رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ، بلوچستان، بیش بہا قدرتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے ساتھ چھوٹے بڑے قدرتی جنگلات، بلند و بالا پہاڑوں، آب شاروں، جھیلوں اور دیگر متعدد پرفضا مقامات کی وجہ سے بھی منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں کا خُوب صُورت فطری ماحول، جا بجا دل کش و دل فریب مناظرسیّاحوں کو دعوتِ نظارہ دیتے ہیں۔ خُوب صُورت لینڈ اسکیپ سے سجی سرزمینِ بلوچستان کا ہر رنگ حسین، ہر رُوپ سہانا ہے۔
کہیں مٹیالے، کہیں سُرخی مائل تو کہیں سرسبز پُرہیبت و پُروقار پہاڑ اِستادہ ہیں، تو کہیں حُسن بکھیرتی وادیوں میں قدرتی درّے، غار اور شفّاف پانی کے گنگناتے چشمے دیکھنے والوں کو مبہوت کردیتے ہیں۔ اسی طرح اس خطّے میں جہاں تاحدِنگاہ گرم ترین ریگستانی سلسلے ہیں، تو سرسبزو زرخیز سرد مقامات بھی واقع ہیں، جو سیّاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔
تاہم، یہاں کے دل کش و پُرکشش مقامات حکومتی عدم چسپی اور بے توجّہی کا شکار ہونے کے باعث اپنی اہمیت کھوتے جارہے ہیں۔ محکمہ سیّاحت اگر ان تاریخی و سیّاحتی مقامات پر خصوصی توجّہ دے، تو مُلکی و غیرملکی سیّاحوں کی آمدورفت سے یہاں کے مقامی آبادی کو نہ صرف روزگارکے ذرائع میسّر آسکتے ہیں، بلکہ قومی خزانے میں بھی خطیر ریونیو جمع ہوسکتا ہے۔
ذیل میں صوبہ بلوچستان میں واقع تاریخی، خُوب صُورت و دل کش سیّاحتی مقامات کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش ِ خدمت ہے۔
وادئ زیارت:کوئٹہ سے 125 کلو میٹردُور، سطح سمندر سے 8850 فٹ کی بلندی پر واقع تاریخی اہمیت کی حامل یہ وادی جونیپر (صنوبر) کے جنگلات کے حوالے سے بھی خاص شناخت رکھتی ہے۔ یہاں دنیا کا دوسرا بڑا صنوبر کا قدیم جنگل واقع ہے، جو 12600 ایکڑ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم جنگلات میں ہوتا ہے۔ اس جنگل میں 5 ہزار سال پرانے درخت بھی موجود ہیں۔
نیز، اس خُوب صُورت وادی کے چپّے چپّے پر متعدد تفریحی مقامات ہیں، جب کہ اس کی ایک خاص وجۂ شہرت، قائد اعظم ریزیڈنسی بھی ہے، جہاں بانئ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے زندگی کے آخری ایّام گزارے۔ قدرتی آب شاروں، سرسبز باغات اور پُرفضا آب و ہوا کی وجہ سے یہ وادی کسی جنّت سے کم نہیں۔ یہاں جونیپر پارک، جناح پارک، پراسپیکٹ پوائنٹ، باباخرواری کے مزار، چکور تنگی اور مخمل تنگی سمیت دیگر مشہور تفریحی مقامات ہیں۔ موسمِ گرما میں بھی وادی کا موسم انتہائی خوش گوار رہتا ہے، جب کہ موسمِ سرما میں دسمبر کے آغاز ہی سے برف باری کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں سیّاحت کی غرض سے آنے والوں کے لیے جدید سہولتوں سے آراستہ ہوٹلز اور متعدد ریسٹ ہائوسز بھی موجود ہیں۔
