اسٹریٹ ہلسن واشنگٹن‘‘کے شمالی حصہ میں موجود 2.8kmحجم رکھنے والی قطعہ زمین دفعتاً پھسل کر زبردست ولاسیٹی (velocity) کے ساتھ ملحقہ آبادی اور شاہراہوں پر جاگری لیکن آبادی کی ایک بڑی تعداد کو کنٹرول کرنے والے اداروں نے خطرے کے پیش نظر ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ کے ابتدائی مرحلہ میں ہی کسی دوسری جگہ منتقل کردیا۔
قدرتی عوامل کے علاوہ انسان کی اپنی کارکردگی کی وجہ سے بھی ’’سلائیڈنگ‘‘ عمل جنم لیتا ہے۔ مثلاً دسمبر 2003ء ’’سینٹرل فلپائن‘‘ میں اس وقت پیش آیا جب شدید بارش اور برف باری نے مٹی اور مڈ کو بری طرح متاثر کیا، جس کی وجہ غیر قانونی طریقے سے خطہ میں موجود لکڑیوں کے کنڈنی (lagguing) کا حصول تھا۔ اسی طرح 1972 میں بارش اور شدید برف باری کے بعد (ہانگ کانگ) ڈھلوانی کے زاویہ میلان میں تعمیرات اور شاہراہ کی تعمیر کے دوران مزید اضافہ کر دیا گیا تو ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ کا عمل سامنے آیا۔
پہاڑی خطوں میں چٹانیں چٹخنے اور غیر مستحکم ہونے کے بعد بھی سکون و جمود کی حالت میں ہوتے ہیں لیکن ایک طرف شائستہ چٹانی بلاکس اور دوسری طرف ان کے واسطوں کے درمیان طبعی اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں جو اس شکستہ اجسام کی حرکت کا سبب بنتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم تصور عمل تراشی (Shearing) کا ہے۔
آسان الفاظ میں عمل تراشی سے مراد بگاڑ کی وہ اہمیت ہے جو کسی جسم میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس پر خارجی قوت اثر انداز ہو اور جس کے نتیجے میں وہ متعدد اجسام میں منقسم ہو کر متعدد متوازن سطحوں کے ساتھ ساتھ حرکت کرنے کے قابل ہو جائے۔ ان سطحوں کو جن پر یہ حرکت کا عمل واقع ہوتا ہے۔ اسے تراشی سطح کا نام دیا جاتا ہے۔ تمام ٹھوس اجسام میں ’’شیرنگ‘‘ کے خلاف ایک فطری مزاحمت پائی جاتی ہے جو حرکت کے اس عمل کو روکتی ہے ۔وہ خارجی قوت (external impulsive force) اس داخلی عمل پر غالب نہ آجائے ٹھوس اجسام میں حرکت پیدا نہیں ہوتی۔
یہ چٹانی ملبے عموماً ایک دی ہوئی سطح پر سکون و جمود کی حالت میں موجود اور برقرار رہتے ہیں اور یہ سکون و جمود خالصتاً کشش کے نتیجہ میں قائم رہتا ہے۔ اگر سطح افقی ہو تو ان میں سے ہر ذرّہ براہ راست کشش ثقل کے عمودی جز (Vertical Component) کے تابع ہوتا ہے لیکن اگر سطح مائل (ڈھلوان) ہو تو اس پر دو قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ جن میں ایک کشش ثقل کا ’’عمودی جز اور دوسرا اس کا ’’مماسی جز‘‘ (Tengential component) جیسے جیسے اس سطح کا میلانی (inclination) بڑھے گا۔ یہ ’’مماسی جز‘‘ اس ’’عمودی جز‘‘ کے مقابلے میں زیادہ موثر ہوتا جائے گا اور ایک مرحلہ ایسا ٓآئے گا جہاں یہ اس پر غالب آجائے گا۔
اس مرحلہ میں ٹھوس اجسام (چٹانی بلاکس) آپ ہی آپ دفعتاً ایک بلندی سے ایک نچلی سطح کی طرف حرکت کرنے لگے گا۔ اس زاویہ میلان کو جس پر حرکت کی ابتداء ہوجانے سے ’’کرپٹیکل زاویہ‘‘ (Critical Angle) کہتے ہیں۔ کشش ثقل کے علاوہ پانی بھی ایک ایسا کارندہ ہے جو سکون و جمود چٹانوں میں حرکت کا ذریعہ بنتا ہے لیکن اس کے ضروری ہے کہ چٹانی ذرّات کے درمیان موجود جوڑنے والے مواد (Cementing material) مثلاً کلے مڈ پانی کے ساتھ آمیزش کے ساتھ پیسٹ (Paste) یا رقیق مائع کی صورت اختیار کرلے۔
