• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

تحریریں پڑھتے رہتے ہیں

’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا نے نئی عالمی حکمتِ عملی پر ایک اچھی تحریر ہماری نذر کی۔ شفق رفیع نے تو کمال کردیا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ اور ’’نسلِ نَو‘‘ دونوں صفحات میں اُن کی موجودگی سے دل خوش ہوا۔ وفاقی اردو یونی ورسٹی سے متعلق ڈاکٹر عرفان عزیز کی رپورٹ سے جامعہ کے کافی مسائل اُجاگر ہوئے۔ ڈاکٹر رانا اطہر کا چہرے کے فالج کے حوالے سے مضمون خاصا معلوماتی تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کا مٹھاس بھرا دسترخوان بہت میٹھا لگا اور بذریعہ’’پیارا وطن‘‘کراچی سے اسکردو تک کی سیر نے تو جیسے یک دَم ہشاش بشاش کردیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا افسانہ اور اختر سعیدی کی سالِ نَو سے متعلقہ نظم پسند آئی۔ اگلے جریدے میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ میں حضرت خواجہ عبدالخالق ؒ پر ایک بہترین مضمون شاملِ اشاعت ہوا۔ منور راجپوت نے مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ سے بہترین انٹرویو لیا۔ سرِورق کی ماڈل مُسکان بھی اچھا انتخاب تھی۔ محمّد ہمایوں ظفر ’’ناقابلِ فراموش‘‘ بہت اچھے انداز سے مرتّب کر رہے ہیں۔ کافی اچھے، سچّے، سبق آموز واقعات پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ نئی کتابوں پر اخترسعیدی کے تبصرے لا جواب ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ ایک کتاب ’’داستانِ عشق‘‘ پر تبصرہ بہت پسند آیا۔ ڈاکٹر اطہر رانا نے گلہ کیا کہ اُن کے مضامین شایع نہیں ہوتے، حالاں کہ ہم تو اکثر و پیش تر ہی اُن کی تحریریں پڑھتے رہتے ہیں اور اس بار آپ لوگوں نے کافی محنت سے ناقابلِ اشاعت کی فہرست بھی شایع کی۔ یقیناً کئی لوگوں کو اطمینان ہوگیا ہوگا۔(رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:جی بالکل، ایسی ہی باتوں سے تو ہماری جان جلتی ہے۔ جن کی تحریریں اکثر و بیش تر شایع ہوتی رہتی ہیں، اُن ہی کے شکوے شکایات ختم نہیں ہوتے، تو جن کی قابلِ اشاعت ہی نہیں ٹھہرتیں، اُن کو ہم کیسے مطمئن کریں۔ جب کہ یہاں تحریروں کی نوک پلک سنوارتے سنوارتے اب اپنے حالات بگڑنے لگے ہیں ۔

مقبولیت کی تمام حدیں

سالِ نَو ایڈیشن (حصّہ اول) ہاتھوں میں ہے۔ ’’حرفِ آغاز‘‘ میں جریدے کی مدیرہ، نرجس ملک نے کُوزے میں دریا بند کرنے کے مصداق 2021ء کی تمام تر ناکامیوں، کام یابیوں کو جیسے ایک صفحے پر مقیّد کردیا۔ گرچہ مُلکی و غیر مُلکی حالات و واقعات پر ایسی سیر حاصل تحریر پڑھ کے مزید کچھ پڑھنے کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی، لیکن چند دیگر پسندیدہ تجزیہ نگاروں کی تحریریں پڑھنا بھی لازم ٹھہرا۔ منور مرزا ہمیں ’’بساطِ عالم‘‘ میں ملے اور پوری دنیا کا سال بھر کا سیاسی منظر نامہ چند الفاظ میں سمو کے رکھ دیا۔ محمّد بلال غوری نے ’’خارزارِ سیاست‘‘ کے تحت موجودہ حکومت کے صحیح لتّے لیے۔ ڈاکٹر ناظر محمود کے ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں فردوس اعوان اور پھر بلدیاتی انتخابات میں پوری پی ٹی آئی کے آئوٹ ہونے کی جو خوشی ہوئی، بیان سے باہر ہے۔ ’’سندھ‘‘ سے متعلق منور راجپوت نے بجا فرمایا کہ گزشتہ پورا برس سندھ اور وفاقی حکومت بس آپس میں دست و گریبان ہی رہے۔ ’’پنجاب‘‘میں رئوف ظفر نے منہگائی کے ذکر کے ساتھ بزدار حکومت کے شان دار کارنامے بھی اجاگر کیے۔ ’’کے پی کے‘‘ سے متعلق ارشد عزیز ملک کا تجزیہ بہترین تھا، تو امین اللہ فطرت نے بھی ’’بلوچستان‘‘ کی شان دار ترجمانی کی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو اب مقبولیت کی تمام حدیں پار کر گیا ہے۔ سلام پیش کرتا ہوں، اُس ہستی کو، جس کے ذہن میں اِس صفحے کے اجراء کا خیال آیا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خط لکھتے لکھتے نہ جانے کتنے ہی قارئین اچھے لکھاری بنتے جارہے ہیں اور یہ سارا کریڈٹ جنگ انتظامیہ ہی کو جاتا ہے۔ (عنایت اللہ ایاز، آر اے بازار، لاہور)