ہنگول نیشنل پارک: کراچی سے 190کلو میٹر کے فاصلے پر واقع یہ پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے،جو صوبے کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ 1988ء میں اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہندوؤں کا معروف ’’ہنگلاج مندر‘‘ بھی اسی پارک میں واقع ہے۔ یہ پارک کئی اقسام کے جنگلی پرندوں، مختلف آبی حیات، حشرات الارض، دریائی اور سمندری جانوروں کا قدرتی مسکن ہے۔ ’’امید کی دیوی‘‘ یا ’’پرنسز آف ہوپ‘‘ کہلایا جانے والا 850سال قدیم تاریخی مجسّمہ بھی اسی پارک کی زینت ہے۔
ہنگول نیشنل پارک چھے الگ ماحولیاتی نظاموں کے ساتھ ساتھ ریگستانی اور میدانی علاقوں پر مشتمل ہے، جو اسے پاکستان کے دیگر قومی پارکس سے منفرد بناتا ہے۔ اس پارک کی سرحد شمال میں گھنے جنگل، جنوب میں بنجر پہاڑی سلسلے اور دریائے ہنگول سے ملتی ہے، جب کہ خلیج عمان اور بحیرئہ عرب اس کے جنوب میں واقع ہیں۔ یہاں کی تحیّر خیز انوکھی چٹانیں ملک بھر سے سیّاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیںاور 2004ء میں مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے بعد سے تو سیّاح بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کررہے ہیں۔
پیر غائب: کوئٹہ سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑی سلسلے میں واقع وادئ بولان میں ایک پُرفضا سیّاحتی مقام ’’پیرغائب‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں کی زمین کھجور کے درختوں سمیت مختلف درختوں، جڑی بوٹیوں سے آباد ہے۔ نیز جا بجا چھوٹی بڑی آب شاروں سے مزیّن چشمے ہیں، جن کا پانی گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رہتا ہے۔ یہاں کے پُرفضا ماحول میں انسان قدرت کی رعنائیوں میں کھو کر رہ جاتا ہے۔
دل کشی میں اپنی مثال آپ،چھوٹی بڑی آب شاروں اورکھجور کے باغوں سے مزیّن یہ علاقہ سیّاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔ یہاں آنے کے لیےکوئٹہ سبّی روڈ سے جیپ لینا پڑتی ہے۔ پیر غائب کے مقام پر پانی کا ایک قدرتی چشمہ برسوں سے جاری ہے، جس کے بارے میں روایت ہے کہ کسی زمانے میں پانی کی قلّت کے باعث یہاں کے باشندے ہجرت پر مجبور ہوگئے، تو اسی دوران ایک نیک بزرگ تشریف لائے۔
مقامی باشندوں نے اُن سے پانی کی قلّت کا ذکر کیا، تو بزرگ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگی اور پہاڑ سے پانی کا چشمہ پُھوٹ پڑا، جو آج تک رواں دواں ہے۔ بزرگ کا مزار بھی اس چشمے کے قریب ہی موجود ہے۔ زائرین اور سیّاحوں کے ہجوم کے پیشِ نظر پیر غائب کے مقام پرفرنٹئیر کور (ایف سی) نے حکومت ِبلوچستان اور سدرن کمانڈ کے تعاون سے پختہ سڑکیں، مسجد، پارک اور ایک فُوڈ پوائنٹ بھی قائم کیا ہے۔
شین غر: کوئٹہ سے 380 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک تاریخی شہر شیرانی میں ’’شین غر‘‘ کے نام سے ایک پُرفضا تفریحی مقام ہے۔ جہاں اخروٹ، پستے اور چلغوزوں کے باغات موجود ہیں۔ وادی شین غر سطحِ سمندر سے 9 ہزار دو سو73 فٹ کی بلندی پر واقع ایک دل کش، سرسبز اور دل فریب تفریحی مقام ہے۔
