• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں شہباز شریف کیخلاف تحقیقات میں عدالتی دستاویزات سامنے آگئیں


برطانیہ میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے خلاف تحقیقات میں عدالتی دستاویزات سامنے آگئیں۔

دستاویزات کے مطابق مکمل تحقیقات کے بعد نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے شہباز شریف اور سلیمان کو کلین چٹ دی۔

دستاویزات کے مطابق شہباز شریف، نیشنل کرائم ایجنسی کی منی لانڈرنگ تحقیقات کا ہدف تھے، این سی اے نے1 ہزار سے زائد صفحات میں سے صرف 500 جاری کئے ہیں۔

این سی اے نے 4 ممالک میں آف شور کمپنیوں اور اکاؤنٹس پر بھی تحقیق کی، ثبوت نہ ملنے پر این سی اے نے شہباز شریف اور سلیمان کے خلاف کریمنل انویسٹی گیشن ختم کردی۔

دستاویز کے مطابق  این سی اے نے 2 برس میں 15 برس کے مالی معاملات اور اکاؤنٹس کاجائزہ لیا۔

جیو نیوز کی قبل از وقت دی گئی اسٹوری ایک مرتبہ پھر حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی، دستاویز عدالتی حکم پر جاری ہوئیں، اے آر یو نے جیو نیوز پر چلنے والی خبر پر عدالت سے شواہد دینے کی درخواست کی تھی۔

ذوالفقار احمد نے کہا تھا کہ ان کا سیاست سے تعلق نہ ہونے کے سبب ان کی ذاتی تفصیلات کو رپورٹ کا حصہ نہ بنایا جائے، سلیمان شہباز نے بھی دستاویز میں سے اپنی ذاتی معلومات چھپانے کیلئے عدالت سے وقت طلب کیا تھا۔

این سی سی نے دستاویز کے ایک ہزار سے صفحات میں سے ابھی صرف پانچ سو صفحات جاری کئے ہیں۔

ویسٹ منسٹر کورٹ کے جج نے کہا تھا کہ جیو نیوز پر خبر چلنے کے بعد شواہد پبلک ہوچکے، اب انھیں شائع کرنا ضروری ہے۔

شہزاد اکبر اور ڈیوڈ روز نے 2109 میں ڈیلی میل کے آرٹیکل میں تسلیم کیا تھا کہ این سی اے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے ، نیشنل کرائم ایجنسی نے دسمبر 2019 میں شہباز شریف اور سلیمان کے اثاثے ضبط کرلئے تھے ،این سی اے نے عدالت کو بتایا گیا تھا کہ وہ ان کے منی لانڈرنگ، مجرمانہ طرزعمل اور پبلک آفس فراڈ کی تحقیقات کر رہی ہے۔

این سی اے کو شبہ تھا کہ شریف فیملی کی دولت مجرمانہ طرز عمل سے حاصل ہوئی ہے ، این سی اے نے ڈیلی میل کے الزامات، نیب ریفرنس اور  اے آر یو کے “ شواہد” پر انحصار کیا تھا۔

 این سے اے نے 19 دسمبر 2019 کو شہباز اور سلیمان کے اثاثے منجمند کرنے کیلئے عدالت سے رجوع کیا تھا، عدالتی دستاویز کے مطابق این سی اے کو شہباز اور سلیمان پر لگے سنگین الزامات کے درست یا غلط ہونا ثابت کرنا تھا، این سی اے کو شبہ تھا کہ منی لانڈرنگ کی رقم پاکستان سے برطانیہ اور دبئی منتقل ہوئی ، اے آر یو نے این سی اے کو بتایا تھا کہ شہباز شریف کے بھائی اور بھتیجی کرپشن میں سزا یافتہ ہیں۔

این سی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ شہباز اور سلیمان کے خلاف “ مجرمانہ عمل” کے شبہ میں تحقیقات کرنا چاہتے ہیں۔

 جیو نیوز گزشتہ برس نومبر میں تحقیقات کی وجوہ سامنے لے آیا تھا۔

سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے دعویٰ کے مطابق شہباز شریف تحقیقات کا حصہ نہیں تھے ، شہزاد اکبر کے مطابق شہباز شریف کا نام اے ایف اوز کو الگ کرنے والے آرڈر کا حصہ تھا۔

دستاویز کے مطابق شہباز شریف، پاکستان میں بھی منی لانڈرنگ اور اختیارات کے غلط استعمال کے کیس میں ضمانت پر ہیں ، یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستانی قانون نافذ کرنے والے مستقبل میں ہونے والی تحقیقات میں تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔

برطانیہ میں ٹیکس وصول کرنے والے ادارے ایچ ایم آر سی نے بھی شہباز اور سلیمان کے خلاف تحقیقات کیں، دستاویز میں پاکستانی اخبارات اور ٹی وی پر شہباز و سلیمان سے متعلق چلنے والی خبروں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔

این سی اے کو شبہ تھا کہ مشکوک رقم شہباز شریف کے وزیراعلیٰ کے دور میں بنائی گئی، این سی اے نے شہباز شریف کی ملکیت دو فلیٹس، ان کے بنک اکاؤنٹس کی تحقیقات کیں، این سی اے نے سلیمان کے اکاؤنٹ میں تقریبا 700,000 ہزار پاؤنڈ کی منی ٹریل بھی چیک کی، این سی اے نے تحقیقات میں دو برس لگائے، گزشتہ 15 برس کے مالی معاملات اور اکاؤنٹس کا جائزہ لیا۔

قومی خبریں سے مزید