لاہور ہائی کورٹ نے اتائی کی ضمانت پر رہائی کیلئے درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اتائیت کو سنجیدہ جرم قرار دینا چاہیے، جادو ٹونے سے علاج کے دن گزر چکے، لیکن اتائی علاج آج بھی چل رہا ہے۔
جسٹس سردار نعیم نے زاہد محمود کی ضمانت خارج کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ملک میں 6 لاکھ سے زائد اتائی کام کررہے ہیں جو ملک کے ہر حصے کو اپنی شکار گاہ سمجھتے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جہاں بھی جائیں، ان کی تباہی سے قدموں کے نشان مل جائیں گے، ہر سال ہزاروں افراد اتاییوں کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، اتائیت نہ صرف اموات میں اضافے بلکہ امراض میں بھی اضافے کا باعث ہے۔
تحریری حکم میں قرار دیا گیا کہ میڈیا روز ایسے واقعات رپورٹ کرتا ہے لیکن حقیقت اس سے زیادہ درد ناک ہے، ریاست میں اتائت غیر قانونی ہے لیکن اس پر عمل کے لیے ثبوت نہیں ہوتے، پاکستان کے زیادہ تر عوام غریب ہے اس لیے پرائیوٹ علاج نہیں کرا سکتے۔
اتائی لوگوں کا اعتبار جیتنے میں ماہر ہوتے ہیں، وہ جو بھی کہیں لوگ اس پر عمل پیرا ہونے کو تیار ہوتے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غریب اس سے متاثر ہوتا رہے گا اور لوگ موت کو اللہ کی رضا سمجھتے رہیں گے، اتاییوں نے ملک میں جڑیں مضبوط کی ہیں، اتائی ختم کرنے کے لیے پہلا قدم صحت کی سہولت سب شہریوں تک پہنچانا ہے، میڈیکل کونسل کو ہیلتھ پروفیشنلز کا ریکارڈ مرتب کرنا چاہیے۔