کوہِ سلیمان: بلوچستان کے شہر ژوب میں کوہِ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں دنیا کا سب سے بڑا خالص چلغوزے کا جنگل واقع ہے۔ 26 ہزار ہیکٹرپر محیط اس جنگل میں سالانہ چھے لاکھ 40ہزار کلوگرام سے زائد چلغوزے کی پیداوار ہوتی ہے۔ چلغوزے کے علاوہ زیتون کے گھنے جنگلات بھی یہاں کا قدرتی حُسن دوبالا کرتے ہیں۔
برطانوی دَورِ حکومت میں صوبہ بلوچستان سے خیبر پختون خوا تک ایک کچّی سڑک تعمیر کی گئی۔ یہ سڑک ژوب کے تفریحی مقام سیلیازہ سے کوہِ سلیمان کے دامن سے ہوتی ہوئی ڈیرہ اسماعیل خان تک جاتی ہے- 11400فٹ بلند مشہور چوٹی ’’تخت سلیمان‘‘ بھی یہیں موجود ہے۔ سیّاحت کے غرض سے آنے والوں کے لیے یہ ایک بہترین تفریح مقام ہے۔
ہنّہ جھیل: صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ سے شمال کی طرف تقریباً 12کلو میٹر کے فاصلے پر واقع سنگلاخ چٹانوں کے دامن میں، 1894ء میں سلطنتِ برطانیہ کے دَور میں کوہِ زرغون سے آنے والے پانی کا ذخیرہ کرکے ایک تفریحی مقام، ہنّہ جھیل کے نام سے بنایا گیا، جوسیّاحوں کی خاص توجّہ کا مرکز ہے۔ یہ مقام کوئٹہ کے نواحی علاقے کی سرسبز و شاداب وادی، اوڑک کے قریب واقع ہے۔
1818ایکڑ رقبے پر محیط اس جھیل میں32کروڑ20لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے اور اس کی گہرائی تقریباً 43فٹ ہے۔ ہنّہ جھیل کے حوالے سے مشہور ہے کہ برطانوی دَورِ حکومت میں کوئٹہ کے آس پاس کی آبادی کے لیے اس جھیل میں پانی جمع کیا جاتا تھا، جو بعدازاں ایک سیّاحتی مقام بن گیا۔ جھیل کے اطراف میں پارک بھی موجود ہے، جب کہ بچّوں کی تفریح کے لیے جھولے وغیرہ بھی نصب کیے گئے ہیں۔ دو دہائی قبل یہاں چیئر لفٹ بھی نصب کی گئی تھی۔ تاہم، بعدازاں بند کردی گئی۔
ہنّہ اوڑک: صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ سے شمال کی جانب تقریباً 15کلو میٹر کے فاصلے پر”ہنہ اوڑک“ کا خُوب صُورت علاقہ شروع ہوتاہے۔ قدرتی آب شاروں کے علاوہ رس بھرے سیب، زردالو اور آڑو کے باغات اس حسین وادی کی پہچان ہیں۔ یہاں کے قدرتی چشمے اور آب شاریں انتہائی دل کش مناظر پیش کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ وادی ہنّہ کا ہر حصّہ دل کشی و رعنائی میں اپنی مثال آپ اور یہاں کا چپّہ چپّہ تفریح سے بھرپور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سال بھر سیّاحوں کا رش لگا رہتا ہے۔
گوادر: سات سو پچاس کلومیٹر پر محیط طویل ساحلی پٹّی پر واقع شہر، گوادر کو ’’ایشیا کا دروازہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، جو پوری دنیا کی توجّہ کا مرکز ہے۔یہ قدیم بندرگاہ، 1958ءمیں حکومتِ پاکستان نے مسقط کے سلطان سے خریدکر پاکستان میں شامل کی تھی۔تین طرف سے سمندر میں گھرے گوادر شہر کے مغرب میں 500 فٹ بلند پہاڑ،’’کوہ باتیل‘‘ سفید دیوار کی مانند نظر آتا ہے۔
