سیاستدان انتخابات سے قبل وعدے کرتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد کم از کم کچھ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ کیا عمران خان نے عوام سے کیے گئے وعدے پورے کیے؟ معیشت سے شروع کرتے ہیں۔
خان نے ٹیکس اصلاحات، بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی، ٹیکس محصولات میں اضافہ (حقیقت میں محصولات کو دوگنا)، خسارے اور قرضوں میں کمی، برآمدات میں اضافہ، کبھی استثنیٰ نہ دینے اور سب سے اہم بات یہ کہ ایک کروڑ نئی ملازمتیں فراہم کرنے اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
ہوا کیاکہ انہوں نے کوئی ٹیکس اصلاحات نہیں کیں، مجموعی ٹیکسوں میں بالواسطہ ٹیکسوں کا حصہ بڑھا دیا، جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر ٹیکس آمدنی میں کمی آئی ہے، نون لیگ نئے ٹیکسوں میں 1700 ارب روپے شامل کرنے کے باوجود چلی گئی تھی، ہماری تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ خسارہ بڑھنے دیا(جی ڈی پی کا اوسطاً آٹھ فیصد یا پی ایم ایل این کے 1664 ارب روپے کے مقابلے میں 3408 ارب روپے)، کسی بھی حکومت سے زیادہ قرض لیا (پچھلے 71 سال میں لیے گئے تمام قرضوں کا دو تہائی)، اپنے پراپرٹی ٹائیکون دوستوں کو مسلسل معافی یا استثنیٰ دیا، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ 60 لاکھ مزید پاکستانیوں کو بے روزگار کر دیا، 2 کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے مزید نیچے دھکیل دیا اور دنیا کی بڑی معیشتوں میں پاکستان کی مہنگائی تیسرے نمبر پر آگئی۔
جی ہاں پہلے دو سال میںروپے کی قدر میں 43 فیصد کمی اور برآمدات میں کمی کے بعد اور تیسرے سال اس میں صرف 3 فیصد اضافہ کرتے ہوئے رواں سال پاکستان کی برآمدات میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے (مستقل ڈالر میں اضافہ 2018 کے مقابلے میں 10 فیصد کے قریب ہے)۔
لیکن درآمدات میں 65 فیصد اضافہ ہو ا ہے اور اس سال ہماری تاریخ میں سب سے زیادہ تجارتی خسارہ (جی ڈی پی کا 15 فیصد سے زیادہ) ہو گا۔سفری پابندیوں کی وجہ سے اگرترسیلاتِ زر میں اضافہ نہ ہوتا تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی ہماری تاریخ کا دوسرا بدترین خسارہ ہوتا، جو جنرل مشرف کے آخری سال 2007-08 کے دوران جی ڈی پی کے 8.1 فیصد کے بعد دوسرا بلند ترین ہوتا۔خان نے تعلیم میں بہتری کا وعدہ کیا تھا لیکن انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے وفاقی اخراجات میں کمی کردی۔
انہوں نے ایک آدمی، جو اپنے تحقیقی اداروں کا آڈٹ نہیں کروانا چاہتا تھا، کے کہنے پر ایچ ای سی کے بڑے معزز چیئرمین کو غیر قانونی طور پر ہٹا دیا۔ ایک بار اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیئرمین کو بحال کر دیا تو خان نے اس فیصلے کا احترام بھی نہیں کیا اور اس کے بجائے چیئرمین ایچ ای سی سے تمام اختیارات چھیننے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
پی ٹی آئی متنازعہ واحد قومی نصاب (ایس این سی) لے کر آئی لیکن زیادہ تر مدارس کو ضم کرنے میں ناکام رہی جو ایس این سی کا اصل مقصد تھا۔ پنجاب حکومت نے اینرولمنٹ بڑھانے یا ریاضی، سائنس، تاریخ اور جغرافیہ سیکھنے والے بچوں پر مطلوبہ توجہ نہیں دی بلکہ خود کو لابیوں میں جکڑ لیا ہے۔ جیسا کہ پیش گوئی کی گئی تھی، اس سے مختلف فرقوں کے علمائے کرام کے درمیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنے کے صحیح طریقہ کے بارے میں بحث چھڑ گئی ہے۔ آج ہمارے پچاس فیصد سے زیادہ بچے اسکول سے باہر ہیں۔
پچاس فیصد! دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والے دس بچوں میں سے ایک پاکستانی ہے۔ عمران خان نے اس بارے میں کیا کیا؟ کچھ نہیں۔ صفر۔وزیر اعظم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنائیں گے۔ کیا پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا میں آٹھ اور باقی پاکستان میں چار سال میں ایک بھی جدید اسپتال بنایا؟ ایک جدید لیب؟
ایک میڈیکل کالج؟ نہیں۔ اس نے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو ادویات کی قیمتوں میں 300 فیصد تک اضافہ کرنے کی اجازت دی اور پنجاب میں مفت ادویات دینے کی مسلم لیگ نون کی اسکیم کو روک دیا۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی پنجاب اور کے پی میں کچھ خاندانوں کو ہیلتھ کارڈ دینے کی داد وصول کرتی ہے، یہ اسکیم مسلم لیگ نون نے 2015 میں چھوٹے پیمانے پر شروع کی تھی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ نہ ہی حکومت نے اس اسکیم کو مکمل طور پر فنڈز فراہم کیے ہیں اور جب بل واجب الادا ہوں گے تو آنے والی نسلوں اور حکومتوں کو ادا کرنا پڑیں گے اور یہ اسکیم ایک اور گردشی قرضہ پیدا کرے گی۔
اس اسکیم کو اگرچہ ناقص طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، غریبوں کو صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنا ایک قابلِ عمل اقدام ہے۔ جیسا کہ قوم خان کی 200 پیشہ ور افراد کی ٹیم کا انتظار کر رہی ہے کہ وہ آئیں اور گورننس کو بہتر بنائیں، پی ٹی آئی نے ہمیں حالیہ یادداشت میں سب سے زیادہ نااہل حکومت دی ہے۔اس شخص سے جس نے 17 وزیروں کا وعدہ کیا تھا اب ہمارے پاس ٹائی ٹینک کو چلانے کے لیے کافی وزیر، مشیر اور معاون ہیں۔
درحقیقت اس کی ٹیم کی نااہلی ٹائی ٹینک کی قسمت کی یاد دلاتی ہے۔ ہر ہفتے نااہلی کی ایک نئی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ نومبر میں جب فرنس آئل کی کم فروخت کی وجہ سے دو ریفائنریز بند کر دی گئیں اور ایک سرکاری ریفائنری اسے برآمد کرنے کی کوشش کر رہی تھی، ایک اور سرکاری کمپنی اسی ہفتے اسے درآمد کر رہی تھی۔
گزشتہ سال حکومت نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود کم کرنے سے ایک دن قبل 100ارب روپے سے زائد کا قرضہ لیا تھا؛ اس سال اس نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے ایک دن بعد 100ارب روپے سے زائد کا قرضہ لیا۔ حکومت اتنی نااہل کیسے ہو سکتی ہے؟
اس نے صرف امیروں اور طاقتوروں کو نوازا ہے۔ آخر کار ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان 116سے 140ویں نمبر پر آ گیا ہے جو تین برسوں میں سب سے بڑی تنزلی ہے۔ پنجاب میں پیسوں کے عوض کی گئی تعیناتیاں اور تبادلے یا ڈونرز کو ٹھیکے دینے یا راولپنڈی رنگ روڈ کیس یا پنجاب میں چونا پتھر کی کان کنی اور سیمنٹ پلانٹس کے 16لائسنس یا چینی، گندم اور ادویات کی قیمتوں کے اسکینڈل کے بارے میں کس نے نہیں سنا۔
پی ٹی آئی نے پی ایم ایل این پر 27ارب روپے کی لاہور میٹرو پر کرپشن کا الزام لگایا لیکن اتنی ہی طویل پشاور بی آر ٹی تین گنا میں بنائی۔ اور پھر نیب اور ایف آئی اے کو پشاور پروجیکٹ کی تحقیقات سے روکنے کے لیے عدالت چلی گئی۔خان نااہل اور اپنے وعدوں کو نبھانے کو بہ ظاہرتیار نہیں لگتے۔ قوم اب ان کی دیانت، اہلیت اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے ارادے پر کیسے اعتماد کر سکتی ہے؟