ج: مقبولیت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کیا…؟ خیر، وعلیکم السلام۔ یقیناً یہ آئیڈیا ہمارا ہی تھا، لیکن کریڈٹ بلاشبہ جنگ انتظامیہ ہی کو جاتا ہے کہ اتنے برس سے ایک سلسلہ جاری و ساری ہے اور سو فی صد ہماری مرضی و منشا کے مطابق۔

دل آویز خطوط نگاری

اُمید کرتی ہوں کہ آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ سالِ نَو ایڈیشن کے دوسرے حصّے کا بھی ہر ہر صفحہ قابلِ تعریف و قابلِ ستائش ہے۔ نواب شاہ سے رائو محمّد شاہد اقبال نے جشن ِسالِ نَو کے منفرد انداز سے متعارف کروایا۔ شفق رفیع کے مضمون نے تو ہمارا دل ہی جیت لیا۔ محمّد کاشف کی بھنبھور، مکلی، کینجھر جھیل سے متعلق مختصر مطالعاتی رپورٹ مزے کی تھی۔ بابر علی اعوان نے صحتِ عامّہ کا بہترین تجزیہ پیش کیا۔ منور مرزا کے تجزیات تو ہوتے ہی شان دار ہیں۔ رئوف ظفرنے مرد ہوکر، عورت کا درد جیسے اُجاگر کیا، قابلِ تعریف ہے۔ روبینہ فرید، ڈاکٹر عزیزہ انجم کی کاوشیں بہت پسند آئیں۔ آپ کی ’’کلر آف دی ایئر 2022ء‘‘ سے متعلق اچھوتی تحریر تو میگزین کی جان تھی۔ ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر نے ادب/ نگارشات کا حق ادا کردیا۔ منور راجپوت کا ’’نئی کتابیں‘‘ متعارف کروانےکااندازجداگانہ ہے۔ حمّاد احمد سنیما اسکرین کا سالِ گزشتہ کا احوال لائے اور خُوب لائے۔ عالیہ کاشف نے ٹی وی اسکرین کا اچھا احاطہ کیا۔ ’’کھیل کھلاڑی‘‘ میں کلیم الدّین ابو ارحم کا سیر حاصل مضمون پڑھنے کو ملا۔ ایک پیغام، پیاروں کے نام عُمدگی سے مرتّب کیا گیا۔ اور اب آتے ہیں، اپنے صفحے کی جانب کہ آپ کے جواب دینے کا انداز تو دل چُھو ہی لیتا ہے، مگر خطوط نگاروں کی تحریریں بھی کچھ کم دل آویز نہیں ہوتیں۔ (خالدہ سمیع، گلستانِ جوہر، کراچی)

ج:صحیح کہہ رہی ہیں، واقعتاً بعض خطوط نگاروں کی تحریریں اپنی مثال آپ ہوتی ہیں۔ جیسا کہ محمّد سلیم راجا، نادیہ ناز غوری، صبیحہ عمّاد، اسماء خان دمڑ، عشرت جہاں، پروفیسر سیّد منصور علی خان، عفّت زرّیں، نازلی فیصل، شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی اور چاچا چھکّن وغیرہ کی۔

