سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد کی تحریک کا جہاں تک تعلق ہے یہ ایک سیاسی عمل ہے، تحریکِ عدم اعتماد پر آئین کے تحت عمل ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن جماعتوں کو کہیں گےکہ وہ بھی قانون کے مطابق عمل کریں، اٹارنی جنرل صاحب! آپ 63 اے میں ریفرنس دائر کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل ریفرنس صبح تک دائر کر دیں تاکہ ہم اس کی سماعت کریں، اس میں عدالت کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئندہ آئین اور قانون پر سختی سے عمل ہوگا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت یقینی بنائے گی کہ قومی اداروں کو تحفظ فراہم کرے۔
انہوں نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ 63 اے کے حوالے سے عدالت کی رائے چاہتے ہیں، ہم وہ معاملہ بھی اس درخواست کے ساتھ سن لیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیاسی عمل قانون کے مطابق ہونا چاہیے، تشدد کوئی راستہ نہیں ہے، میری درخواست ہو گی کہ صدارتی ریفرنس کی الگ سماعت ہو، اس کا سپریم کورٹ بار کی درخواست سے کوئی تعلق نہیں۔
سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی، ن لیگ، پی ٹی آئی اور جے یو آئی ف کو نوٹس جاری کر دیا۔
عدالتِ عظمیٰ نے درخواست کی سماعت پیر کو دن 1 بجے تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ تصادم کے ممکنہ خطرے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آئینی درخواست سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے یہ درخواست پیر کو سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی۔
درخواست میں وزیرِ اعظم عمران خان، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزارتِ داخلہ، وزارتِ دفاع، آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فریق بنایا گیا۔
سپریم کورٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سندھ ہاؤس پر حملے کے بعد یہ درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی ہے۔
ترجمان سپریم کورٹ نے بتایا ہے کہ سوموٹو نہیں لیا گیا ہے، 2 رکنی بنچ احسن بھون کی پٹیشن پر سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پٹیشن سیاسی جماعتوں کو تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل اسلام آباد میں جلسے سے روکنے سے متعلق ہے۔
واضح رہے کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں نے گزشتہ روز اسلام آباد میں سندھ ہاؤس پر دھاوا بول دیا اور گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئے۔
پی ٹی آئی کارکنان نے ہاتھوں میں لوٹے اورڈنڈے اٹھا رکھے تھے، انہوں نے منحرف ارکان اور حزبِ اختلاف کے خلاف جبکہ وزیرِ اعظم عمران خان کے حق میں نعرے لگائے۔
اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری سندھ ہاؤس کے باہر پہنچ گئی جس نے پی ٹی آئی کارکنوں کو واپس جانے کی ہدایت کی۔
اس دوران پی ٹی آئی کارکنوں نے اسلام آباد پولیس کے ایس پی سے تلخ کلامی کی اور سندھ ہاؤس کے باہر سے واپس جانے سے انکار کر دیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے اراکین اپنی سیٹوں سے استعفیٰ دیں۔
اس دوران پی ٹی آئی کے کارکنان مشتعل ہو گئے جو سندھ ہاؤس کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئے اور نعرے بازی کی۔
پولیس نے تحریکِ انصاف کے 2 ارکانِ قومی اسمبلی فہیم خان اور عطاء اللّٰہ نیازی سمیت 12 افراد کو گرفتار کر لیا جنہیں بعد ازاں شخصی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کارکنوں نے پشاور، لاہور، فیصل آباد اور نارووال میں بھی منحرف ارکانِ قومی اسمبلی کے خلاف مظاہرے کیے۔
’’یہ ٹریلر ہے، فلم ابھی باقی ہے‘‘
سندھ ہاؤس پر دھاوا بولنے والے پی ٹی آئی رکنِ قومی اسمبلی فہیم خان نے کہا ہے کہ یہ ٹریلر ہے، فلم ابھی باقی ہے۔
واقعے پر وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سندھ ہاؤس کو نیا چھانگا مانگا بنائیں گے تو عوام کی نفرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ لوٹوں کو کہیں اور شفٹ کر لیں ورنہ پورا مہینہ تماشہ لگا رہے گا، ہم کس کس کو روکیں گے۔
’’نہ کوئی ووٹ خرید رہا ہے اور نہ کوئی بیچ رہا ہے‘‘
مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت کا کہنا ہے کہ یہ عدم اعتماد کی پہلی تحریک ہے جس میں نہ کوئی ووٹ خرید رہا ہے اور نہ کوئی ووٹ بیچ رہا ہے، یہ محض پروپیگنڈا ہے۔
انہوں نے اپیل کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں جلسے ملتوی کر دیں، کوئی مرگیا یا مروا دیا گیا تو سب پچھتائیں گے۔