• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صالح ظافر

خصوصی تجزیہ نگار جنگ گروپ

طبع خانے کی تاریخ قبل از مسیح دور سے ملتی ہے جب چین میں اسے ایجاد کیا گیا۔ اسے صحافت کے بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم عصری صحافت کا عہدچار صدیوں کے لگ بھگ شروع ہوا جب یورپ میں طباعت کے لیے مشینیں استعمال کرنے کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے صحافت خط و کتابت کے روپ میں تھی جس کا دائرہ بہت محدود تھا اور اس سے معدودے تھوڑے افراد ہی استفادہ کرسکتے تھے۔ یوں معلومات چند مراعات یافتہ افراد کے پاس ہی رہتیں۔ اسی دوران اطلاعات کی ایک سے دوسری جگہ ترسیل سرکاری ضرورتوں اور کاروباری مقاصد کے لیے لازم ٹھہری تو دستی تحریروں کی ابتداء ہوگئی۔ 

ابتداء ہی سے اس کے بانی نے جدید ٹیکنالوجی پر نظر رکھی اور وقتاً فوقتاً اسے ادارے کا حصّہ بنایا

یہ بھی وسیع الاشاعت نہیں تھیں۔ موجودہ صحافت مغربی ممالک سے شروع ہوئی اوراس کا دائرہ وسیع ہوتے ہوتے مشرق کی جانب آیا۔بالخصوص نوآبادیاتی دور میں اسے فروغ ملنا شروع ہوا۔ غیر ملکی حکم راں اپنی نفسیاتی بالادستی کی فکر کے تحت(جس کے ذریعے ان کے ترقی یافتہ ہونے کا تاثر پختہ ہوتا تھا) اپنے یہاں کی صحافت کو جنوبی ایشیا میں لائے۔ اس سے یقینی طور پر مفتوح اقوام بہت مرعوب ہوئیں۔ جنوبی ایشیا میں انگریزوں نے اپنا تسلط جما رکھا تھا۔وہ یہاں نہ صرف انگریزی کی ترویج چاہتے تھے بلکہ ان کی خواہش تھی کہ یہاں تہذیب و تمدن کو باطل کرکے اپنی روایات کو غالب کریں۔ اسی جذبے کے تحت انگریزوں نے غیر منقسم ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں ایسے مراکز قائم کئے جہاں فرنگی رسوم و رواج کی تربیت دی جاتی بلکہ انہیں فروغ دینے کی غرض سے ایسے افراد کو لاکر بٹھایا گیا جو مقامی لوگوں کی غلامانہ خُو کو پروان چڑھائیں۔ 

یہاں طبع خانے بھی قائم کئے گئے۔ اس سلسلے میں پہلا مرکز مدراس میں قائم کیا گیا جہاں سےیہ سلسلہ پہلے بنگال اور بعدازاں ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی جانب پھلایا گیا۔ اسے حسن اتفاق ہی کہا جائے گا کہ ہندی اور بنگالی زبانوں کی شناخت ہونے کے باوجود ہندوستان کے کسی بھی علاقے میں یہ خیال کسی ہندو کے دل میں جاگزیں نہیں ہوا کہ وہ صحافت کو اپنی زبان میں منتقل کریں تاکہ ان اقوام کے درمیان رابطوں میں اضافہ ہوسکے۔یہ اعزاز برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کو حاصل ہوا، جو اس وقت موجودہ پاکستان کے علاقوں میں رہتے تھے یا پھر ہندوستان کے پایہ تخت دہلی اور اس کے اردگرد کی ان ریاستوں میں ،جہاں اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی تھی اور ضبط تحریر میں بھی لائی جانے لگی تھی۔

ویسے تو غیر منقسم ہندوستان میں سنسکرت کو غلبہ حاصل تھا جس میں صحافت، اردو صحافت کی ترویج کے کم و بیش پون صدی بعد بڑے پیمانے پرشروع ہوئی۔ برصغیر میں اردو صحافت کی مجموعی تاریخ دو صدیوں سے بھی کم عرصے پر محیط ہے جس میں طبع خانے کا استعمال ہوا۔ بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو اردو صحافت عروج پذیر تھی اور اس کا مرکز لاہور تھا جس کے ڈانڈے دہلی، یوپی، سی پی سے بھی ملتے تھے۔ اس اردو صحافت کی سرپرستی مسلمانوں نے کی اور انہیں بعض علاقوں میں اردو بولنے اور سمجھنے والے ہندوئوں سے بھی اعانت ملی۔ غیر ملکی حکمرانوں نے اس سے تعرض نہیں کیا، وہ فراخدلی سے ان کی سرپرستی نہیں کرتے تھے۔ 

