پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان راولپنڈی ٹیسٹ کے 5 دن میں صرف 14 وکٹیں گریں، سلو وکٹ بنانے پر کافی لے دے ہوئی ہے۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں دوسرے ٹیسٹ کے پہلے دن بھی بولرز سست وکٹ پر گیند بازی کرکے تھک گئے اور پورے دن میں رن آؤٹ سمیت صرف 3 وکٹیں ہی گر سکیں۔
آسٹریلیا نے مقررہ 90 اوورز میں3 وکٹ پر 251 رنز بنائے، عثمان خواجہ 127 رنز بناکر کریز پر موجود ہیں۔
پنڈی ٹیسٹ ڈرا ہوا تو سلو وکٹ بنانے پر ہر طرف سے تنقید ہوئی، آئی سی سی نے معیار سے کم ہونے پر اسے ایک ڈی میرٹ پوائنٹ دے دیا۔
امید کی جارہی تھی کہ کراچی کی وکٹ تھوڑی تیز ہوگی اور میچ کو ’کرکٹ لورز‘ بھی انجوائے کرسکیں گے، لیکن ہوا اس کے برعکس ہی ہے۔
پورے دن صرف 251 رنز بنے، رن آؤٹ سمیت آسٹریلیا کی3 وکٹیں گریں، ماہرین کرکٹ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ یہ ہار کا خوف ہے یا جیت کا یقین نہیں کہ ایسی وکٹیں تیار کی جارہی ہیں۔
وزیراعظم اور قومی ٹیم کے سابق کپتان عمران خان ہمیشہ سے جارحانہ کرکٹ کے ساتھ تیز وکٹوں کے حق میں رہے ہیں۔
چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) رمیز راجا نے بھی اعتراف کیا کہ راولپنڈی ٹیسٹ کی سلو وکٹ پر شائقین کرکٹ کی تنقید جائز ہے۔
پھر ایسا کیوں ہوا؟ پاکستانی بولرز نے ٹیسٹ کے پہلے ہی دن نیگیٹیو بولنگ کیوں شروع کردی؟
پاکستان کے پاس بہترین فاسٹ بولنگ اٹیک ہے، بہترین اسپنرز ہیں تو پھر یہ کس بات کا خوف ہے؟
پاکستان میں 24 سال بعد ہونے والی تاریخی ٹیسٹ سیریز کا مزہ آخر کیوں خراب کیا جارہا ہے؟