اس کی وجہ سے دو صورتحال پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف تراشی سطح گیلی اور چکنی ہو جاتی ہے تو دوسری طرف پانی ذرّات کے درمیان موجود قوت پیشگی کو کم کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے چٹانوں کے جسم کی بندش کمزور ہونے کی وجہ سے ’’سلائیڈنگ‘‘ کا عمل شروع ہونے لگتا ہے۔ پانی اور برف تودوں کی کمیت کے اطراف وزن میں نہ صرف اضافہ کرتے ہیں بلکہ اسے زیادہ سیال بنا دیتے ہیں۔
نرم اور چکنی چٹانوں مثلاً کلے، ٹیل، آتشی خاک اور ابرق شیشٹ پر موجود چٹان لاک ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں لیکن ان پہاڑی علاقوں میں بہت زیادہ اور نمایاں نظر آتی ہیں جہاں پر ڈھلوان اور چٹانوں کا زاویہ میلان ایک ہی سمت میں ہوتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں کٹائو اور کھدائی کے مقصد سے ضرورت سے زیادہ ڈھلوان (Angle if Repose) پیدا کرنے، ڈھلوان کے بالائی بار (Ioal) میں اضافہ اور چٹانی جسم میں ضرورت سے زیادہ پانی کرنے سے بھی ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ کا عمل رونما ہوتا ہے۔
ان تمام صورتحال پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جب پہاڑی علاقوں میں رہائش کی غرض سے تعمیرات مقصود ہو تو علاقے کی قدرتی ماحول کو تبدیل کرتے وقت خاص انجینئرنگ طریقہ کار کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ بعض مالک اس پر قابو پانے کے لیے چٹانی ڈھلوان کو کاٹتے ہیں وہاں دیوار بنادی گئی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہوتا کہ وادی میں حرکت کرتے ہوئے تودوں کو روکا جا سکے۔
اس لئے ضروری ہے کہ روکنے والے دیوار کے اندر اور پہاڑی کناروں پر نکاسی پائپ لگا دیا جائے۔ بغیر نکاسی کے ضرورت سے زیادہ پانی چٹانی جسم کی بندش (Shear Strergth) کو کم کر دیتا ہے اور تمام سیلی مواد (soggy material) دیوار کو آسانی سے توڑ سکتا ہے۔ دوسرا حفاظتی قدم یہ ہونا چاہئے کہ ڈھلوان کو بہت زیادہ زاویہ میلان (Angle of Repose) سے گریز کیا جائے۔ پہاڑی کناروں پر کوئی انفرادی کٹائو نہ کیا جائے بلکہ یکساں چوبوتروں والی قطار بنائی جائے۔
ایسا کرنے سے نہ صرف ڈھلوان کے زاویہ میلان میں کمی آئے گی بلکہ اوپری بار کو ہٹانے سے نیچے موجود اجزاء پر موجود تراشے والی قوت (Shear Force) میں بھی کمی آجائے گی۔ یہ غیر مستحکم ملبے کی بھی حفاظت کرتا ہے (مثلاً بڑے بلاکس یعنی بورڈ کوکٹ سے نکال دیتا ہے) اور نیچے کی جانب پھسلنے کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ اس طرح سے جو تعمیرات بنائی جاتی ہے۔ اس پر گھاس یا نباتات کو فوری طور پر اُگایا جاتا ہے ،تاکہ وہ ڈھلوان پر لنگر گاہ (anchoring) کا کام سر انجام دے۔
دوسری طرف کوہستانی اور پہاڑی علاقوں میں تعمیر شدہ شاہراہوں (highways) کو چٹانوں کے سرکنے اور پھسلنے سے سخت مسائل کا سامنا رہتا ہے، کیوںکہ اس کی تعمیر کے دوران جب روڈ کو کاٹنے کے لئے دھماکہ یا بلڈوز کیا جاتا ہے تو پہاڑوں کے کناروں پر زیادہ ڈھلوان اور کھڑی چٹانی (Cliff) ساخت نمودار ہو جاتی ہے۔ اگر چٹانوں میں کمزور زون اپنی جوڑ، دراڑ اور پرت دار سطح نمودار ہوں تو ان کو نئے رخ پر ڈالنے اور شاہراہ کے کٹائو کے بعد ہی حقائق کا اندازہ ہوتا ہے۔
اگر کمزور سطح کا جھکائو پہاڑی کے اندر کے طرف ہوتا ہے تو ایسی صورت حال میں چٹانی پھسلائو کا کوئی امکان نہیں ہوتا لیکن دوسری طرف اگر کمزور سطح پہاڑی کے کناروں کے تقریباً متوازن ہوتو چٹانی پھسلائو یقیناً ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ پر قابو پانے کے لئے بہت سارے پروجیکٹ پر ماہرین کام کر رہے ہیں اور سب سے پہلے اس بات پر زور دیا ہے کہ شاہراہ اور سڑک کی تعمیر سے پہلے ایک تفصیلی ارضیاتی سروے اور معلومات حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے، جس کے باعث پھسلائو کا عمل ہوتا رہتا ہے۔
اس سلسلے میں چٹان خطوں کو بلڈوز کرتے وقت کم پھسلائو والے راستوں کو منتخب کرنی چاہئے تاکہ کم سے سکم خطرہ لاحق ہو۔ اگر کسی شاہراہ کی تعمیر کے دوران کسی بنیادی چٹان (Red Rock) کو کاٹنا مقصود ہو جو کہ منہ کے بل ہوا دیکھائی دے رہا ہو تو ایسی صورت حال میں وہ تمام تودے جو پھسلنے کی نوعیت پر ہوں تو اسے ہرحال میں ہٹا دیا جائے۔
بعض صورت حال میں جب جھکائو بہت زیادہ نظر آتا ہے اور چٹانیں پھسلنے کا رجحان رکھتی ہیں تو اس صورت حال میں اس جگہ پر ٹانکا لگانے کی ٹیکنیک عمل میں لائی جاتی ہے۔ سڑک کنارے کسی نمودار چٹان (Exposed) کو مستحکم کرنے کے لئے سیمینٹ کے پھوار (Spray) کا استعمال کیا جاتا ہے تا کہ ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ کا خطرہ ٹل جائے۔ دنیا کی اکثر ریاستوں میں جہاں لینڈ سلائیڈ کا خطرہ یا امکانات زیادہ ہوتے ہیں وہاں پر شب و روز ریڈیو پیغام رساں کے ذریعے آگاہی حاصل کی جاتی ہے، تا کہ چٹانوں کے پھسلنے کے خطرات سے محفوظ رہا جا سکے۔
یورپ کے ممالک میں شاہراہوں (Highways) کے ساتھ ایسے مرکز قائم کئے گئے ہیں جہاں ارضیاتی سروےکے ادارے (Geological Survey Department) نے مختلف آلات ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ کے علاقوں میں نصب کر دیا ہے، جس کے ذریعہ اعداد و شمار کو فوری طور پر ’’انٹرنیٹ‘‘ پر دستیاب ہوتے ہیں۔ جدید آلات میں ’’مسامی دبائو میٹر‘‘ اور حرکتی مسامی (Motion Sensar) آلات کئے جاتے ہیں جو ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ کی معمولی سے معمولی ارتعاش کو بھی ابتداء میں ریکارڈ کرکے معلومات فراہم کر دیتا ہے، جس کی وجہ ادارے حرکت میں آجاتے ہیں۔
خصوصی طور پر برف باری اور زمینی جنبش کے بعد کیوںکہ برف باری کے بعد پہاڑی خطوں میں بلندی پر ’’لینڈ سلائیڈ‘‘ کا خطرہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے، جس پر قابو پانا ریاست کی قائم کردہ اداروں کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ موثر نظام کو فعال کرنے میں کوئی غفلت نہ کرے ،تاکہ آبادی، شاہراہوں اور سیاحوں کو تحفظ حاصل ہو سکے۔