ان کے ذہن میں یہ بات کسی طور پر موجود تھی کہ وہ مسلمانوں کو ہندوستان کے اقتدار سے بے دخل کرکے اس پر قابض ہوئے ہیں۔ انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ مسلمان باہم ابلاغ اور علمی ترقی کے ذریعے کسی بھی وقت اپنے گم گشتہ اقتدار کو بازیاب کرانے کیلئے سر اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ صحافت کے اس رجحان کو ابھرنے ہی نہ دیتے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو وہ جنگ آزادی جو آگے چل کر تیز ہوئی، بہت پہلے ہی شروع ہوجاتی۔ اٹھارہویں صدی کے وسط سے آخر تک رسالے اور جریدے شائع ہوئے جن میں بہادری کا پیغام ضرور موجود ہوتا۔ غیر ملکی حکمرانوں نے پوری نوآبادی میں سراغرسانی کا جال بچھا رکھا تھالہذا ان کی نظروں سے صحافت کیونکر اوجھل رہ سکتی تھی۔ ابتدائی عشروں میں صحافیانہ کاوشیں ادارے کے طور پر انہیں استوار کرنے پر مرتکز رہیں۔

جونہی مشینی طباعت کا سلسلہ وسیع ہوا صحافی آزادی کا پیغام پھیلانے لگے۔ بیسویں صدی شروع ہوچکی تھی، اس میں برصغیر کا اردو داں طبقہ سرخیل کا کردار ادا کررہا تھا۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہا۔ اس دوران انگریز حکمرانوں نے محسوس کیا کہ ہندوستانی صحافت ان کے خلاف بغاوت کے بیج بو رہی ہے اور شائع ہونے والے خبارات میں علم و عرفان سے زیادہ آزادی کی تڑپ پیدا کرنے کے لیے مواد شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ اس عرصے میں بڑے بڑے انشا پردازوں نے جنم لیا اور شاعر منصہ شہود پر نمودار ہوئے، جنہوں نے غلامی کا طوق اتار پھینکنےکے لیے انقلابی پیغام دیا۔ اسی عرصے میں علمائے دین نے آبیاری کو یقینی بنانےکے لیے عظیم الشان کردار ادا کیا۔ صحافت اور سیاست کے آمیزے سے جنم لینے والے اخبارات اور جرائد نے قوم میں نئی روح پھونکنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں بیرونی سامراج سے نجات کے لیے سیاسی عمائدین، ان کی جماعتوں اور مذہبی حلقوں نے لائق تحسین کردار ادا کیا، وہاں اردو صحافت نے قافلہ سالار کا فریضہ انجام دیا جس کا ایک مرکز دہلی اور دوسرا لاہور میں قائم تھا۔ ایک صدی قبل جب پہلی جنگ عظیم ختم ہورہی تھی اور پوری دنیا میں بے اطمینانی اور انتشار کی ہوائیں چل رہی تھیں، برصغیر میں آزادی کا جذبہ توانا ہوتا چلا گیا۔ قابض حکمراں جنگ عظیم میں ہونے والے خسارے کی وجہ سے کمزور پڑ رہے تھے تاہم ان کے قوا میں اس قدر قوت برقرار تھی کہ وہ ہندوستان کو زیرنگیں رکھنے میں زیادہ دِقّت محسوس نہیں کررہے تھے۔اس ہندوستان سے انہیں نہ صرف دولت مل رہی تھی بلکہ عندالضرورت افرادی قوت بھی دستیاب تھی جسے وہ اپنی جنگ کے ایندھن کے طور پر بے رحمی سے استعمال کررہے تھے۔ 

