• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

منتخب نمائندوں کی طرف سے جس قسم کے سیاسی رویے کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس کا تعلق موجودہ ووٹنگ سسٹم سے منسلک مراعات ہیں۔ ایم این اے اور ایم پی اے حلقے کی سیاست سے اپنی انتخابی کامیابی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ وہ ایسے اقدامات کرنے کے پابند ہیں جن سے ان کے حلقے کے رائے دہندگان خوش ہوں اور وہ اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرسکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں، بجلی، گیس، پانی، ریلوے کے ٹیرف کو منجمد اور انتظامی ذرائع سے کنٹرول کیا جائے (اس کے لیے حکومت کو سبسڈیز دینا پڑتی ہیں) تاکہ لوگ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی شکایت نہ کریں۔ وہ چاہیں گے کہ حکومت اپنے حلقوں میں ایسے نوجوانوں اور خواتین کے لیے نئی ملازمتیں پیدا کرے جو روزگار کی تلاش میں ہیں۔ چاہے ایسی ملازمتوں کی متعلقہ اداروں کو ضرورت نہ بھی ہو۔

اہم عہدیداروں بالخصوص ایس ایچ او، پٹواری، محکمہ آپ پاشی کے ایس ڈی او،ا سکول کے اساتذہ کے ان کے علاقوں میں تقرر و تبادلے ان کی سفارش پر ہونے چاہئیں تاکہ یہ سرکاری ملازمین حلقے کے منتخب رُکن کے ممنون رہیں۔ ان کے علاقوں میں ترقیاتی فنڈز ان کی صوابدید پر ان کی منتخب کردہ اسکیموں کے لیے مختص کیے جائیں۔ ان اقدامات سے ان کے انتخابات جیتنے کے سیاسی امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ گڈ گورننس کے اصول، جیسا کہ ایک غیر جانبدارانتظامیہ، جو بغیر کسی دھڑے بندی یا گروہی جھکائو، رجحان یا وابستگی کے سب کو فائدہ پہنچاتی ہو اور اصلاحات لاتی ہو، حلقے کی سیاست سے متصادم ہوتی ہے۔ چاہے حکومتی خسارے میں مسلسل اضافہ ہو اور ملکی قرضے سبسڈیز، ناکافی ٹیرف، فضول خرچی، سرکاری اخراجات اور پنشن میں اضافے کی وجہ سے ناقابل برداشت ہو جائیں، اس پرپارٹی قیادت کو تشویش ہوسکتی ہے لیکن حلقے کی سیاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ چند ایک روشن خیال سینیٹرز اور اسمبلی ممبران کو چھوڑ کر اس نظام میں اصلاحات کی وکالت کرنے والے ڈھونڈے نہیں ملتے۔ موجودہ انتخابی نظام میں اجتماعی قومی مفادات اور انفرادی مفادات میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔یہ فقدان موجودہ نظام کی عشروں سے چلی آرہی وراثت کی دین ہے۔

سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد فیصلے کرنے یا ان پر عمل درآمد کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں چاہے وہ اعلیٰ ترین حلقوں سے آئے ہوں۔ ان پر نیب، ایف آئی اے، عدلیہ اور آڈٹ کا خوف اس قدر گہرا ہو چکا ہے کہ وہ فائلوں کو اپنے طور پر نمٹانے سے گریز کرتے ہیں تاوقتیکہ وہ تمام متعلقہ وزارتوں اور ایجنسیوں سے مشورہ اور منظوری لے لیں۔ یہ امر غور طلب ہے کہ ایک وزارت میں فائل پر کارروائی سیکشن افسر سے شروع ہوتی ہے۔وہاں سے بالائی افسران کے پاس جاتی ہے۔ اور پھر اسی طرح نیچے کی طرف آتی ہے۔ پھر کہیں جاکر منظوری ہوتی ہے۔ یہ مشق ہر اس وزارت میں دہرائی جاتی ہے جس سے مشاورت درکار ہو۔ نہ صرف یہ انتہائی ناکارہ اور وقت طلب عمل ہے بلکہ بعض اوقات اس دوران کیے گئے فیصلے تاخیر کی وجہ سے لاحاصل ہوجاتے ہیں۔ ان کا وقت اور ضرورت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ پھر ایک نئی سمری تیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے تمام متعلقہ وزارتوں میں بھیجا جاتا ہے، ان کے تبصروں اور سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں یا دوسری ایجنسیوں کو واپس بھیجا جاتا ہے، اور مختلف ذرائع سے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ یہ سمری کابینہ کی متعلقہ کمیٹی کو پیش کی جاتی ہے۔ بعض معاملات میں توانائی اور نجکاری سے متعلق ایک سے زیادہ کمیٹیوں کو بھیجی جاتی ہے۔ اس کے بعد کابینہ کمیٹی کی سفارشات کو کابینہ کے ایجنڈے میں جگہ ملتی ہے۔ ان صورتوں میں جہاں کابینہ کمیٹی کی سفارشات کی توثیق نہیں کرتی اور مخصوص امور درمیان میں حائل ہو جاتے ہیں، اس عمل کو دوبارہ شروع کرنا پڑتا ہے۔

