• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن کانفرنس، PTI کیلئے ضائع موقع، مذاکرات کیلئے کمیٹی کی تحریک انصاف کی تجویز، اچکزئی کی مخالفت کا سامنا

انصار عباسی

اسلام آباد :…اپوزیشن کی دو روزہ کانفرنس میں اگرچہ مذاکرات کے آپشن پر بات کی گئی، تاہم یہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کیلئے ایک ضائع شدہ موقع ثابت ہوئی کیونکہ علامہ ناصر عباس کی سربراہی میں باضابطہ مذاکراتی کمیٹی تشکیل دینے کی پی ٹی آئی کی تجویز حتمی اعلامیے میں شامل نہ ہو سکی۔ ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت چاہتی تھی کہ کانفرنس میں علامہ ناصر عباس کی سربراہی میں ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا جائے جو تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کر کے منظم مذاکراتی عمل کا آغاز کرے۔ تاہم، اگرچہ اعلامیے میں مذاکرات کے حق میں ایک عمومی شق شامل کر لی گئی، لیکن مذاکراتی کمیٹی کی مخصوص تجویز محمود خان اچکزئی کی مخالفت کے باعث شامل نہ کی جا سکی۔ ذرائع کے مطابق، پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور سینئر رہنما اسد قیصر نے مذاکراتی کمیٹی کے قیام کی بھرپور حمایت کی۔ سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر بھی اس تجویز سے متفق تھے۔ اندرونی سطح پر اس حمایت کے باوجود، اعلامیے کو حتمی شکل دیتے وقت یہ تجویز نکال دی گئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مذاکرات سے متعلق شق بھی ابتدا میں اعلامیے کے حتمی مسودے کا حصہ نہیں تھی۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے اس پر زور دیا کہ مذاکرات کا آپشن لازماً شامل کیا جائے، جس کے بعد مشاورت کے نتیجے میں یہ شق شامل کی گئی۔ تاہم، اچکزئی نے موجودہ حکومت میں بیٹھے، ان کے بقول عوامی مینڈیٹ کے ’’چوروں‘‘ سے باضابطہ بات چیت کی مخالفت کی، جس کے باعث کسی بھی مذاکراتی کمیٹی کے اعلان کا امکان ختم ہوگیا۔ کانفرنس میں شریک بعض شرکاء کے نزدیک یہ موقف تضاد کا شکار نظر آیا، کیونکہ محمود خان اچکزئی عوامی سطح پر نون لیگ کے قائد نواز شریف اور جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے مذاکرات کی اپیل کرتے رہے ہیں، لیکن اسی دو روزہ کانفرنس کے دوران موجودہ حکومت سے بات چیت کی مخالفت کرتے دکھائی دیے۔ کانفرنس کے دوران بیرسٹر گوہر علی خان کو یہ اعتراف کرتے ہوئے سنا گیا کہ گزشتہ دو برسوں میں اپوزیشن نے نمایاں طور پر سیاسی میدان کھو دیا ہے اور وہ اپنے طے شدہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے بجائے اپوزیشن، بالخصوص پی ٹی آئی مزید محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ شرکاء نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ موجودہ سیاسی نظام جمہوری ہونے سے کوسوں دور ہے اور بتدریج آمرانہ طرزِ حکمرانی کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ تاہم، اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ طاقت کی سیاست سے عوامی سیاست کی طرف آنے میں وقت لگے گا اور یہ صرف مسلسل اور بامعنی مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کانفرنس کے بعد یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ 2025ء میں پی ٹی آئی کیلئے 2026ء کو سیاسی طور پر امید افزا بنانے کا آخری سنجیدہ موقع بڑی حد تک ضائع ہو چکا ہے، اور پارٹی اس وقت اس تذبذب کا شکار ہے کہ سڑکوں پر احتجاجی سیاست اپنائی جائے یا مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ پارٹی کو اپنے مطالبات پر بھی نظرثانی کرنا پڑی ہے۔ جہاں پہلے بانی چیئرمین عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی قیدیوں کی رہائی، فارم 47؍ کے تحت ہونے والے فروری 2024ء کے انتخابات کی منسوخی اور عوامی مینڈیٹ کی بحالی جیسے مطالبات کیے جا رہے تھے، اب توجہ محدود ہو کر صرف اس بات تک رہ گئی ہے کہ عمران خان کے اہلِ خانہ اور سینئر پارٹی رہنماؤں کو جیل میں ان سے ملاقات کی اجازت مل سکے۔ پی ٹی آئی کے ایک ذریعے نے کہا کہ اگر عملی طور پر مذاکرات کا آغاز نہ ہوا تو 2026ء بھی سیاسی لحاظ سے 2024ء اور 2025ء کی طرح مایوس کن رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مذاکرات فوری ریلیف فراہم نہیں کر سکتے، لیکن پی ٹی آئی کی معمول کی سیاسی سرگرمیوں میں بتدریج واپسی کیلئے یہ ناگزیر ہیں۔

اہم خبریں سے مزید