اس پہاڑ سے پورے شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ شہر کے ارد گرد ماہی گیروں کی آبادی ہے اوردور دور تک سمندر کے گہرےپانی میں ان کی کشتیاں تیرتی نظر آتی ہیں۔ پوراساحلی علاقہ آلودگی سے پاک اور نہایت صاف وشفّاف فضا کا حامل ہے۔ اس خُوب صُورت ساحلی مقام کے دل کش نظاروں سے زیادہ تر کراچی کے سیّاح لطف اندوز ہونے آتے ہیں، جب کہ بلوچستان کی یہ خوب صورت ساحلی پٹّی دنیا بھر میں ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔
ہربوئی: قلّات شہر سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان کا خوب صورت سیّاحتی مقام ”ہربوئی“ سطح سمندرسے 9 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، جہاں کےجنگلات میں صنوبر کے گھنے اور قدیم درختوں کی بہتات ہے۔ جنگلات کے پُرپیچ اور آڑے ترچھے دشوار گزار راستوں میں جا بجا مختلف قسم کے پھولوں کی خوشبو سے فضا مہکتی اور حسین آب شاریں اپنی چھب دکھلاتی ہیں۔
ہربوئی میں سیکڑوں اقسام کی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں، جو علم و حکمت سے وابستہ افراد کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں۔ یہاں کے مقامی افراد عام بیماریوں سے لے کر مہلک امراض تک کا علاج ان ہی جڑی بوٹیوں سے کرتے ہیں۔ پُرفضا، صاف وشفّاف ماحول کی وجہ سے یہ علاقہ مختلف اقسام کے نادر و نایاب پرندوں کا بھی مسکن ہے۔ قلات میں سخت سردی پڑتی ہے، اور موسمِ سرما میں درجۂ حرارت منفی رہتا ہے۔
بولان: کوئٹہ سے 140 کلو میٹر کے فاصلے پر ’’بولان پاس‘‘ ایک پہاڑی درّہ ہے۔ اس انتہائی دل فریب درّے میں قدرتی چشموں کا پانی سالہا سال سے رواں دواں ہے۔ کوئٹہ کے قریبی شہر، کول پور سے شروع ہونے والا بولان پاس برطانوی دور حکومت میں پہاڑوں کا سینہ چیر کر تعمیر کیا گیا، یہاں انگریز دور کی بنائی گئی سرنگیں آج بھی اسی طرح موجود ہیں۔ اسی طرح بولان کے پہاڑوں میں پائے جانے والے غار بھی قدرت کا شاہ کار ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا غار بولان ہی میں واقع ہے، جس کی لمبائی ایک ہزار 270 میٹر ہے۔
مہر گڑھ: سبّی شہر سے تقریبا 55کلومیٹر دور قدیم انسانی تہذیب ”مہرگڑھ“ موجود ہے- 9ہزار سال قدیم یہ تہذیب اپنی منفرد حیثیت کی وجہ سے دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ ماہرینِ آثار قدیمہ کے مطابق یہاں کے باشندے اپنے دَور میں زراعت اور گلّہ بانی سے منسلک رہے ہیں۔ یہاں ملکی و غیر ملکی سّیاحوں کے علاوہ آرکیالوجی سے وابستہ طلبہ بھی بڑی تعداد میں اس قدیم انسانی آبادی کے رہن سہن کے مشاہدے اور تاریخ سے آگہی کی غرض سے آتے ہیں۔ مہرگڑھ کے قریب ہی ایک ٹیلہ بھی ہے، جہاں سے اس دَور کی بہت سی قدیم اشیاء دریافت ہوچکی ہیں۔
ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک : ہزار گنجی چلتن پارک، کوئٹہ سے 20کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ 27 ہزار421ہیکٹر پر مشتمل یہ خوب صورت پارک، سطحِ سمندر سے 3264 میٹر کی بلندی پر واقع ہے، جو 1980ء میں جنگلی حیات کے تحفّظ کے لیے کوہِ چلتن کے دامن میںقائم کیا گیا۔پارک کے مغرب میں چلتن اور مشرق میں ہزار گنجی پہاڑی سلسلہ ہے۔ علاوہ ازیں، یہاں ایک عجائب گھر اورریسٹ ہاؤس کے علاوہ کئی تفریحی پوائنٹس بھی ہیں۔ یاد رہے، ہزار گنجی نیشنل پارک میں مجموعی طور پر 106اقسام کے پرندے اور225 اقسام کے پودے موجود ہیں۔
مولہ چٹوک: خضدار شہر سے شمال مشرق میں 65 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مولہ چٹوک کا ایک خوب صورت مقام بھی قدرت کا حسین شاہ کار ہے۔یہاں کے دل فریب نظارے سیّاحوں پر سحر سا طاری کردیتے ہیں۔ مولہ چٹوک کا اصل حسن اس کی چھوٹی بڑی آب شاریں ہیں۔ اس مقام تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں، جن میں سے ایک راستہ جھل مگسی روڈ سے آر سی ڈی ہائی وے پر خضدار شہر کے تقریباً 20 کلومیٹر بعد دائیں جانب نکلتا ہے۔ اس روڈ پر آدھے سفر کے بعد دشوار گزار رستہ شروع ہوجاتا ہے، جب کہ ایک اور راستہ خضدار سکھر روڈ سے بھی نکلتا ہے، جو تقریباً دس کلومیٹر کے بعد انتہائی دشوار گزار پتھریلے راستے پر مشتمل ہے، اس پر صرف فور بائی فور گاڑیاں ہی چل سکتی ہیں۔ اس سفر میں درحقیقت ایڈونچر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
شعبان: کوئٹہ سے تقریباً60 کلو میٹر کے فاصلے پر وادئ شعبان واقع ہے، اس وادی تک بھی جانے کے لیے پختہ سڑک موجود نہیں۔ انتہائی دشوار گزار رپہاڑی راستوں سے ہو کر اس سرسبز وادی تک پہنچا جاتا ہے۔ درّہ زرغون کے دامن میں صنوبر کے جنگلات سے گِھری یہ وادی بھی ایک انتہائی خوب صورت تفریحی مقام ہے، جہاں صرف فور بائی فور جیپ ہی جاسکتی ہے۔ زیادہ ترکوہ پیمائی کے شوقین ہی اس وادی کا رخ کرتے ہیں۔یہاں بھی جنگلی جڑی بوٹیاں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ لیکن اس مقام پر کوئی ہوٹل موجود نہیں، یہاں آنے والے سیّاح اپنے ساتھ ٹینٹ وغیرہ کے ساتھ کھانے پینے کا سامان بھی لاتے ہیں۔
زردالو: ضلع ہرنائی میں زردالوکا تفریح مقام موجود ہے، جوکوئٹہ سے تقریبا ًچار گھنٹے کی مسافت پر ہے، یہاں سنگلاخ پہاڑوں کے علاوہ سرسبز و شاداب باغات اور قدرتی چشمے بھی موجود ہیں۔
بلوچستان میں ان مقامات کے علاوہ بھی متعدد سیّاحتی و تفریحی مقامات موجود ہیں، جن میں کھجوری، مچھ کی کوئلہ کانیں، تاریخی ریلوے ٹریک، چمن کی مشہور خوجک ٹنل، ایشیا کا بلند ترین ریلوے اسٹیشن کان مہتر زئی، کیچ میں سسّی پنّوں کا قلعہ، لسبیلہ میں شیریں فرہاد کا مزار، پسنی کے سمندر میں واقع قدرتی جزیرہ استولہ، فاطمہ جناح پارک، نوری نصیر خان کمپلیکس میں قائم عجائب گھر، جبلِ نورالقرآن، اسپن کاریز اور لیاقت پارک جیسے مقامات شامل ہیں۔ضرورت اس امَر کی ہے کہ ان مقامات کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر متعارف کروایا جائے اور سیّاحوں کو ہر ممکنہ سہولت فراہم کی جائے۔