کچھ سرکاری ملازمین جن پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ ہدایات کو رضامندی سے قبول کریں۔ اُنھیں ایسا تاثر دینا پڑتاہے جیسے کہ وہ کیے گئے فیصلوں کی بخوشی پابندی کر رہے ہیں۔لیکن وہ کچھ قانونی یا طریقہ کار کی خامیوں کی نشاندہی کریں گے اور اس معاملے کو دوبارہ کھولیں گے جو فیصلہ سازی کی اعلیٰ سطح پر پہلے ہی طے ہوچکا ہوتا ہے۔ یا پھر اُن کے تیار کردہ نوٹی فی کیشن، ایس آر اواور قواعد جان بوجھ کر یا نادانستہ طور پر ابہام کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں عدالتیں مسترد کردیتی ہیں۔ اس پر تمام کارروائی کو ایک بار پھر سے شروع کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ رولز کو برقرار رکھا جس کے تحت غیر اطمینان بخش سروس ٹریک ریکارڈ رکھنے والوں کو بیس سال کی سروس مکمل کرنے پر لازمی طور پر ریٹائر کیا جانا تھا۔ یہ کام تقریباً دوسال کے وقفے کے بعد مشکل سے ہوا ہے۔ اعلیٰ سرکاری ملازمین جو کارروائی شروع کرنے کا اختیار رکھتے ہیں وہ اپنے ساتھیوں کی ناراضی مول لینے سے ہچکچاتے ہیں جو کارروائی کے نتیجے میںبری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے وہ کارروائی کی بجائے اپنے تبادلے یا ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ سرکاری ملازمین کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے۔ انہیں کبھی کسی حکومت نے تحفظ نہیں دیا۔ تو وہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی ہمدردی کیوں کھو دیں اور ان حکمران طبقوں کی خاطر سماجی طور پر بے دخل ہو جائیں؟ اپنے ماتحتوں کو خوش رکھتے ہوئے اُن افسروں کی اکثریت شاندار اور بہترین کارکردگی کی رپورٹیں حاصل کرلیتی ہے۔ سرکاری ملازمین کے لیے نیا پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم جو کہ اہم کارکردگی کے اشاریوں پر مبنی ہو گا ابھی تک نافذ نہیں کیا گیا ہے حالانکہ وزیر اعظم نے وزراء کے ساتھ کارکردگی کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور ان معاہدوں کے تحت جائزہ مکمل ہو چکا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے پروموشن رولز پر عمل کیا جا رہا ہے اور گریڈ 20 اور 21 میں ترقی کے لیے رکھے گئے دو سینٹرل سلیکشن بورڈز نے اپنے فیصلے سنیارٹی کی بجائے میرٹ کے شفاف معیار کی بنیاد پر کیے ہیں۔ وزیر اعظم کی سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی سلیکشن بورڈ نے بھی گریڈ 22 کے لیے میرٹ کی بنیاد پر ترقی کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔

تازہ ترین