• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابو جی بہت ہی با ہمت اور حوصلے والے تھے لیکن ماں جی کی اچانک موت نے انہیں نڈھال کر دیا۔ اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ وہ ماں جی کی خوبیوں اور اعلیٰ صفات کا تذکرہ کرتے کرتے زار و قطار رونے لگتے۔ ہم بہت تسلی دیتے، اطمینان دلاتے لیکن ابو جی ہمت ہار چکے تھے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ جب کوئی انسان ہمت اور حوصلہ ہار جائے تو زندگی ختم ہونے لگتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ لہٰذا ابو جی، ماں جی کی وفات کے ٹھیک ایک ہفتے بعد ہم سے جدا ہو گئے۔ ماں جی سے عہدِ وفا نبھاتے ہوئے ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ان کی عمر 82سال تھی۔ وہ ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے وقت سات سال کے تھے۔ انہیں ہجرت کے مناظر یاد تھے۔ہمارے والد محمد یوسف آرائیں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ہمارے تین بڑے تایا تھے۔ ہم ’’آرائیں‘‘ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے ددھیال کا تعلق ہندوستان کے علاقے جالندھر سے تھا۔ جالندھر میں ہمارے دادا کی زمینیں تھیں۔ ہمارے دادا بتایا کرتے تھے کہ ان کے والد عبدالکریم صاحب کا اپنے علاقے میں بہت اثر و رسوخ تھا۔ ویسے بھی وجاہت والے اور جلالی تھے۔ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔

ہمارے دادا نے قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کی۔ ہجرت کے بعد پنجاب کے ضلع بہاول نگر کے علاقے ’’کھچی والا‘‘ میں قیام کیا۔ ہمارے دادا کے بھائی شاہ محمد نے یہاں مستقل سکونت اختیار کی ہوئی تھی کیوں کہ یہاں شاہ محمد کی قیام پاکستان سے پہلے سے ہی یہاں زمینیں تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے دادا نے کچھ عرصہ اپنے بھائی کے پاس قیام کیا اور پھر سندھ کے ضلع خیرپور کے علاقے ’’کوٹ لالو‘‘ میں آگئے۔ ’’کوٹ لالو‘‘ میں حکومت نے ہماے دادا کو زمین الاٹ کردی تھی، کیوں کہ ہماے دادا کی ہندوستان میں زمینیں تھیں، اور اس کے بدلے ’’کلیم‘‘ پر ہمارے دادا کو ایک مربع زمین مل گئی تھی۔ اپنی زمین میں ہی ہمارے دادا نے اپنا گائوں بنالیا۔ دادا کے نام پر گائوں کا نام رکھا گیا۔ آج بھی سرکاری کاغذات میں ہمارے دادا ’’فتح محمدآرائیں‘‘ کے نام پر ’’گوٹھ فتح محمد آرائیں‘‘ موجود ہے۔

اس وقت پڑھنے پڑھانے کا اتنا زیادہ رواج نہ تھا۔ ہمارے والد صاحب چونکہ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، اس لیے کچھ لاڈلے بھی تھے۔ ہمارے ابو کے دوسرے نمبر کے بھائی حکیم محمد حبیب جالندھری کی کوشش تھی کہ یوسف کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لے۔ پوری کوشش کے باوجود والد صاحب پانچ جماعت ہی پڑھ پائے۔کچھ عرصے کے بعد ابو جی اپنے بھائیوں سے علیحدہ ہو گئے۔ ابو جی زراعت کے ساتھ ساتھ مختلف کاروبار بھی کرتے تھے، دکان بھی تھی۔ ہمارے علاقے میں سب سے پہلے ٹریکٹر ابو جی نے ہی خریدا تھا۔ ابو جی خود تو زیادہ پڑھے ہوئے نہ تھے لیکن ان کی خواہش، تمنا، آرزو اور کوشش تھی کہ وہ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دلوائیں۔ چنانچہ ہم 10بہن بھائیوں کو خوب پڑھایا۔ جس نے جتنا اور جہاں پڑھنے کی خواہش کی، ابو جی نے خوشی سے پڑھایا اور اخراجات کی پروا نہیں کی۔ ابو جی علماء، صلحاء، صوفیاء اور بزرگانِ دین کا بہت احترام اور خدمت کیا کرتے تھے۔ مہمان نواز تھے۔ ابو جی کے در سے کوئی خالی ہاتھ نہ جاتا تھا۔ ہم سب بہن بھائیوں کی بیس، بیس سال کی عمر میں شادیاں کر دیں۔ جب کوئی بھائی یا بہن 20 سال کی عمر کو پہنچتا تو مناسب رشتہ تلاش کر کے شادی کر دیتے۔ ابو جی کی وفات کے وقت 72کے قریب پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں تھے۔ ان میں ایک درجن سے زیادہ حافظ قرآن ہیں۔ 5عالم اور عالمات ہیں۔ یہ سب ابو جی کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب انسان کا انتقال ہو جاتا ہے تو تین اعمال کا سلسلہ اور اجر و ثواب ہمیشہ جاری ساری رہتا ہے۔ صدقہ جاریہ، علم جس سے نفع اٹھایا جائے اور نیک صالح اولاد جو اس کے لیے دعائے خیر اور دعائے مغفرت کرتی رہے۔ آج ابو جی اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن انہیں اجر و ثواب مسلسل مل رہا ہے۔ابو جی نے سیکڑوں قرآن پاک ہدیہ کئے تھے۔ کئی مساجد کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔ پانی کے نلکے لگوائے تھے۔ درخت اور پودے لگوائے تھے۔ دعوت و تبلیغ میں وقت لگایا تھا۔ اپنے بچوں، بچیوں، پوتوں، پوتیوں، نواسوں، نواسیوں اور اپنے خاندان کے افراد کی اچھی تربیت میں وقت صرف کیا تھا۔ ابو جی نیک تھے اور نیکی کی تبلیغ کرتے تھے۔ ہر ایک کے خیر خواہ تھے۔ دنیا سے جانیوالے کیلئے بہترین توشہ ایصالِ ثواب ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ قرآن پاک کی کچھ سورتیں یا آیات پڑھ کر ابو جی کو ضرور بخش دیں، دعا کیلئے ہاتھ اٹھا لیں کہ اللہ تعالیٰ ابو کی مغفرت فرمائے، آمین یا رب العالمین!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین