لاہور ہائی کورٹ میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس 2022ء کے خلاف درخواست دائر کردی گئی ہے۔
مقامی وکیل سعید ظفر نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف اپنی درخواست میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے۔
درخواست گزار نے موقف اپنایا ہے کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس صحافیوں کی آواز دبانے کے لیے لایا گیا ہے۔
حکومت پیکا ترمیمی آرڈیننس لا کر اپنے مقاصد پورا کرنا چاہتی ہے، پارلیمنٹ کی موجودگی میں صدارتی آرڈیننس جاری کرنا غیر آئینی ہے۔
صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد مقصود بٹر اور بار کے دیگر عہدیداروں نے ترمیمی آرڈیننس کو چیلنج کرنے کی حمایت کی ہے۔
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ عدالت پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022ء کو کالعدم قرار دے۔
بار عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت وقت نے اس کالے قانون کے ذریعے عوام الناس کے بنیادی حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کو دبانے کے لیے آرڈیننس جاری کیا گیا تاکہ مذموم مقاصد پورے کیے جاسکیں۔