• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک جاپانی صنعت کار سے پوچھا گیا کہ پاکستان سے جو سرکاری اہلکار مشینری اور دیگر سازوسامان کی خریداری کیلئے جاپان جاتے ہیں ان میں اور ہندوستان سے آنے والے ایسے ہی لوگوں کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے۔ اس نے جواب دیا ”بہت فرق ہوتا ہے۔ ہندوستانی اہلکار ہمارے ہاں آتے ہیں تو ان کی پہلی دلچسپی اس بات میں ہوتی ہے جو کچھ وہ خریدنے آئے ہیں اس کی کوالٹی پر تسلی بخش طریقے سے گفتگو ہو جائے۔ ان کے ملک کے مفاد میں قیمت کا تعین اور شرائط پر سودا ہوجائے۔ ان امور کو طے کرنے کے بعد وہ آخر میں آہستہ سے پوچھتے ہیں کہ اس سودے میں میرا کمیشن کتنا ہوگا اور جہاں آپ مجھے ٹھہرائیں گے وہاں میری تفریح کا کیا سامان ہو گا جبکہ پاکستانی اہلکار جب جاپان آتے ہیں تو گفتگو کا آغاز ہی وہ اس بات سے کرتے ہیں کہ سودے میں میرا کمیشن کتنا ہوگا اور جہاں آپ نے میرے قیام کا بندوبست کیا ہے وہاں میری تفریح کا کیا انتظام ہے۔ ان دونوں سوالوں کا اطمینان بخش جواب مل جائے تو پھر سودا خریدتے وقت وہ زیادہ بحث نہیں کرتے، زیادہ مین میخ نہیں نکالتے اور قیمت پر زیادہ تردد نہیں کرتے خواہ ان کے ملک کا کتنا ہی نقصان ہو رہا ہو“۔ یہ طریقہ کار صرف بیرونی سودوں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ جب غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آتے ہیں تو بیوروکریٹ حکومتی عہدیدار اور سیاسی رہنما سب سے پہلے ان سے اپنا کمیشن طلب کرتے ہیں۔ کمیشن طے ہوجائے تو پھر قیمت اور کوالٹی پر تکرار نہیں ہوتی…آتش حسن بھی تھا تابش دنیا بھی مگر…شعلہ جس نے مجھے پھونکا میرے اندر سے اٹھا…جب معاملہ غیرملکی حکومتوں خصوصاً سپر طاقتوں سے ہو یا عالمی اداروں سے تب بھی صورتحال لگ بھگ ایسی ہی رہتی ہے مگر نوعیت بدل جاتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو چونکہ اپنے عوام پر حکومت کرنے کیلئے بیرونی سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے تو معاملہ محض کمیشن تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ ان ممالک سے قرضہ بھی مانگتے ہیں اور اپنے اقتدار کا تحفظ بھی۔ یہ گارنٹی ملنے کے بعد متعلقہ ملک اور اداروں کی تمام شرائط کو بلا چوں چرا تسلیم کرلیا جاتا ہے خواہ ان شرائط کو تسلیم کرلینے سے ملک و قوم اجڑ کر رہ جائیں۔
بجلی کے موجودہ مسائل کے ڈانڈے ہمارے حکمرانوں کے اسی طرز عمل میں ملتے ہیں۔ نوازشریف جب پہلی مرتبہ برسراقتدار آئے تو 1992ء میں ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے دباؤ پر ان کی حکومت کی کیبنٹ برائے نجکاری نے واپڈا کے پاور ونگ کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پرائیویٹ شعبے میں بجلی پیدا کرنے کے لئے جنریشن اور تقسیم کرنے کے لئے ڈسٹری بیوشن کا شعبہ قائم کردیا گیا۔ محترمہ بے نظیر کی حکومت آئی تو اس نے 1994ء میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی خواہش پر نواز حکومت کے واپڈا کے بارے میں فیصلوں کو برقرار رکھا اور دو قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے ملک کے باقی ماندہ وسائل کو بھی پرائیویٹ پاور پروجیکٹ کے نام سے کام کرنے والے بجلی پیدا کرنے کے جدید ٹھیکیداروں کے پاس گروی رکھ دیا۔ آئی پی پیز سے کئے گئے معاہدوں میں پاکستانی حکام کے بارے میں جاپانی صنعت کار کے بیان کردہ رویّے کا عکس بہ تمام و کمال نظر آتا ہے۔ ملک و قوم کے مستقبل کو اندھیروں میں غرق کرنے کا کس طرح اہتمام کیا گیا، ملک و قوم کے خلاف کیسی سازش کی گئی اس کا اندازہ اس شق سے کیجئے جس میں درج ہے”اگر یہ پاور پلانٹ بند بھی رہیں گے تو پھر بھی ان کے مالکان کو قوم کی جیب سے ادائیگیاں کی جائیں گی“۔ 1997ء میں نوازشریف دوبارہ اقتدار میں آئے تو ان معاہدوں میں شامل کچھ لوگوں کا احتساب کیا گیا لیکن اب آئی پی پیز کے معاملات میں شفافیت کی چھان بین کئے بغیر گردشی قرضے سے نجات کے نام پر انہیں چار سو اسّی ارب روپے ادا کردےئے اور مستقبل میں ان پرائیویٹ ٹھیکیداروں کو پریشانی نہ ہو اس لئے بجلی کی قیمتوں میں بے دریغ اضافہ کیا جارہا ہے۔ بجلی کے شعبے میں عوام کو دی گئی وہ سہولت جو پرویز مشرف اور زرداری واپس لینے کی ہمت نہ کرسکے مگر موجودہ حکومت نے وہ سبسڈی عوام سے واپس لے لی۔ توانائی پالیسی 2013ء میں بجلی کی نرخوں میں تقریباً 35 فیصد اضافے کے بعد پاکستان میں بجلی کی اوسطاً قیمت تقریباً 12 روپے فی یونٹ کی بلندترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں کمرشل اور صنعتی صارفین کے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ گھریلو صارفین کے بجلی کے نرخوں میں یکم اکتوبر سے اضافہ کر دیا گیا ہے۔ 300 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کے بلوں میں پچاس سے ساٹھ فیصد تک اضافہ ہوگا۔ اس اضافے سے گرانی کا جو طوفان اٹھے گا اس پر بھی اکتفا نہیں کیا جارہا ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی حکومت نے سال کے آخر تک بجلی کے نرخوں میں دو سے ڈھائی روپے فی یونٹ مزید اضافے کی تیاری بھی کر رکھی ہے جس کے بعد ملک میں بجلی کی اوسط قیمت 15روپے فی یونٹ سے بھی تجاوز کرجائے گی۔ اندازہ ہے کہ نئی موٹرویز اور بلٹ ٹرین کی تعمیر تک فی یونٹ پچیس روپے تک پہنچ جائے گا۔ یہ تمام اضافے مہنگائی کے ضمن میں کیا حشر اٹھائیں گے یہ سوچے بغیر محض آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہاہے۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور عوام کو قیمتوں میں دی گئی رعایت کا خاتمہ اس لئے کیا جارہا ہے کہ آئندہ گردشی قرضے کی صورتحال پیدا نہ ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس مہنگی بجلی سے نجات پر توجہ نہیں دی جارہی۔ سارا زور پرائیویٹ بجلی کمپنیوں کے منصوبے پر دیا جارہا ہے۔ 2جولائی کو حب پاور کمیٹی کو78ارب روپے کی علیحدہ سے ادائیگی کی گئی تاکہ وہ اپنے پلانٹ کو مزید وسعت دے سکے۔ وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں وعدہ کیا ہے کہ آئندہ پانچ سال میں بجلی کا بحران ختم ہوجائے گا جلد ہی گڈانی اور تھرمل کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کا آغاز کردیا جائے گا لیکن انہوں نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ خیال ہے کہ بجلی کے منصوبوں کی تکمیل کے بعد بجلی تو وافر مقدار میں ہو گی لیکن اتنی مہنگی ہوگی کہ لوگ ازخود لوڈشیڈنگ پر مجبور ہوں گے۔
جن اندھیروں سے آج عوام لڑرہے ہیں شمار نہیں کیا جاسکتا کہ ان اندھیروں نے سرکاری اہلکاروں اور عمال حکومت کے کتنے محلات روشن کئے ہیں جن کا سلسلہ پاکستان کے شہروں سے لے کر لندن اور واشنگٹن تک پھیلا ہوا ہے۔ موجودہ حکومت سے عوام کو بڑی توقعات تھیں لیکن اس حکومت کے ابتدائی مہینوں کا احوال یہ ہے کہ وہ عوام پر بوجھ میں اضافہ کرکے اور ان سے سہولتیں واپس لے کر ہر مسئلہ حل کررہی ہے جبکہ بالادست طبقات اور حکمرانوں کو حاصل تمام سہولتیں بدستور ہیں ان کو کم کرنے یا ختم کرنے کا سوچا بھی نہیں جارہا ہے۔
تازہ ترین