• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس خط کے اقتباسات آج آپ سے شیئر کر رہا ہوں، وہ خط میرے نام نہیں ہے۔ وہ خط نادار ادارے کے کرتا دھرتا، یعنی ناظم اعلیٰ، یعنی چیف ایگزیکٹو کے نام لکھا گیا ہے۔ اس خط کی کاپیاں مختلف لوگوں کو آگاہ رکھنے کے لیے بھیجی گئی ہیں۔ ان مختلف لوگوں میں ایک نام اس فقیر کا بھی ہے۔ لوگوں کی فہرست دیکھ کر مجھے تعجب ہوا۔ فہرست میں اپنا نام دیکھ کر بخدا مجھے مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا ہوا محسوس ہوا۔ درخواست گزار یعنی خط لکھنے والے نے خط کی کاپیاں صدر مملکت، وزیر اعظم، چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، فوج کے سربراہ، اسپیکر قومی اسمبلی، مختلف سیاسی پارٹیوں کے سربراہان، گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان، چاروں صوبوں کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کو ارسال کی ہیں۔ خط کی ایک کاپی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی بھیجی گئی ہے۔ ایسی فہرست میں اپنا نام دیکھ کر کس بدبخت کو تعجب نہیں ہوگا۔ خط لکھنے والے نے اپنا نام متلاشی لکھا ہے۔ پتا تحریر کرنے کی بجائے متلاشی نے اپنے خط میں لکھا ہے:’’خانہ بدوش ہوں۔ ازلی سفر جہاں تھمتا ہے، پھر چاہے وہ بستی ہو یا ویرانا، رات وہیں بسر کرتا ہوں۔ میرا مستقل پتا کوئی نہیں ہے۔ کئی مرتبہ ایسے بھی ہوا ہے کہ پولیس والے مجھے میرے مخدوش سلیپنگ بیگ سمیت اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ قومی شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث پولیس والے طرح طرح کے الزامات لگا کر میری پٹائی کرتے ہیں۔ مجھے مارتے مارتے جب تھک جاتے ہیں تب ادھ موا سمجھ کر مجھے کبھی کسی نالے، کبھی کچرے کے کسی ڈھیر پر، کبھی کسی قبرستان میں چھوڑ آتے ہیں۔ وہ مجھے کسی پڑوسی ملک ایران، افغانستان اور ہندوستان کا جاسوس سمجھتے ہیں۔ بعد میں مجھے کھسکا ہوا سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ صبح ہوتے ہی شعوری طور پر ازلی سفر پر چل پڑتا ہوں۔ اسلئے میرا کوئی مستقل پتہ نہیں ہے‘‘۔ازلی سفر کی وضاحت کرتے ہوئے متلاشی نے اپنے خط میں ایک جگہ لکھا ہے:’’ہم سب ازلی سفر کے مسافر ہیں۔ کبھی شعوری طور پر کبھی لاشعوری طور پر ہم نامعلوم منزل کی طرف چلتے رہتے ہیں۔ جاگتے ہوئے، سوتے ہوئے پراسرار سفر جاری رہتا ہے۔ ہمارے مرجانے کے بعد بھی پراسرار سفر جاری رہتا ہے‘‘۔میری طرح آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ افراتفری کے عالم میں متلاشی کا ذریعہ معاش کیا ہوسکتا ہے؟ خط کے لب و لہجے سے نہیں لگتا کہ وہ چور اچکا، ڈاکو، یا پھر دائمی جرائم پیشہ ہے۔ اچھا خاصا پڑھا لکھا ہے۔ روزی روٹی کیلئے وہ چھوٹے موٹے کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ متلاشی کو مستقل ملازمت اس لیے نہیں ملتی کہ اسکے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہے۔ متلاشی کے بارے میں آپ کو میں بدظن کرنا نہیں چاہتا۔ ہمارے معاشرے میں شناختی کارڈ حاصل کرنا جوئے شیر کا لانا نہیں ہے۔ بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ پیسہ پھینک، تماشا دیکھ۔ متلاشی کے خط سے اقتباسات پڑھیں۔

محکمہ نادرا کے منتظم اعلیٰ یعنی چیف ایگزیکٹو کے نام اپنے خط میں متلاشی نے ایک جگہ لکھا ہے:’’میں تاریخ کا طالب علم ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تقسیم ہند کے نتیجے میں برصغیر کو وحشی بلوؤں کی آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں خواتین کی بے حرمتی ہوئی تھی۔ مجھے معلوم ہے کہ سرحد کی دونوں جانب، ہندوستان اور پاکستان میں دربدر لوگوں کیلئے کیمپوں میں ایسے بچوں نے جنم لیا تھا جن کی ولدیت کے بارے میں بدنصیب مائیں کچھ نہیں جانتی تھیں۔ ایسے اناتھ، نومولود بچوں کی نسل کو ’’بٹوارے کے بچے‘‘، Children Of The Partition کہا جاتا تھا۔ مائوں نے ان کو کچرے کے انبار، گڑھوں، اور گندے نالوں میں نہیں پھینکا تھا۔ مائوں نے تدبر اور دانش مندی سے بچوں کو فرضی ولدیت دے کر بڑا کیا تھا۔ مائوں نے بچوں کو باور کروایا تھا کہ ان کے والد فسادات میں مارے گئے تھے۔ سرحد کی دونوں طرف، پاکستان اور ہندوستان میں بٹوارے کے بچوں کی نسل خیر سے اب چوہتر برس کی سینئر سٹیزن بن چکی ہے‘‘۔ تاریخ کے پنے پلٹنے کے بعد متلاشی نے چیئرمین محکمہ نادرا کو کتھا سناتے ہوئے اپنے خط میں لکھا ہے:۔’’میری بدنصیب ماں نے مجھے فرضی ولدیت اسلئے نہیں دی کہ میں کسی ماں کی گود میں بل کر بڑا نہیں ہوا ہوں۔ میں تب نوزائیدہ، یتیم خانہ والوں کو کچرے کے ڈھیر پر پڑا ہوا ملا تھا۔ میں یتیم خانہ میں پل کر بڑا ہوا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ میری ماں کون تھی۔ میں نہیں جانتا کہ میرا باپ کون تھا۔ شعور سنبھالنے کے بعد میں نے یتیم خانہ کی طرف سے ملا ہوا نام مسترد کردیا ہے۔ چونکہ مجھے اپنی شناخت کی تلاش ہے۔ اسلئے میں نے اپنا نام متلاشی رکھا ہے۔ شناختی کارڈ کیلئے درخواست فارم میں والد کے نام والے خانے میں، میں نے لکھا ہے، نامعلوم۔ ان کوائف کیساتھ مجھے شناختی کارڈ جاری کیا جائے‘‘۔خط کے آخر میں متلاشی نے معاشرے کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی بات لکھی ہے۔ متلاشی نے لکھا ہے:’’میں تن تنہا نہیں ہوں۔ روزانہ میری نسل کی افزائش ہورہی ہے۔ روزانہ میری طرح کے نوزائیدہ گٹروں، کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں، اور گندے نالوں میں پڑے ہوئے ملتے ہیں۔ جو نوزائیدہ میری طرح کتوں کا نوالا بننے سے بچ جاتے ہیں، ان کو یتیم خانے والے اپنے ہاں لے جاتے ہیں۔ وہ میری طرح یتیم خانے میں پل کر جواں ہوتے ہیں۔ اس نسل کے بارے میں سوچئے سرکار…‘‘

تازہ ترین