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانی عرصے میں برصغیر کی صحافت کو خوب فروغ ملا۔ اس ترقی میں وہ مزاحمت اہم کردار ادا کررہی تھی جو غیر ملکی قبضے کے خلاف مسلمانان برصغیر کے دلوں میں بڑھ رہی تھی اور اسے ملکی صحافت جلا عطا کررہی تھی۔ انگریزوں نے اخبارات و جرائد کو طبع کرنے والے ان اداروں کے لیےطرح طرح کی مشکلات پیدا کرنا شروع کر دیں جو ان کے اشارےپر نہیں چلتے تھے۔ یہ تکلیف دہ اتفاق تھا کہ اس مرحلے پر مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان تفاوت شدّت اختیار کرگئی۔ ہندوئوں کے زیراثر صحافت انگریز آقائوں کی طرف دار بن گئی اور وہ اس عرصے میں ٹوڈی کا گھنائونا کردار ادا کرتی رہی جس سے مسلمانوں کو نقصان سے زیادہ تکلیف کا احساس ہوتا تھا کہ ایسے ماحول میں جب انگریزوں سے آزادی کے لیے تمام اقوام کو ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جدوجہد کرنی چاہئے، ہندوئوں کی قابل لحاظ تعداد انگریزوں کے حاشیہ بردار کا کردار ادا کررہی تھی۔

اس زمانے میں انگریزوں نےہندو صحافیوں کی خوب سرپرستی کی کہ وہ آزادی کے بجائے خودمختاری کی بات کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ انگریز انہیں ہندوستان میں اپنا جانشین تصور کریں۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ہندو صحافیوں اور سیاستدانوں نے پرلے درجے کی عیاری سے کام لیا۔ وہ انگریزوں کا پٹھو بننے میں فخر محسوس کرتے تھے اور مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنا ان کی اولین ترجیح بن گیا تھا۔ انڈین کانگریس جسے انگریزوں نے تخلیق کیا تھا، تاکہ وہ ہندوستان میں اس کی سیاسی اغراض کو پورا کرسکے، اس میں ہندوئوں کو غلبہ دلایا گیا۔ اس میں مسلمان اور دیگر اقوام اس جذبے کے تحت شامل ہوئی تھیں کہ آخرکار کانگریس ہندوستان کو انگریزسے آزادی دلانےکا نعرہ اختیار کرے گی۔ 

ہندو صحافت نے کھل کر انڈین کانگریس کا ساتھ دیا۔ اس زمانے میں برصغیر کے مسلمانوں میں احساس پیدا ہوا کہ انڈین کانگریس اور ہندو انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے لیے زیادہ سرگرم نہیں ۔ وہ آزادی کا حصول چاہتے بھی ہیں تو اپنے لیے ،کیوں کہ وہ انگریزوں کے بعد ہندوستان پر حکمرانی کو اپنا استحقاق تصور کرتےتھے۔ ان کے اس نظریئے کی بھرپور ترجمانی ہندو پریس کررہا تھا۔ اسی دور میں مسلمان صحافت میں ہندوؤں سے علیحدہ طرزعمل اختیار کرنے کی راہ دکھائی گئی۔ کانگریس کی جڑیں گہری نہیں تھیں، اس کی طرف داری انگریز کرتے تھے اور ہندو صحافت ان کا بھونپو بن کر رہ گئی تھی۔ عین اسی زمانے میں ’’جنگ‘‘ کے بانی میرخلیل الرحمٰن مرحوم پنجاب کے دور افتادہ علاقے وزیرآباد سے اٹھ کر لاہور ہوتے ہوئے دہلی پہنچے تھے۔ 

دہلی میں ہندو صحافت کو مقابلتاً زیادہ غلبہ حاصل تھا۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی اور انگریزوں کے لیے اس اعصاب شکن جنگ میں اپنا توازن برقرار رکھنا مشکل ہورہا تھا۔ وہ ہندوستان سے دھڑادھڑ افرادی ایندھن اور دیگر وسائل محاذ جنگ پر منتقل کررہے تھے۔ ہندو بھانپ چکے تھے کہ انگریزوں کا اقتدار اس جنگ کے اختتام پر جانبر نہ ہوسکے گا۔ اب وہ گہری سازشوں میں مصروف تھے جن میں ہندو صحافت اپنے ہم مذہبوں کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دے رہی تھی۔ 

ایسے میں میر خلیل الرحمٰن مرحوم نے نہ صرف ’’جنگ‘‘ کی اشاعت یقینی بنائی بلکہ اسے مسلمانان ہند کے جذبات کا ترجمان بھی بنا دیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ میر خلیل الرحمٰن کو گرفتاری کرکے پابند سلاسل کیا گیا۔ دہلی میں ’’جنگ‘‘ کا اجراء جن حالات میں ہوا، وہ بہت ناگفتہ تھے۔ ہندو صحافیوں کو صحافت کی تمام ترجدید سہولتیں حاصل تھیں بلکہ ہندو سرمائے کی فراوانی کے باعث وہ بہت آسودہ حال تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہندوستان کی آزادی کے لیےجاری تحریک کا صحافت سے چولی دامن کا ساتھ تھاتو غلط نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کے سیاسی نظریات کو ابھارنے کے لیے اردو صحافت نے گرانقدر کردار ادا کیا۔

ہندوستان میں اخبارات کی طباعت میں پتھر کے بلاک کا استعمال ہوتا تھا۔ یہ بہت دشوار طریقہ طباعت تھا اس کے باوجود اخبارات کی محدود اشاعت کے لیے اسے برسوں استعمال کیا جاتا رہا۔ اسی دوران برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے لکڑی کے بلاک سے طباعت کرنے والی مشین آنا شروع ہوگئی۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں لیتھو ٹائپ کی طباعت شروع ہوگئی۔ اردو اخبارات میں’’جنگ‘‘ پہلا روزنامہ تھا جس نے لیتھو طرزطباعت اختیار کیا۔

اس میں زرد رنگ کے کاغذ پر کاتب تحریرکرتا تھاجو جستی چادر پر چھاپے کے ذریعے منتقل ہوتی اور پھر چادر کو مشین کے رولر میں نصب کردیا جاتا۔یوں مشین میں ڈالے گئے اوراق پر جستی چادر پر کنندہ الفاظ طبع ہوجاتے۔ ان اوراق کو تہہ کرکے اخباری شکل دے دی جاتی۔ ان لیتھو مشینوں کے آنے سے نہ صرف طباعت کا کام ازراں ہوگیا بلکہ اخبارات کو بڑی تعداد میں طبع کرنا ممکن ہوگیا۔ آگے چل کر طباعت کے شعبے نے بہت ترقی کی۔

’’جنگ‘‘کا اجراء مرحوم میر خلیل الرحمٰن نےدِلّی سے کیا تھا جہاں اردو داں طبقہ بہت بڑی تعداد میں موجود تھا۔ ان میں ہندوئوں اور سکھوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی تاہم انہیں اردو سے لگائو نہیں تھا۔ ہندو سنسکرت میں تحریرشدہ ہندی کو پسند کرتے تھے۔یہ دیوناگری طرز تحریر بھی کہلاتا تھا۔ سکھ مت کے لوگوں کو گورمکھی طرز تحریر پسند تھی جس میں ان کی رہنما کتاب ’’گرنتھ صاحب‘‘ تحریر تھی۔ ’’جنگ‘‘ اخبار کا نام دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے عام فہم ہونے کی بنا پر رکھا گیا تھا۔ ہر شخص جنگی حالات کے بارے میں آگاہی کا خواہاں تھا۔ مرحوم خلیل الرحمٰن نے جنگ کے بارے میں معلومات یکجا کرنے کیلئے خصوصی ذرائع وضع کئے تھے۔ 

مواصلاتی نظام فرسودہ تھا، تار کے ذریعے معلومات کی ترسیل ہوتی تھی۔ جنگ کے بانی نے ایک طرف تار گھروں میں تعلقات پیداکیے تھےتو دوسری جانب نئی دہلی میں معلومات کا ذریعہ بھرتی کے وہ دفتر تھے جہاں انگریزوں کے مقرر کردہ افراد یا خود انگریز متعین ہوتے تھے۔ انہیں اپنے ذرائع سے ’’محاذ جنگ‘‘ سے موصولہ اطلاعات پر دسترس حاصل تھی۔ خاص طور پر ان محاذوں پر جہاں ہندوستان سے بھرتی شدہ افراد برسرپیکار تھے۔ ان کے حوالے سے تفصیلی اور مستند معلومات ان دفاتر تک پہنچتی تھیں۔ عام لوگوں کو زیادہ تر دلچسپی اپنے جوانوں کے بارے میں ہوتی تھی کہ وہ جنگی محاذ پر کس حالت میں ہیں اور جس محاذ پر وہ دادشجاعت دے رہے ہیں، وہاں جنگی صورتحال کیا ہے؟مرحوم میر خلیل الرحمٰن تن تنہا پہلے جنگی حالات کے بارے میں معلومات یکجا کرتے پھر انہیں ضبط تحریر میں لاتے۔ اس طرح ان کی محنت شاقہ رنگ لاتی۔

دہلی میں ہندو بھی اردو اخبارات نکالتےتھے۔ ان میں ’’پرتاب‘‘ اور ’’ملاپ‘‘ کو بہت شہرت حاصل تھی۔ ان کے پاس خبروں کے ذرائع تقریباً ناپید تھے۔ بسااوقات یہ اخبار جنگ میں شائع شدہ خبروں کو اپنی اطلاع بنا کر شائع کردیتے۔ دہلی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں تازہ خبروں کے لیے ’’جنگ‘‘ پر انحصار ہوتا تھا۔ اسی اثناء میں ریڈیو سروس بھی شروع ہوچکی تھی، اس کا معیار حددرجہ پست تھا۔ پھریہ کہ ریڈیو سیٹ چند افراد کے پاس تھے۔ ریڈیو سے حاصل شدہ خبروں کو بھی ’’جنگ‘‘ میں بڑی ترتیب کے ساتھ شامل اشاعت کیا جاتا۔ نظریہ ہی نہیں معیار، طباعت اور مواد تینوں اجزاء ایسے تھے جو مسلمان آبادی کو بہت پسند تھے۔

میر خلیل الرحمٰن مرحوم کراچی منتقل ہوئے تو برنس روڈ پر دو کمروں کے فلیٹ میں اپنا دفتر قائم کیا۔ انہیں کراچی میں لیتھو پر اخبار طبع کرنے کے لیےطبع خانے مل گئے جس سے ان کی مشکلات کا ایک حصہ کم ہوا۔ اس دور میں اِکّا، دُکّا اردو اخبارات شائع تو ہوتے تھے لیکن ’’جنگ‘‘ بہت جلد مقبول عام اخبار بن گیا۔ مرحوم نے یوں حاصل شدہ وسائل کی بدولت اپنا پرنٹنگ پریس بھی لگا لیا جس میں لیتھو کی جدید مشینری لگائی گئی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جنگ اخبار کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنا ممکن ہوگیا۔ اس عرصے میں مرحوم کو کئی اہل قلم کی خدمات بھی حاصل ہوگئیں جنہیں مرحوم نے اپنے قافلے میں شامل کرلیا۔ 

اس طرح اچھوتی تحریریں روزنامہ جنگ کی زینت بننے لگیں۔ لیتھو کی عمدہ طباعت کے باعث اسے دوسرے ہم عصر اخبارات پر برتری حاصل تھی۔ میر صاحب نے جو خود بھی عمدہ خوش نویس تھے، ڈھونڈ ڈھونڈ کر خوش نویس لائے اور انہیں اپنے ادارے کا حصہ بنایا۔ یہ سلسلہ 1960کے عشرے کی ابتداء تک چلتا رہا۔ اس عرصے میں میر خلیل الرحمٰن مرحوم کو دنیا کے دیگر مراکز میں ہونے والی صحافتی سرگرمیوں اور ترقی سے آگہی حاصل ہوگئی۔ انہوں نے 60ء کے عشرے کے ان ہی ابتدائی برسوں میں ونڈا ٹیک طرز کی پرنٹنگ شروع کی۔ اس طرح روزنامہ جنگ نے پاکستان میں جدید طرزطباعت کی دنیا میں قدم رکھ دیا اور جنگ وہ پہلا اخبار تھا جس میں ونڈ اٹیک طرز طباعت کو اختیار کیا۔ اس میں زرد کے بجائے دودھیا رنگ کے سرمئی مائل کاغذ پر کتابت کی جاتی جسے جدید انداز میں تیار کردہ جستی چادروں پر منتقل کیا جاتا۔ اس میں تحریر کے ساتھ تصویر کی اشاعت کی گنجائش بھی پیدا ہوگئی اور اخبار حددرجہ دیدہ زیب دکھائی دینے لگا۔

میرخلیل الرحمٰن مرحوم نے جہاں اخبار میں شائع کرنےکے لیےاچھے سے اچھا مواد حاصل کرنے کی غرض سے صف اول کے لکھاریوں کی خدمات حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا تھا، وہاں انہوں نے اخبار کے دیگر شعبوں بالخصوص طباعت کے لیے بہترین دماغوں کو بھی اپنے ساتھ ملانے پر بھرپور توجہ دی۔ اس طرح کراچی کو شان دار اشاعتی مرکز کا درجہ حاصل ہوگیا جو روزنامہ جنگ اور مرحوم میر خلیل الرحمٰن کی وجہ سے حاصل ہوا۔ اسی زمانے میں انقلاب آفریں آفسٹ پرنٹنگ شروع ہوئی۔ جنگ میں جدت طرازیاں اور پرنٹنگ کے ساتھ خبروں کے نئے اور منفرد ذرائع کے حصول پر بھی توجہ مرکوز ہوگئیں۔ 

سرکاری اور غیر سرکاری خبررساں ادارے دو طرح سے اپنی خبروں کی ترسیل کرتے تھے۔ ایک دستی ذریعے سے انہیں اخباری دفتر تک پہنچایا جاتا تھا، دوسرا طریقہ ٹیلی پرنٹر کے ذریعے خبر پہنچانے کا نظام تھا۔ روزنامہ جنگ پاکستان کا اولین اخبار تھا جس نے اپنے دفتر میں ٹیلی پرنٹر کی تنصیب بڑے اہتمام کے ساتھ کرائی۔ اس کے نتیجے میں ’’جنگ‘‘ کے دفتر میں رات اور دن کے کسی بھی حصے میں خبر پہنچ جاتی تھی جس سے اکثر اوقات جنگ کو معاصرین کے مقابلے میں برتری حاصل ہوجاتی۔ ریڈیائی وسائل سے خبروں کے حصول کو جنگ نے پہلی مرتبہ ایک جامع نظام کے تحت اختیار کیا۔ 

اس مقصد کے لیے طاقتور ٹرانسمیٹر حاصل کیے گئے جن سے تازہ بہ تازہ خبروں کا حصول ممکن ہوگیا۔ بین الاقوامی خبررساں اداروں سے خبریں حاصل کرنے کی ابتداء بھی اردو صحافت میں روزنامہ جنگ نے کی۔ اسی دوران امریکا اور جرمنی سے طباعت کی جدید ترین مشینری منگوائی گئی جس میں آفسٹ پرنٹنگ کاجدید ترین نظام اختیار کیا گیا تھا۔ اس میں بہ یک وقت ایک سے زیادہ رنگوں میں طباعت ممکن ہوتی تھی اور تصاویر کی اشاعت نفاست سے شروع ہوگئی۔

روزنامہ جنگ نے اسی دور میں قومی اور بین الاقوامی واقعات کی تصویری جھلکیوں پر مبنی خصوصی صفحات کی اشاعت کی بنیاد ڈالی جس کےلیے خصوصی ذرائع سے تصاویر حاصل کی جاتی تھیں۔ اب روزنامہ جنگ اپنے قارئین کو باقاعدگی سے خبروں کے صفحات کے علاوہ خصوصی میگزین بھی فراہم کررہا تھا۔ اس کی ابتداء بھی جنگ نے کی۔ مغربی پاکستان کے اردو اخبارات میں روزنامہ جنگ واحد اخبار تھا جس نے مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکا میں اپنا مکمل بیورو قائم کررکھا تھا جس سے جنگ کو مشرقی پاکستان سے خبروں کی ترسیل دیگر اخبارات کے مقابلے میں بہتر طور پر ہورہی تھی۔

اردو صحافت میں ہی نہیں اس کے طرزطباعت میں انقلاب کے امام میر خلیل الرحمٰن اس وقت بنے جب انہوں نے 1980 کے عشرے میںاردو نوری نستعلیق کمپوزنگ کا انتظام کیا۔ یوں کتابت کےبجائے کمپیوٹر کے ذریعے دیدہ زیب اردو کمپوزنگ سے پورا اخبار طبع ہونے لگا۔یوں کتابت کے ذریعے اخبار تیار کرنے کا دوراختتام پذیر ہوگیا۔ اسے دیگر اخبارات نے بھی قدرے تامل سے اختیارکرلیا۔ یہ بلاشبہ انقلاب آفریں قدم تھا جس نے اردو اخبارات اور جرائد کو رعنائی عطا کی وگرنہ اخبارات کو خوبصورت تر بنانامشکل تھا۔

پاکستان میں صحافت کی ٹیکنالوجی میں ترقی اورجِدّت کی بات کی جائے تو بلاشبہ جنگ گروپ کو سر کےتاج کی حیثیت حاصل ہے۔ صحافت کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس پر جنگ گروپ کی چھاپ موجود نہ ہو۔ جہاں تک ٹیکنالوجی کا تعلق ہے، اس میں میر خلیل الرحمٰن کی فہم و فراست بہت کام آئی۔ مرحوم کو اخبار کے ہر شعبے میں مہارت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ گروپ نے صحافتی دنیا میں ہمہ جہت ترقی کا اعزاز آغازِکار سے ہی اپنے نام رکھا۔