انحراف ممکن نہیں

رنگین سرِورق کےساتھ سنڈےمیگزین کا ہر شمارہ ہمیں کتنا پیارا لگتا ہے، یہ کچھ ہمارا دل ہی جانتا ہے اور بہترین تحریروں سے مزیّن جریدے کا اِک اِک لفظ سیدھا دل میں اُترتا ہے۔ آپ لوگوں کی محنتیں واضح نظرآتی ہیں۔جن سےانحراف ممکن ہی نہیں۔ دُعا ہے کہ جریدے کا یہ سفر جاری و ساری ہے۔ (شری مُرلی چند، گوپی چند گھوکلیہ، پرانا صدر بازار، شکارپور)

ج: حوصلہ افزائی، دُعا کا بےحد شکریہ

تین ایڈیشنز پر تاثرات

روزنامہ جنگ کا دیرینہ قاری ہوں، سنڈے میگزین کے تین ایڈیشنز پر اپنے تاثرات اور آرا قبضۂ تحریر میں لائوں گا۔ اوّل ایڈیشن میں سرِورق کی ماڈل ندا خان نےایڈیشن کےسرِورق کو چارچاند لگا رکھے تھے۔ ’’عالمی افق‘‘ پر منور مرزا نے بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کو بہترین انداز سے ضبط ِتحریر میں لانے کی کوشش کی۔ ’’انٹرویو‘‘ میں ادیب، سیاست دان، ڈاکٹر شاہ محمّد مَری نے وحید زہیر کوئٹہ کے توسّط سے اپنے افکار و خیالات حکومت تک پہنچانےکی سعی لاحاصل کی، تو ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر ایم صابر سکندری اپنے مخصوص اندازِ بیاں کے ساتھ سادہ طرِزِ زندگی اپنانے اور مرغن غذائوں سے اجتناب کی ہدایات دے رہے تھے۔ ’’متفرق‘‘ میں صبور فاطمہ نے اسلام میں تحفّظِ ماحولیات کی اہمیت و افادیت کو خُوب آشکار کیا۔ شفق رفیع ایک منجھی ہوئی قلم کار ہیں۔ انہوں نے ’’نہتّی لڑکی، بےنظیر بھٹو‘‘ کی یادیں، باتیں دل نشیں پیرائے میں گوش گزار کیں۔ ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ بس اچانک ہی بند کر دیا گیا، ایسا کیوں؟ کہی اَن کہی میں ملنگ بندے، یاسر حسین سے بات چیت زبردست تھی، پڑھ کے لُطف آیا۔ اگلے شمارے یعنی ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ میں طلعت عمران نے ’’امّتِ مسلمہ‘‘، محمّد بلال غوری نے ’’خارزارِ سیاست‘‘، محمّد اویس یوسف زئی نے ’’عدالتِ عظمیٰ‘‘ محبوب حیدر سحاب نے ’’پاک افواج‘‘ اور منور مرزا نے ’’بساطِ عالم‘‘ کے تحت عُمدہ ’’تجزیات پیش کیے۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’جو ہم میں نہ رہے‘‘ میں سال بھر میں داغِ مفارقت دے جانے والی اہم شخصیات کو عُمدہ خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ سالِ نَو ایڈیشن کے حصّہ دوم کے بھی لگ بھگ تمام ہی مضامین، بہترین تجزیاتی رپورٹس پر مشتمل تھے۔ عنبریں حسیب عنبر کا اندازِ تحریر لاجواب ہے۔ حمّاد احمد، عالیہ کاشف، کلیم الدّین ابوارحم اور رائو شاہد کی تحریریں خصوصاً لائقِ مطالعہ تھیں۔ سچ کہوں، تو اِن دونوں جرائد نے تو ہم سب کے دل جیت لیے۔ (خلیل اختر ساجد، ابوبکر ٹائون، ڈیرہ غازی خان)

ج:ہم آپ کی قدر دانی کے ممنون ہیں۔ بس، ایک درخواست ہے،آئندہ خط لکھیں تو الفاظ کے درمیان کم ازکم اتنی جگہ ضرور چھوڑیں کہ وہ ایک دوسرے سے لڑنے مرنے سے بچے رہیں۔ یقین کریں، اِن گتھم گتھا الفاظ کےبیچ ایڈیٹنگ ہمارے لیے کسی اعصاب شکن معرکے سے ہرگز کم نہ تھی۔

امریکا، روس جنگ

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ’’عالمی افق‘‘ میں یوکرین تنازعے پر امریکا، روس جنگ کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو یہ یقیناً تیسری عالمی جنگ ہوگی اور خدانخواستہ عام جنگ نہیں، ایٹمی جنگ۔ اللہ ساری دنیا کو ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھے، آمین۔ ادیب، سیاست دان، ڈاکٹر شاہ محمّد مَری کا انٹرویو پڑھا۔ جی بالکل، ہم بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق بلوچ عوام ہی کا ہے۔ ’’اسلام میں تحفّظِ ماحولیات کی اہمیت‘‘ ایک اچھا مضمون تھا۔’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں’’ایک نہتّی لڑکی، بےنظیر بھٹو‘‘ سے متعلق شفق رفیع کے رائٹ اَپ کا جواب نہ تھا۔ ’’دھندلے عکس‘‘ بھی اختتام پذیر ہوا۔ یہ ناول ایک شان دار ناول تھا۔ اب اگلا سلسلہ عرفان جاوید کا شروع ہونا چاہیے، ان کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں باصلاحیت اداکار، کامیڈین، لکھاری یاسر حسین سے متعلق بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کا حصّہ اوّل تو خاصّے کی چیز ہے۔ بلاشبہ، یہ ایڈیشن ایک یادگار کے طور پر سنبھال کر رکھنے کے قابل ہے۔ ’’حرفِ آغاز‘‘ میں آپ نے پورے سال کا احول جن خُوب صورت الفاظ میں بیان کیا، پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ اور پھر امّتِ مسلمہ، خار زارِ سیاست، عدالتِ عظمیٰ، بساطِ عالم، اِن اینڈ آئوٹ، کِلکس، پاک افواج، ایوانِ نمائندگان، پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبرپختون خوا، آزاد کشمیر اور جو ہم میں نہ رہے کا مطالعہ کیا۔ یوں لگا، جیسے بیتا پورا سال یک سر مُٹھی میں آگیا ہو۔ نواب زادہ بے کار ملک کا خط بڑا کمال تھا اور آپ نےجواب بھی خاصا لمبا دیا،وہ تو خوشی سے بےحال ہی ہوگئے ہوں گے۔ سال 2021ء کی بہترین چِٹھی کا اعزاز محمّد سلیم راجا کو ملا، اِس کی تو ہم نے تو قریباً 3 ماہ پہلے ہی پیش گوئی کردی تھی۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج:روس، یوکرین جنگ، عرفان جاویدکانیا سلسلہ،سال 2021ء کی بہترین چٹھی … آپ کی پیش گوئیوں کا سلسلہ، کوئی تھمنے والا تھوڑی ہے۔ بس، خط آپ کا کچھ زیادہ ہی تاخیر سے ملتا ہے۔ یا پھر آپ پوسٹ کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔ کیوں کہ باقی خطوط نگار آپ سے ایک، دو ہفتے آگے ہی چل رہے ہوتے ہیں۔

شٹ اپ کال

’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا بتا رہے تھے کہ امیر ترین مُمالک کی ویٹو پاور کی وجہ سے کم زور معیشت والے چھوٹے مُلکوں کے مسائل اور تنازعات حل نہیں ہو پاتے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں انڈین کامیڈین، دیرداس کی ویڈیو وائرل ہونے پر انڈین میڈیا نے پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا تھا، تو منور راجپوت نےپورے ثبوتوں کے ساتھ بھارت کو اس کے کرتوتوں کا آئینہ دکھایا۔ یہ شٹ اَپ کال بلاشبہ جرأت مندی کا ثبوت ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات بہت ہی سبق آموزہوتےہیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے دورئہ ترکی کی یادیں تازہ کیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم کی تحریریں انفرادیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ’’متفرق‘‘ سے کے الیکٹرک کے روشنی باجی آگاہی پروگرام کا علم ہوا۔ ڈائجسٹ،ہیلتھ اینڈ فٹنس کے صفحات بہت پسند آئے اور ناول ’’دھندلے عکس‘‘ کے اچانک ختم ہونے کا کچھ افسوس سا ہوا۔ (ایم۔اے۔ ثاقب، راول پنڈی)

ج: ناول ’’دھندلے عکس‘‘ کو اچانک ختم کرنے والی بات بالکل غلط ہے۔ یہ ناول جس طرح اور جتنی اقساط میں لکھا گیا، بعینہ شایع ہوا۔

                              فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

؎ عکسِ خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی..... سال 2022ء کی بہار کا خوش بُو دار جھونکا، تازہ شمارہ آپ کی محنتوں کی کہانی بن کر اپنی دل آویز مہک لیے نغمہ سرا ہوا، تو فوراً سب کچھ چھوڑ چھاڑ اِس کی خُوش بو سمیٹنے کو غوطہ زن ہوئے۔ سرِورق پر 2021ء کے یادگار لمحات منجمد تھے ؎ یہ سال طولِ مسافت سے چُور چُورگیا..... یہ ایک سال تو گزرا ہے، اِک صدی کی طرح۔ ’’حرفِ آغاز‘‘ سے آغازِ مطالعہ ہوا کہ آپ کی اس رُوح پرور تحریر کا تو ہم سارا سال انتظار کرتے ہیں۔ اس دفعہ سالِ نَو کا سفر ’’ہمّت کرو جینے کو تو اِک عمر پڑی ہے‘‘ کہہ کر آپ نے ایسا رواں کیا کہ سالِ گزشتہ کے سب درد و آلم بھی جاتے رہے۔ بلاشبہ؎ تسلسل خُوب صُورت ہے روانی خُوب صُورت ہے… بدلتے وقت کی ساری کہانی خُوب صُورت ہے۔ ’’امّتِ مسلمہ‘‘ کا تجزیہ واللہ کیا کمال تھا۔ ؎ اے تعصّب زدہ دنیا تِرے کردار پہ خاک۔ پڑھتے ہی روح جُھنجھنا اٹھی۔ واقعی، امن و آشتی کا خواب شرمندئہ تعبیر ہی ہے۔ ’’خارزار سیاست‘‘ میں تبدیلی سرکار کی مشقِ ناتوانی کے سبب قیامت ڈھاتی گرانی کا احوال، ہر دل کی آواز تھا۔ عوام بےچارے ؎ دل ضبط، جگر ضبط، زباں ضبط، فغاں ضبط ہی کے مصداق ہیں۔ ’’نام ہی کافی ہے‘‘ کا دَور اب گیا، کارکردگی نہیں دکھائی، تو ہمیں ایمان داری کی بھی ضرورت نہیں۔ ’’عدالتِ عظمیٰ‘‘ ؎ وقت مصنف ہے، فیصلہ دے گا ہی کی تمثیل تھا۔ ’’بساطِ عالم‘‘ پر بچھے ہوئے دنیا کے مُہروں کا کھیل، منور مرزا کے قلم نے ایسا سمجھایا کہ ہم بھی قائل ہو گئے۔ زندگی کے ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ بھی خُوب ہے۔ کوئی پورے جوبن پر پہنچ کر منہ کے بل گرتا ہے، تو کسی کو محض ’’پارری ہو رہی ہے…‘‘ کا انداز ہی بامِ عروج پر پہنچا دیتا ہے۔ ’’کلکس‘‘ کی ویڈیو میں جہاں کرکٹ کے منظرنامے میں ’’بابراعظم نے ہندوستان فتح کرلیا‘‘ جیسے نعرے کی گونج دوبارہ سُنائی دی، وہی نور مقدّم کی بولتی تصویر بھی ظلم و قتل کا حساب مانگتی نظرآئی۔ ؎ میری زمیں سا حسین خاک داںکہیں بھی نہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبے، حسبِ حال لاجواب سُرخیوں کے پیراہن پہنے کہ ؎ لباس تن یہ سلامت ہیں، ہاتھ خالی ہیں۔ ؎ جھوٹی بھی تسلّی ہو، تو جیتا ہی رہوں میں۔ ؎ مت پوچھ مجھ سے لذت، خانماں برباد رہنے کی۔ اور ؎ ایک سے ربط، ایک سے ہے بگاڑ۔ سالِ گزشتہ کی سب سرگزشت سنا گئے۔ ’’جو ہم میں نہ رہے‘‘ نے دل بہت افسردہ کیا۔ اِک اِک چہرہ نگاہوں میں گھوم گیا۔ اور 2021ءکی چٹھیوں کا سالانہ جلسہ، جان جوکھم سے سجائی محفل، حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہال تالیوں کی گونج میں روحِ روانِ محفل، ایڈیٹر نرجس ملک کی انائونسمنٹ کہ ؎ خط ان کا بہت اچھا، عبارت بہت خُوب نےایسا رنگ جمایا کہ سب ہی جاں فشانی و عرق ریزی کی داد دیتے نظر آئے۔ بلاشبہ پورے پاکستان کو ساتھ لے کر چلنا بڑا اعزاز، بڑی کام یابی ہے۔ محمّد سلیم راجا مسند پر اور ہم، اوروں کی طرح شاداں و فرحاں اپنی ایڈیٹر کے لیے بےاندازہ دُعائوں اور اپنی چار اعزازی سَندوں کے ساتھ یوں گنگناتےگھرلوٹے ؎ چاند ستارے پھول اور خوشبو یہ تو سارے پرانے ہیں… تازہ تازہ کلی (شمارہ) کِھلی ہے،ہم اس کے دیوانے ہیں۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج: لیجیے، اس سال کی اپنی پہلی سند تو آج آپ بھی قبول کیجیے۔

گوشہ برقی خطوط

* کوئی دَور تھا، سنڈے میگزین کی رسیا ہوا کرتی تھی۔ اب ذرا کم ہی پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک مرض سے متعلق کچھ آگاہی فراہم کرنے کےلیے ایک مختصر مضمون لکھا ہے، اُمید ہے جلد شایع ہوجائے گا۔ (زینب فاطمہ،راول پنڈی)

ج: مضمون ناقابلِ اشاعت ہے، کیوں کہ ہمارے یہاں امراض سے متعلق تحریریں صرف مستند معالجین ہی کی شایع کی جاتی ہیں۔

* سنڈے میگزین، ای میگزین کی صُورت اَپ لوڈ کیوں نہیں کیا جارہا۔ یہ جس نئے فارمیٹ میں ’’نیٹ ایڈیشن‘‘ آرہا ہے، یہ بالکل قابلِ مطالعہ نہیں ہے۔ خصوصاً ہم جیسے عُمررسیدہ افراد کے لیے تو بالکل بھی نہیں۔ (ادریس سوریا، ریٹائرڈ آفیسر)

ج: آپ کی شکایت متعلقہ شعبے تک پہنچا دی گئی ہے۔

* مجھے کچھ ضروری معلومات درکار ہیں۔ کیا مَیں ای میل کے ذریعے تحریر بھیج سکتا ہوں۔ اگر اِسی فارمیٹ میں بھیجوں، جیسے یہ ای میل بھیج رہا ہوں تو تحریر قابلِ اشاعت ہوگی یا الگ فائل کی صُورت اٹیچ کروں۔ آپ لوگ کون سا فارمیٹ قبول کرتے ہیں۔ (غلام قادر، سیال کوٹ)

ج: سب سے بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ اُردو اِن پیج فارمیٹ میں الگ فائل کی صُورت بھیجیں لیکن، اگر یہ ممکن نہ ہو تو ورڈ کی فائل بھی بھیج سکتے ہیں اور جس فارمیٹ میں آپ نے یہ ای میل کی ہے، اُس صُورت بھی بھیج سکتے ہیں۔

* میرے پاس ایک ایسا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے کہ اگر وہ آپ کے جریدے میں شایع ہوگیا، تو جریدے کی اشاعت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ مَیں وہ آپ کو آڈیو کی صُورت بھیجوں یا قسط وار لکھ کر، کیوں کہ وہ اتنا طویل ہے کہ ایک دفعہ میں پورا شایع نہیں ہوسکتا۔ (عامر نجم، لاہور)

ج: آپ مکمل واقعہ ایک ساتھ ہی لکھ کر بھیج دیں، اگر قابلِ اشاعت ہوا تو ہمیں جیسے مناسب لگے گا، ہم شایع کردیں گے۔ ہاں البتہ یہ آڈیو والا آئیڈیا فی الوقت اپنے پاس ہی محفوظ رکھیں، میگزین کی سرکولیشن تو بعد میں بڑھے گی، ایک نیا سردرد پہلے شروع ہوجائے گا۔ اللہ نظرِ بد سے بچائے، اپنےفارغ البال بھائی بند تو ویسے ہی نت نئے آئیڈیاز کی تلاش میں رہتے ہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk